ہمارے ایک نابغہ روزگار حکمران
نے ایک بار فرمایا تھا کہ فوجی مر گئے تو کیا فوجی تو بھرتی ہی مرنے کے لئے
ہوتے ہیں اور کیا وہ اس کی تنخواہ نہیں لیتے ۔خدا لگتی کہوں تو یہ ایک اچھی
بات تھی جو برے لہجے میں کہی گئی تو دل کا روگ بن گئی۔اس میں کوئی شک نہیں
کہ اﷲ کے دین کی حفاظت اور اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے جان دینا ہر
اس شخص کی خواہش ہوتی ہے جو خاکی پہنتا ہے۔میں نے ایسے بھی کچھ لوگ دیکھے
جو شہری علاقوں میں تعینات تھے تو انہیں دیکھ کے افسوس ہوتا تھا کہ یہ وہ
لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے ملک کا دفاع کرنا ہے۔انہی لوگوں کو جب بارڈر پہ
اپنے فرائض ادا کرتے دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ان کی زندگی پہ رشک آیا اور
ہمیشہ دل سے یہی دعا نکلی کہ اے ہمارے رب! ہمیں بھی ان نوجوانوں جیسا جوش و
جذبہ عطا کر۔دشمن کی ہیوی آرٹلری کی فائرنگ کے دوران بھی وہ اپنے فرائض یوں
ادا کیا کرتے جیسے یہ بڑے دھانے کی توپوں کافائر نہ ہو ان کی بارات کے آگے
خوشی میں چلائے جانے والے شادی بم ہوں۔
۲۰۱۱ ء میں جب امریکی شہہ پہ نیٹو افواج نے سلالہ کی چیک پوسٹ پہ حملہ کیا
اور اس حملے میں۲۴ پاکستانی سپاہی شہید اور ۱۳ زخمی ہو گئے تو اس وقت بھی
ملک میں انتہائی بزدل، ڈرپوک اور میمو گیٹ فیم حکومت برسر اقتدار
تھی۔امریکہ سے جس کی وفاداری کا یہ عالم تھا کہ امریکہ میں سفیر پاکستان
تنخواہ تو پاکستان سے لیتا تھا لیکن کام امریکہ کے منشی کا کیا کرتا
تھا۔ریمنڈ ڈیوس قماش کے غنڈوں کو تھوک کے حساب سے ویزے اسی نابغے نے جاری
کئے تھے۔سلالہ میں فوجی شہید ہوئے تو فوج میں انتہاء کا اضطراب تھا۔فوجی
قیادت کو اس کا احساس تھا کہ اس مرحلے پہ اگر ان شہادتوں پہ مٹی پاؤ
فارمولا آزمایا گیا تو فوج لڑنے کے قابل نہیں رہے گی۔حکومت وقت کا یہ عالم
تھا کہ وہ بجائے احتجاج کے پاکستان پہ امریکی حملوں کی تحسین کیا کرتی تھی۔
اسی وطن فروش حکومت کی ریڑھ کی ہڈی میں سریا ڈال کے اسے امریکہ کے سامنے
کھڑا کیا گیا اور یوں نیٹو سپلائی روک دی گئی۔یہ سپلائی اٹھارہ ماہ تک رکی
رہی۔ اسی دوران پاکستان نے بون کانفرنس کا بائیکاٹ کیا اور نہ صرف یہ بلکہ
عالمی سطح پہ یہ تائثر بھی دیا کہ جب تک اس معاملے پہ امریکہ باقاعدہ معافی
نہیں مانگے گا یہ سپلائی روٹ نہیں کھولے جائیں گے۔
امریکہ نے اس سپلائی کے لئے جو متبادل روٹ اختیار کیا وہ نرا درد سر تھا۔
پانچ گنا زیادہ خرچہ اور اس پہ یہ بے یقینی کہ کب روس مداخلت کر کے یہ
راستہ بھی بند کر دے،امریکیوں کو بہر حال معذرت کرنے پہ مجبور کر دیا گیا۔
پاکستانی حکومت بھی اس وقت تک تقریباََ گھٹنوں پہ آ چکی تھی حالانکہ اس
معاملے پہ نیٹوکے اتحادیوں کے علاوہ ہمارے تقریباََ گونگے ہمالیائی دوست نے
بھی ہمارے مؤقف کی کھل کے حمایت کی تھی۔امریکنوں کو بالآخر اٹھارہ ماہ بعد
عقل آ ہی گئی۔ سیکریٹری آف سٹیٹ نے ایک ڈھیلی ڈھالی معذرت کی اور پاکستانی
حکومت نے اسی کو غنیمت جانا۔ اگر حکومت کو کھڑا کرنے کے لئے دیا گیا سریا
تھوڑا اور مضبوط ہوتا تو اوبامہ بھی معافی مانگتے۔مالک اپنی کسی غلطی پہ
معافی نہیں مانگا کرتے غلام کی تنخواہ بڑھایا کرتے ہیں۔ہماری بد قسمتی کہ
مسز کلنٹن کی ڈھیلی ڈھالی معذرت کے سوا ہماری تو تنخواہ بھی نہ بڑھ سکی۔
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہم اس معاہدے پہ نظر ِ ثانی کرتے اور اپنا حق طلب
کرتے۔ ہم نے اسے بھی آقا کی مرضی پہ چھوڑ دیا اور آقا ایک تیکھی سی مسکراہٹ
دے کے چلتا بنا۔ہم ہیں کہ کشکول ابھی تک ہاتھ میں ہے اور بھیک کے لئے ہماری
نظریں آقا کے دربار کی طرف لگی ہیں۔حکومت بدل گئی حسن طلب وہی ہے بلکہ
کشکول کا سائز کچھ اور بڑا ہو گیا ہے۔
ہمارے کشکول کے بڑھتے سائز کو دیکھ کے" ہمارے سلطان "نے اپنے ستم کا دائرہ
بھی بڑھا دیا ہے۔ پہلے وہ ہمارے ان علاقوں پہ حملہ آور ہوتا تھا جنہیں ہم
نے کبھی دل سے اپنا حصہ ہی نہیں سمجھا۔اب وہ خیبر پختونخواہ پہ حملہ آور ہے
جہاں تحریک انصاف حکمران ہے۔وہ جانے اور ہمارا سلطان۔ جن لوگوں نے فاٹا پہ
حملوں کی اجازت دی تھی وہ تو اب آرٹیکل چھ کا سامنا کر رہے ہیں۔اﷲ پاکستان
کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتا۔یقین نہ آئے تو اندرا
گاندھی،مجیب، بھٹوز اور ضیاء کی موت یاد کیجئیے میری بات سمجھ میں آ جائے
گی۔مشرف نے اگر اس ملک کے ساتھ کچھ برا کیا ہے تو اسے بھی معافی ملنا مشکل
ہے ۔تحریک انصاف پاکستانی عوام اور اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ نیٹو
سپلائی روکنے کے لئے متحرک ہے۔جب کہ وفاقی حکومت اور اس کے اتحادی مخمصے
میں ہیں کہ آ گے گریں تو منہ ٹوٹتا ہے اور پیچھے گریں تو کمر۔عمران کا ساتھ
دیں تو ر اقتدار ہاتھ سے جاتا ہے اور نہ دیں تو امریکی مخالف جذبات میں
تباہ و برباد ہونے کا اندیشہ ہے۔
یہ وقت سیاست کا نہیں ملک بچانے کا ہے۔ ملک اسی صورت بچ سکتا ہے جب ہم ایک
ہی نقطے پہ اپنی توجہ مر کو ز کریں اور ایک متفقہ ایجنڈا ترتیب دیں۔ایک بڑی
جنگ ہماری منتظر ہے۔ اس کا آغاز ہو چکا لیکن ہمارا لشکر ابھی تک صف آراء ہی
نہیں ہو پا رہا۔میمنہ اور میسرہ کی تو بات ہی کیا ، لشکر کے قلب میں کھلبلی
ہے۔ ایک وزیرکچھ کہتا ہے اور دوسرا کچھ۔ مشیروں کی بھی اپنی اپنی بولی ہے۔
پیپلز پارٹی ایم کیو ایم اور اے این پی تو خیر ہیں ہی باجگذار،وہ ملا بھی
جو اٹھتے بیٹھتے امریکہ کی مخالفت میں رطب اللسان رہتے ہیں یہ سپلائی روکنے
کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی پانچ چھ لاکھ فوج اپنے سپاہیوں کی شہادت
پہ نیٹو سپلائی کو اٹھارہ ماہ تک رکوا سکتی ہے تو کیا بیس کروڑ پاکستانی
اپنے بھائی بندوں کے مرنے پہ یہ کام نہیں کر سکتے۔
پیٹ سے سوچنے والے دانشوروں کی دانش ایک طرف،سب کچھ ہو سکتا ہے اگر سب متحد
ہوں۔ ایک اور اے پی سی جو یہ فیصلہ کرے کہ اب امریکہ کو اسی زبان میں جواب
دینا ہے جو زبان وہ سمجھتا ہے۔ امریکی صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں اور
پاکستانی قوم کو زیر نگیں لانے کے لئے اسے عراق افغانستان اور عراق سے بڑھ
کے کچھ کرنا پڑے گا کہ ہم ایک نیوکلیئر پاور ہیں۔ ڈرون ہمارے پاس بھی ہیں
اور جدید ترین میزائل بھی۔اگر نہیں ہے تو اتحاد و اتفاق نہیں۔نہیں ہے تو
ایک ایسا شیر دل حکمران جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات
کرسکے۔سیاست دان جو چاہیں سو کریں لیکن عوام کو اس شیردل کی تلاش جاری
رکھنی چاہئیے کیا پتہ اﷲ کریم کو پاکستانی قوم کی حالت پہ رحم ا ٓ ہی
جائے۔کیا پتہ وہ کہیں دھرنا دیتا مل جائے۔ |