کنٹرول لائن پر بھارتی دیوار برلن نامنظور

طارق محمود اعوان

بھارت کا مقبوضہ کشمیر پر پکے قبضے کا ارادہ بے نقاب، وادی کے دونوں حصوں کو جدا کرنے کے لئے برلن طرز کی دیوار بنانے کا منصوبہ سامنے آ گیا۔ دیوار کی چوڑائی 135فٹ ہوگی، اونچائی 30 اور لمبائی 198کلو میٹر ہوگی۔ اس میں چوکیاں اور بنکرز بھی بنائے جاسکیں گے۔ بی ایس ایف نے دیوار کی تعمیر کے لئے زمین کی نشاندہی کردی ہے اور وہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے زمین کے حصول کے انتظار میں ہے۔ یہ دیوار جموں، کھٹوا اور سامبا کے 118 دیہات سے گزرے گی۔ سرحدی تحفظ یقینی بنانے اور دراندازی روکنے کے نام پر تعمیر کی جانے والی اس دیوار کے لئے فنڈز وزارت داخلہ فراہم کریگی۔ بھارت کے مطابق سرحد پر دراندازوں کی سرگرمیاں روکنے کے لئے دیوار کے گرد خندق بھی کھودی جائیگی۔ بھارتی مرکزی حکومت نے اس منصوبے کی منظوری دیدی ہے۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے کم از کم 24ارکان کی جانب سے اس دیوار کی تعمیر کے لئے اجازت لازمی ہے۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر لائن آف کنٹرول پر دیوار برلن کی طرز پر دیوار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیوار کی اونچائی اور چوڑائی دیوار برلن اور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مغربی کنارے پر بنائی جانے والی دیوار سے زیادہ ہوگی۔ بھارت نے جرمنی کو تقسیم کرنے والی دیوار برلن کی طرز پر آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان دیوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر اور پاکستان سے الگ ہو جائے گا۔ جموں و کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان مقبوضہ علاقہ ہے جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے اور اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر دونوں ملک جموں و کشمیر میں کسی قسم کی تعمیرات نہیں کرسکتے لیکن بھارت نے ہمیشہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ 1948ء میں بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے دریاؤں پر متعدد چھوٹے بڑے ڈیم بھی بنا رکھے ہیں اور ان تجاوزات پر عالمی برادری مسلسل خاموش ہے جس کے بھارت کی انسانی منڈی سے تجارتی مفادات وابستہ ہیں۔

بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ بھارتی فوج کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے چلائے جانے چاہئیں۔ بھارت سات لاکھ فوج اور سکیورٹی فورسز کے بل بوتے پر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کرکے غاصبانہ قبضے کو طول دینے کی پالیسی پر گامزن ہے تاہم بھارت فوجی طاقت سے زیادہ عرصے تک کشمیر پر جابرانہ تسلط قائم نہیں رکھ سکتا۔ دیوار برلن ٹوٹ سکتی ہے تو کشمیریوں کو جدا کرنے والی خونی لکیر بھی مٹ کر رہے گی۔
اب ہند کی دیوار برلن کو گرایا جائیگا
اور بھارتی فوجوں کو وادی بھگایا جائیگا

مہذب اقوام مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں بند کروائیں اور کشمیری عوام کو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ استصواب رائے کا حق دلوائے۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی پامالیاں عالمی تنظیموں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ مہذب دنیا مقبوضہ کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجے تاکہ مقبوضہ کشمیر کی سنگینی منظر عام پر آ سکے۔ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے کشمیر ایشو کو بارود کا ڈھیر بنا دیا ہے جس سے برصغیر کے امن شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ 1989ء میں جب تحریک آزادی کشمیر میں تیزی آئی تو اُس وقت سے لے کر 2012ء تک 93831 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ کی ان قربانیوں کے بعد تو آزادی کشمیریوں کا استحقاق بنتا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ تقریباً تیس ہزار عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں اور تقریباً دس ہزار عورتوں کی بے حرمتی کی جاچکی ہے۔ 2013ء میں بھی اب تک 34افراد شہید ہو چکے ہیں۔ ان اموات میں ہزاروں پولیس کے زیر حراست ہوئیں ہیں اور گرفتاریوں کا تو کوئی شمار نہیں۔ ان میں سے ایک ایک شہید اپنے پیچھے کتنے لواحقین چھوڑ رہا ہے کتنے بوڑھے والدین، معصوم بچے اور بیوہ عورتیں کشمیر کی وادی میں بھارتی مظالم کا کھلا ثبوت ہیں۔

کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت ملنے تک جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ جبر سے تحریک آزادی ختم نہیں کی جاسکتی ، عالمی برادری کشمیریوں کی نسل کشی بند کرائے۔ بین الاقوامی مہذب دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بند کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کشمیریوں نے باطل قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا۔ وہ وقت دور نہیں جب جموں و کشمیر کے سینے پر کھینچی گئی عارضی منحوس لائن بالآخر ختم ہو جائیگی اور کشمیری عوام بانی پاکستان قائد اعظم کے فرمان کے مطابق شہ رگ پاکستان کشمیر کے مستقبل کو پاکستان کے ساتھ جوڑ کر تکمیل پاکستان کے خواب کو پورا کرینگے۔

Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104913 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.