کیا آپ نے ایف۔ایس۔سی کی ہے…؟

یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میری نئی نئی پوسٹنگ ہوئی تھی اور میں اپنے دفتر میں بیٹھا اسٹینو کو ایک آرڈر ”ڈکٹیٹ“ کر وا رہا تھا۔ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور میرا ایک سینئر کولیگ مسکراتا ہوا اندر آ یا اور اسٹینو کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے اٹھ کر اس سے ملنا چاہا، لیکن اس نے کہا کہ پہلے میں اپنا کام ختم کر لوں، پھر گپ شپ ہوگی۔ یہ دیکھ کر میں نے اسٹینو کو تیزی سے انگریزی میں ”ڈکٹیشن“ دینی شروع کی اور چند منٹوں میں اسے آرڈر لکھوا دیا اور ٹائپ کر کے لانے کو کہا۔ پھر میں اپنے کولیگ کی طرف متوجہ ہوا، جو پہلے ہی حیرت سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ موصوف نے انگشت شہادت میرے چہرے کی طرف بلند کی اور کسی ملنگ کے سے انداز میں بولے ”لگتا ہے آپ نے بھی ایف۔ایس۔سی۔ کی ہوئی ہے؟“ میں اس اچانک قسم کی پیش گوئی پر حیران ہوا اور پھر اثبات میں سر ہلا کر پوچھا ”لیکن آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں نے ایف۔ایس۔سی کی ہوئی ہے؟“ اس پر موصوف، بقول شفیق الرحمن، زیر مونچھ مسکرائے اور فرمایا ”اس لیے کہ ابھی آپ نے اپنے اسٹینو کو انگریزی میں ڈکٹیشن دی ہے اور یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے، جس نے ایف۔ایس۔سی کی ہو!“ میرے کولیگ کے لہجے میں ویسی ہی قطعیت تھی، جیسی ہمارے ایک ضرورت سے زیادہ سینئر کالم نگار کے کالموں میں ہوتی ہے، اس لیے ان کی یہ بات سن کر میں بھی زیر مونچھ مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ میں نے ان کے لہجے میں چھپے کرب کو محسوس کر لیا تھا اور یہ کرب وہی محسوس کر سکتا ہے، جس نے زندگی میں ایف۔ایس۔سی کی ہو۔ آپ میں سے جن لوگوں نے ایف۔ایس۔سی نہیں کی، وہ شاید حیران ہو رہے ہوں کہ یہ کون سا ایسا مشکل کام ہے …؟ لیکن ایسے تمام لوگوں کے لیے میں اس وقت وہی مثال دوں گا، جو عموماً صوفی حضرات اپنے معتقدین کو دیتے ہیں کہ ”بر خوردار! راہ تصوف کے تجربے بتائے نہیں جا سکتے، انہیں صرف وہی جان سکتا ہے، جو خود اس میں سے گزرا ہو۔“

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایف۔ایس۔سی میں ایسی کون سی خاص بات ہے، جس کی بِناء پر میں اسے اس قدر مشکل سمجھتا ہوں؟ تو جیسا کہ میں نے اوپر کہا یہ” تصوف“ کی باتیں ہیں، جو بیان نہیں کی جاسکتیں ، ”صوفی“ صرف” سلوک “کی منزلیں طے کر کے ہی ان کا کسی حد تک ادراک کر سکتا ہے۔ تاہم عام لوگوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اس کورس کی کتابیں فقط دور سے دیکھ لیں، افاقہ ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ اس دلیل سے مطمئین نہ ہوں تو ایسے لوگوں کے لیے میں کورس میں شامل کیمسٹری کی کتاب کے اس باب کا مطالعہ کرنے کی دعوت دوں گا، جو بائیو کیمسٹری سے مطلق ہے۔ بائیولوجی کی کتاب کے کچھ ابواب بھی میرے ذہن میں ہیں، جو ان سے بھی زیادہ غیر مطمئین لوگوں کو مطمئین کرنے میں تیر بہ ہدف ثابت ہو ں گے۔ یہاں ایک بات کا ذکر نہایت ضروری ہے کہ آج سے پندرہ سولہ سال پہلے کی ایف۔ایس۔سی کے مقابلے میں آج کی ایف۔ایس ۔سی بچّوں کا کھیل لگتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ایف۔ایس۔سی کے دو سالہ جناتی کورس کا امتحان اکٹھا نہیں لیا جاتا، بلکہ دو سال میں دو حصوں میں لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا آدھا زہر نکل گیا ہے، لیکن اس کے باوجو د اب بھی یہ امتحان اچھے اچھوں کے چھکے چھڑانے کے لیے کافی ہے۔

اپنے جس کولیگ کے ذکر سے میں نے کالم کا آغاز کیا تھا، ان پر اس امتحان کا ایسا اثر ہوا کہ ان کے سننے کی صلاحیت جاتی رہی۔ راوی بتاتا ہے کہ موصوف تین مرتبہ امتحان میں بیٹھے، لیکن تینوں دفعہ قسمت اور ممتحن نے یاوری نہیں کی۔ تیسری مرتبہ جب انہیں فیل ہونے کی خبر سنائی گئی، تو انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، بس وہ دن اور آج کا دن، انہیں سننے کے لیے آلہ استعمال کرنا پڑتا ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کا مؤجد بھی یقیناً ایسا شخص ہو گا، جس نے ایف۔ایس۔سی کی ہوگی۔ دفتری میٹنگز میں بھی جب وہ کسی شخص کو کوئی سمجھ داری کی بات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو فوراً میرے کان میں کہتے ہیں ”لگتا ہے اس بندے نے ایف۔ایس۔سی کی ہوئی ہے!“ ایک دفعہ ایک میٹنگ میں کسی اعلیٰ افسرنے نہایت عامیانہ قسم کی گفتگو کی، تو میرے اس کولیگ نے اپنی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے کہا ” سر! آپ کی گفتگو سے ایسا لگ رہا ہے جیسے آپ کا رجحان آرٹس کی طرف رہا ہے اور آپ نے ایف ۔ایس۔سی نہیں کی؟“یہ سن کر افسر بہت خوش ہوا اور اسے اپنی تعریف سمجھا اور کہا”ویل! آپ نے بالکل ٹھیک اندازہ لگایا، لیکن آپ کو کیسے پتا چلا؟“ میرے اس سینئر کولیگ نے اپنا آلہ سماعت کان میں ایڈجسٹ کیا اور بولے”سر! اگر میں نے سچ بولا تو آپ مجھے ٹرانسفر کر دیں گے اور جھوٹ میں بول نہیں سکتا۔“ افسر صاحب یہ سن کر تھوڑا سا گڑبڑائے، لیکن پھر جی کڑا کر کے کہا”نہیں، نہیں…ایسی کوئی بات نہیں ، آپ بے فکر ہو کر سچ بولیں۔“میرے کولیگ نے اس بات کو سچ جانا اور پھر سچ ہی بول دیا۔ اگلے روز ان کی ٹرانسفر ہوگئی، مع آلہٴ سماعت!

یوں تو ایف۔ایس۔سی کی حمایت میں لا تعداد دلائل دیے جاسکتے ہیں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ اس سے آرٹس والوں کی دل آزاری ہو جائے گی، تاہم اس کے باوجود مجھے یہ مشورہ دینے میں کوئی تامل نہیں کہ جہاں کہیں بھی کوئی نسبتاً پڑھا لکھا شخص دیکھیں، جو کچھ کچھ سمجھ داری کی باتیں کر رہا ہو، اسے روک کر ایک دفعہ ضرور پوچھ لیں ”کیا آپ نے ایف۔ایس۔سی کی ہوئی ہے؟“ مجھے یقین ہے کہ ننانوے فی صد کیسوں میں جواب ”ہاں “ میں آئے گا۔ باقی رہ گئے ایک فی صد، تو ان کے بارے میں یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر انہوں نے نہیں کی، تو ان کے والد صاحب نے ضرور ایف۔ایس۔سی کی ہوگی!!!

(This article is permitted by the author to publish here)

Yasir Pirzada
About the Author: Yasir Pirzada Read More Articles by Yasir Pirzada: 30 Articles with 63359 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.