آج میں واشگاف الفاظ میں اس
حقیقت سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں کہ میرا ہر کام قومی مفاد میں ہوتا ہے،
میرا چھینکنا، میرا نہانا، میرا ناشتہ کرنا بھی قومی مفاد کے عین مطابق
ہوتا ہے، بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ میرا کچھ نہ کرنا بھی بہترین قومی مفاد
ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہی کہ بات کہاں سے شروع کروں، آپ خود ہی سوچیے،
ایک ایسا شخص جو ”سراپا قومی مفاد“ ہو، وہ زیادہ سے زیادہ کتنی مثالیں دے
سکتا ہے، لیکن مجبوری ہے، نئی نسل کی تربیت کے لیے ایسے حوالے دینے ہی پڑتے
ہیں۔ مثال کے طور پہ جب میں صبح دفتر جانے کے لیے تیار ہوتا ہوں، تو میرا
ڈرائیور گاڑی اسٹارٹ کر کے اے سی آن کر دیتا ہے، تاکہ جب میں سوٹ بوٹ پہن
کر قومی مفاد میں، گاڑی میں بیٹھوں، تو مجھے تپش کا احساس تک نہ ہو۔ ظاہر
ہے کہ مجھے گرمی کی شدت سے بچانا بھی عین قومی مفاد میں ہے، کیوں کہ مجھے
گرمی لگے گی تو میں ”تپ“ جاؤں گا، اور”تپا ہوا افسر“ کسی صورت بھی قومی
مفاد میں نہیں ہوسکتا۔ میرے دفتر کا ٹائم آٹھ بجے شروع ہوتاہے، میں ایک منٹ
بھی لیٹ نہیں ہوتا اور ٹھیک دس بجے اپنی سیٹ پر ہوتا ہوں۔ سیٹ سنبھالتے ہی
سب سے پہلے اپنے اسٹاف کی حاضری چیک کرتا ہوں اور جو لیٹ یا غیر حاضر ہوتا
ہے، اُسے قومی مفاد میں سرزنش کا ایک لیٹر جاری کر دیتا ہوں۔ اس سے مجھے
شدت سے احساس ہوتا ہے کہ قومی مفاد کا درد صرف اور صرف میرے ہی دل میں بھرا
ہوا ہے۔ یہ احساس کبھی کبھار تو اتنا شدید ہوجاتا ہے کہ میری آنکھیں نم
ہوجاتی ہیں، کاش سب لوگ میری طرح ہوجائیں۔
میں اپنے میل جول میں بھی قومی مفاد کو ترجیح دیتا ہوں اور صرف ان لوگوں سے
تعلقات رکھتا ہوں، جو میری طرح ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں، ان لوگوں میں
علاقے کے بااثر سیاست دان، سینئر بیوروکریٹس اور گن مینوں کے سائے میں
پھرنے والے علما شامل ہیں۔ غریب غرباء لوگوں سے میں پرہیز کرتا ہوں، کیوں
کہ یہ لوگ عموماً جاہل ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں جہلاء کو قومی مفاد کا کچھ
پتا نہیں ہوتا۔ اللہ کو جان دینی ہے، میں نے کبھی کسی کو بتایا نہیں کہ
میرے پاس پورے چھ صفحوں کا قومی مفاد پر مشتمل ڈرافٹ موجود ہے۔ اگر اس پر
عمل کیا جائے تو کچھ ہی دنوں میں ہم سب قومی مفاد کی اہمیت کو نہ صرف سمجھ
سکتے ہیں، بلکہ ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہوسکتے ہیں۔ پہلا نقطہ یہ ہے کہ
سب سے پہلے ہمیں لفظ ”قومی“ کو واضح کرنا ہے کہ اِس سے کیا مراد ہے؟ ظاہر
ہے کہ قومی، قوم سے نکلا ہے، قوم افراد پر مشتمل ہوتی ہے، افراد میں ہم سب
شامل ہیں، ہم سب میں، میں بھی شامل ہوں، پس ثابت ہوا کہ اگر کسی بات میں
میرا مفاد ہوگا، تو وہ درحقیقت قومی مفاد ہوگا۔ اگر آپ اسی تعریف کو مدنظر
رکھیں تو آگے کے بیان کیے گئے نکات زیادہ آسانی سے سمجھ سکیں گے۔ میرا
دوسرا نقطہ یہ ہے کہ ”مفاد“ کیا ہوتا ہے۔ ہر وہ چیز یا ہر وہ عمل، جس سے آپ
اپنے فائدے کے مطابق صحیح سمجھیں، مفاد کہلاتا ہے۔ مثلاً اگر میں یہ سمجھوں
کہ مجھے کسی کی سفارش سے اٹھارواں گریڈ مل جائے تو یہ میرا مفاد کہلائے گا،
لہٰذا میں خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ کہتا ہوں کہ میں نے کبھی خواب میں
بھی اٹھارویں گریڈ میں جانے کا نہیں سوچا، بلکہ اگر مجھے اٹھارواں گریڈ مل
بھی گیا، تو میں لینے سے صاف انکار کر دوں گا، کیوں کہ میں اس وقت انیسویں
گریڈ میں ہوں۔ تیسرا نقطہ یہ ہے کہ جب بھی آپ کے سامنے قومی مفاد کا سوال
آئے، اُس پر کبھی بھی سمجھوتا نہ کریں۔ ہر لالچ اور ہر دباؤ کو قومی مفاد
کے پیشِ نظر ٹھکرا دیں، یقیناً جب آپ قومی مفاد کو عزیز رکھتے ہوئے زندگی
گزاریں گے تو زندگی میں بہت سی مشکلات پیش آئیں گی، قدم قدم پر سفارشیں
آئیں گی، دھمکیاں ملیں گی، لیکن اس کا ایک ہی حل ہے کہ کسی دھمکی اور کسی
دباؤ سے نہ گھبرائیں، کیوں کہ جتنا آپ انہیں ”ٹف ٹائم“دیں گے، اتنا ہی آپ
کا ریٹ بڑھے گا اور انشاء اللہ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ آپ کو نوٹوں سے
بھرے بریف کیس کی پیشکش ہوگی، آپ پر لازم ہے کہ آپ بریف کیس کو زور سے
ٹھوکر مار دیں ( نوٹ نکالنے کے بعد ) آپ کو کچھ ایسے لوگ بھی ملیں گے، جو
آپ پر پھبتیاں کسیں گے، آپ کو دوغلا کہیں گے، لیکن غصہ کرنے کی ضرورت نہیں،
سچی بات پر کیا غصہ کرنا!
مجھے ایسے لوگوں سے مل کر سخت مایوسی ہوتی ہے، جو قومی مفاد کا مذاق اڑاتے
ہیں۔ ایسے لوگوں کو شاید پتا نہیں کہ دنیا میں وہ قومیں تباہ و برباد
ہوجاتی ہیں، جو قومی مفاد کو مدنظر نہیں رکھتیں۔ آج اگر میری اولاد غیر
ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہے، تو یہ بھی قومی مفاد کی جیتی جاگتی تصویر
ہے۔ کچھ بدفطرت کہتے ہیں کہ تمہاری اولاد کو تو اُردو ہی ٹھیک سے نہیں آتی،
وہ قومی مفاد میں کیا کریں گے؟حالاں کہ کیا ہوا، اگر انہیں اُردو نہیں آتی
یا وہ اس ملک کے لوگوں سے دور ہیں… یہ ساری ضمنی باتیں ہیں، اُردو تو
اوباما کو بھی نہیں بولنی آتی، لیکن وہ ایک سپر پاور کا صدر ہے، لہٰذا ثابت
ہوا کہ میری اولاد بے شک انگریزی زبان اور انگریزی کلچر اپنا لے، لیکن وسیع
تر قومی مفاد میں ایک نہ ایک دن انہیں اس ملک کی حکمرانی سنبھالنی ہی پڑے
گی۔ صاف نظر آرہا ہے! |