پاکستان کیوں ترقی نہیں کرسکتا ..... چند تلخ حقائق

تحریر: محمد اسلم لودھی

آج ہرپاکستانی کے ذہن میں ایک سوال گردش کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ اگر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے باوجود نہایت مختصر عرصے میں امریکہ جرمنی انگلینڈفرانس اور چین ترقی کرسکتے ہیں تووہ کونسی رکاوٹیں ہیں جو پاکستان کی ترقی میں گزشتہ 66 سالوں سے حائل چلی آرہی ہیں جن کو کوئی بھی پاکستانی حکمران دور نہیں کرسکا ۔ حالانکہ پاکستان کے پاس چاروں موسم ٗ بہترین محل وقوع ٗسات سو میل طویل ساحل سمند ر ٗ دنیا کی پانچ بڑی چوٹیاں ٗ لامحدود پہاڑی ٗ میدانی اور صحرائی سلسلے ٗ بے حد و حساب معدنی دولت ٗ جس میں سونا ٗ تانبا ٗ المونیم ٗ تیل گیس کوئلے نمک وغیرہ کے وسیع ذخائر موجود ہیں ایک درجن سے زائد 12 مہینے بہنے والے دریا ٗ سونا اگلتے کھیت اور کھلیان ہیں جو زرخیزی کے اعتبار سے پوری دنیا پر بھاری ہیں پاکستان کے ہونہار طالب علموں ٗ سائنس دانوں اور سرفروشوں نے اپنی ذہانت ٗ تحقیق اور بہادری کے میدان میں انمٹ نقوش چھوڑچکے ہیں اور انتظامی سطح پر تمام تر ناکامیوں کے باوجود اقوام عالم سے اپنی ذہانت ٗ تحقیق اور بہادری کا لوہا منوایا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔

ہمارے حکمران جب ترقی یافتہ ملکوں میں جاتے ہیں تو وہاں کے رہنے والوں کا بہترین معیار زندگی ٗ ہزاروں میل طویل موٹرویز ٗ ساڑھے تین کلومیٹر کی رفتار سے چلنے والی بلٹ ٹرینیں ٗ زیر زمین ریلوے نظام ٗ زیر سمندر آمد و رفت کے کشادہ راستے ٗ خلائی تحقیق ٗ فوج ٗپولیس ٗ تحقیقی اور انتظامی اداروں کی شاندار کارکردگی انہیں نظر نہیں آتی جہاں ایک بھی جرائم پیشہ شخص اگر داخل ہوجائے تو انتظامی ادارے ٗ پولیس اورریاست اس وقت سکون نہیں لیتی جب تک اس جرائم پیشہ شخص کو قانون کے شکنجے میں جکڑ نہیں لیا جاتا ۔

لیکن بیرون ملک انتظامی اداروں کی بہترین کارکردگی دیکھنے کے باوجود یہ پاکستانی حکمران واپس آکر کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کرتے جن کے بل بوتے پر مذکورہ بالا ممالک ٗ انتظامی اداروں اور عوام کرکے ترقی کی ہے ۔میری نظر میں ترقی یافتہ ممالک میں ترقی و خوشحالی کی سب سے پہلی وجہ قانون کی حکمرانی ہے ۔امریکہ سمیت تمام یورپی ممالک میں حکمرانوں ججوں فوجی افسروں اور عوام کے لیے یکساں قوانین ہیں اگر جرم کی پاداش میں کسی چھوٹے کو سزا ملتی ہے تو اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے ملک کے وزیر اعظم کو بھی وہی سزا بھگتنی پڑتی ہے وہاں پورا دن وزیراعظم اور صدر کی آمد کے موقع پر سڑکیں اور راستے بند نہیں کیے جاتے اور نہ ہی شہروں کرفیو لگایاجاتاہے ۔ لیکن ہمارے ہاں ہر سزا غریب اور بے وسائل لوگوں کے لیے ہے جبکہ ممبران اسمبلی ٗ صدر وزیراعظم وزرائے اعلی وزیروں مشیروں ججوں فوجی افسروں اور سرکاری افسرقانون کی گرفت سے مکمل طور پر آزاد ہیں قانون کی بے توقیری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ عدالتی فیصلوں کے باوجود جعلی ڈگریوں والے قانون کو مذاق بنا کر نہ صرف الیکشن میں حصہ لیتے ہیں بلکہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور اسمبلیوں میں پہنچ کر عوام کی قسمت کے فیصلے بھی انہی کی صوابدید پر ہیں مظفر گڑھ سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود الیکشن میں حصہ لے کر جمشید دستی کا دو مرتبہ بلکہ دو قومی اسمبلی کے حلقوں میں منتخب ہونے کو ایک بدترین مثال قرار دیاجاسکتا ہے ۔ جب اسمبلیوں میں پہنچنے والے خود کم علم ٗ ان پڑھ اور قانون شکن ہوں گے تو وہ کیسی قانون سازی کریں گے جس پر وہ خود عمل کرنا پسند نہیں کرتے ۔سابق وزیر اعلی بلوچستا ن اسلم ریئسانی کی یہ بات 18 کروڑ پاکستانیوں کے چہرے پر طمانچہ ہے کہ ڈگری ٗ ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی ۔

یہی نااہل ٗ بے ایمان اور مفاد پرست لوگ مختلف حکومتی اور انتظامی عہدوں پر پہنچ کر اربوں روپے مالیت کے پلاٹوں ٗ پرمٹوں ٗ لائسنسوں کی دوڑ میں نہ صرف خود شامل ہوتے ہیں بلکہ ان فراڈیوں کا پورا خاندان سرکاری خزانے کو لوٹنا اور سرکاری وسائل کو ہڑپ کرنا اپنا حق تصور کرتا ہے بلکہ عدالتوں کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے آئینی اسثتنا ء کا واویلا بھی ایسے ہی لوگ مچاتے ہیں اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی سطح پر جرم کرنے والا ٗ جعلی ڈگری والا تمام حکومتی اور انتظامی عہدوں کے لیے نہ صرف تاحیات نااہل قرار پاتا ہے بلکہ وہاں کسی کو بھی اسثتنا حاصل نہیں ہوتا ہے ۔جرم کرنے والا چاہے مزدور ہو یا ملک کا سربراہ دونوں کو ایک ہی سزا بھگتنی پڑتی ہے ۔

پاکستان کی ترقی نہ کرنے کی میری نظر میں دوسری وجہ انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کی عدم ادائیگی ہے امریکہ میں دنیا بھر پر حکمرانی کرنے والے امریکی صدر کوبھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے وگرنہ ایک چھوٹا سا انکم ٹیکس انسپکٹر اسے ٹیکس کی عدم ادائیگی پر باز پرس کرسکتا ہے۔ ایک مرتبہ چاند پر خلائی شٹل کے ساتھ جانے والا شخص ٹیکس کی ریٹرن بروقت جمع نہ کرواسکا واپسی پر اسے نہ صرف بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا بلکہ چند دن جیل میں بھی رہنا پڑا اس وضاحت کے باوجود کہ وہ انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کے وقت زمین پر موجود نہیں تھا لیکن گزشتہ 66 سالوں میں جتنی بھی اسمبلیاں پاکستان میں معرض وجود میں آئی اور جتنے بھی لوگ ان اسمبلیوں میں منتخب ہوکر پہنچے ہیں وہ لوگ ایک جانب ٹیکس دینا اپنی توہین تصور کرتے ہیں تو دوسری جانب سرکاری خزانے سے اربوں روپے مالیت کی مراعات لینا اپنا حق تصور کرتے ہیں ۔ایف بی آر جس کا کام ٹیکسوں کی وصولی کرنا ہے اس ادارے میں کام کرنے والے آدھے سے زیادہ افسر نہ صرف بدعنوان ٗ کرپٹ اور رشوت خور ہیں بلکہ وہ تاجروں سے ملی بھگت کرکے ٹیکس معاف کروانے کے خود طریقے بھی بتاتے ہیں گزشتہ پیپلز پارٹی حکومت میں چند حکومتی عہدیداروں نے ٹیکس دیئے بغیر پانچ سو ارب روپے کا ریفنڈایسے افراد کو کردیا جنہوں نے ایک پیسہ بھی ٹیکس جمع نہیں کروایا گیا کیونکہ پانچ سو ارب کا ریفنڈ لینے والے تمام تر لوگ پیپلز پارٹی کے براہ راست یا بلواسطہ حمایتی تھے اس لیے اس سیکنڈل کے انکشاف کے باوجود نہ تو ریفنڈ کے پانچ سو ارب روپے واپس لیے گئے اور نہ ہی ایسے جعلی ریفنڈ کرنے والوں کو عہدوں سے معطل کرکے جیلوں میں بند کیا گیا ۔اب سنا ہے ایف بی آر نے پچاس سے زائد کرپٹ افسران کے خلاف کاروائی کا آغاز کردیا ہے جو ٹیکس دہندگان کے ساتھ ملی بھگت کرکے قومی خزانے کو بھاری مالی نقصان پہنچاچکے تھے ۔ترقی یافتہ ممالک میں اول ایسے کسی جعلی ریفنڈ کی کوئی جرات ہی نہیں کرتا اور اگر کہیں کوئی خلاف قانون بات ہوجائے تو اوپر سے لے کر نیچے تک ملوث تمام افراد کو عبرت ناک سزا دی جاتی ہے تاکہ آئندہ ان عہدوں پر بیٹھنے والے ایسا کرنے سے پہلے لاکھ مرتبہ ضرور سوچیں ۔

پاکستان کی ترقی میں تیسری رکاوٹ لوٹی ہوئی رقم کی عدم وصولی اور کرپشن کرنے والے اہلکاروں کو سخت سزا نہ دینا بھی ہے ۔نوائے وقت کی اشاعت 15 نومبر 2013ء میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں 40 پاکستانی سیاست دانوں اور تاجروں کے 200 ارب ڈالرپڑے ہیں ۔یادرہے کہ 1991ء میں پاکستان کو فارن کرنسی اکاؤنٹ رکھنے کی اجازت نہیں تھی لیکن نواز شریف حکومت نے 1992ء میں اکنامک لبرالائزیشن سکیم کے تحت پہلی مرتبہ فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوانے کی اجازت دی تھی جس کے بعد اہم افراد نے پاکستان سے کالا دہن سوئس بینکوں میں رکھوانا شروع کردیا۔ ماہرین کے مطابق نواز حکومت کا یہ فیصلہ غلط تھا کیونکہ یہ سہولت صرف غیر ملکی تجارت کرنے والوں کو ملنی چاہیئے تھی ۔ایک طرف کرپشن سے لوٹی ہوئے 200 ارب ڈالر تو دوسری جانب 60 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ۔اگر یہ 200 ارب ڈالر پاکستان واپس آجائیں تو نہ صرف غیر ملکی قرضے ختم ہوسکتے ہیں بلکہ دس سال تک پاکستانی قوم کو ٹیکسوں کے تہہ در تہہ عذاب سے نجات مل سکتی ہے لیکن اقتدار کی مسند پر وہی بااثر لوگ بیٹھتے ہیں جن کے اپنے پیسے نہ صرف غیر ملکی بنکوں میں جمع ہوتے ہیں بلکہ ان کے خاندان کے لوگ پاکستان کو غیر محفوظ تصور کرکے دوسرے ملکوں میں ہی مستقل سکونت اختیار کیے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری وہ واحد شخص ہیں جن کادامن نہ صرف خود صاف ہے بلکہ وہ غیر ملکی بنکوں میں جمع کرپشن کی ہوئی بھاری رقوم کو ڈالروں کی شکل میں واپس بھی لانا چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے انہوں نے منصب صدارت پر فائز آصف علی زرداری اور این آر او کے تحت تحفظ حاصل کرنے والے ساڑھے آٹھ سو افراد سے دولت واپس لینے کے لیے نہ صرف جراتمندانہ فیصلے دیئے بلکہ پیپلز پارٹی کے ایک وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے تحت عہدے سے معطل بھی کردیا یہ سب کچھ کرنے کے باوجود نہ تو آصف علی زرداری کا کوئی بال بیکا کرسکا اور نہ ہی مسلم لیگی حکومت بننے کے بعد نواز شریف نے عدالتی فیصلے پر عمل کرتے ہوئے غیرملکی بنکوں میں جمع شدہ رقوم واپس لانے کی طرف کوئی توجہ دی ۔انہوں نے یہ کام کرنا شاید اس لیے گوارہ نہیں کیا کہ ان کی اپنی رقم بھی سوئٹزلینڈ کے بنکوں میں جمع ہو اس طرح وہ بھی زد میں آسکتی ہے ۔پاکستان میں یہ معقولہ بالکل ٹھیک صادق آتا ہے کہ کتی بھی چوروں سے مل چکی ہے جو چور کو چوری کرتا ہوا دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلیتی ہے ۔اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ سرکاری اداروں میں اربوں روپے سیکنڈلز پر عدالتی فیصلوں کے باوجود نواز شریف حکومت نے کوئی ایکشن لینا گوارا نہیں اور چیرمین نیب کے تقرر میں دانستہ چار مہینے لگا دیئے ۔ایک طرف یہ تغافلانہ رویہ تو دوسری طرف سیلز ٹیکس ٗ موبائل چارجنگ ٗ پٹرول ٗ بجلی ٗگیس کی ہوشربا گرانی کرکے اپنے ہی ووٹروں اور پاکستانیوں کی چمڑی ادھیڑلی ہے۔نواز شریف نے بھی وہی کام کیا جو آصف علی زرداری کرتے چلے آرہے تھے ۔اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان میں حکمران کوئی بھی ہو سب کا انداز حکمرانی ایک ہی جیسا ہے کہ لیٹروں کو کھلی چھٹی دو اور عوام کی ایسی تیسی پھردو ۔ان حالات میں پاکستان کیسے ترقی کرسکتا ہے ۔
پاکستان کی ترقی میں چوتھی رکاوٹ ٗ انتظامی عدالتی اور سرکاری اداروں کی کمزوری ٗ نااہلی ٗ سیاسی مداخلت اور کرپشن ہے ۔ڈپٹی کمشنر ٗ اسسٹنٹ کمشنر ٗ تحصیل دار پٹواری ٗ تھانے دار کسی بھی حکومت کے بنیادی عناصر تصور کیے جاتے ہیں حکومت اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے انہی اداروں اور شخصیات کو استعمال کرتی ہے لیکن یہ ادارے اور عہدے سیاسی مداخلت کی وجہ سے بالکل اپاہج ہوچکے ہیں اور اپنی حیثیت اور غیر جانبداری کھو بیٹھے ہیں ڈپٹی کمشنرجو پورے ضلع کا انتظامی طور پر مالک کہلاتا ہے ایم پی اے اور ایم این اے جوتے کی نوک پر ان کے دفتر کا دروازہ کھولتے ہیں اور اپنے جائز اور ناجائز کام کرواتے ہیں ۔ اپنے اپنے علاقوں کے تمام رسہ گیر ٗ چور ڈاکو اور لیٹروں کی سرپرستی کرتے ہوئے انہیں انتظامی گرفت سے محفوظ رکھتے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب غلام حیدر وائیں مرحوم کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ اس کے قریبی عزیز سے ایک تھانیدار نے ڈیڑھ لاکھ روپے بطور رشوت مانگے اور نہ دینے کی صورت میں کوئی بھی الزام لگا کرحوالات میں بند کردیا جب پیسے مل گئے تو چھوڑ دیا۔ جب یہ بات وزیر اعلی کی حیثیت سے غلام حید ر وائیں تک پہنچی تو انہوں نے متعلقہ تھانیدار کو بلایا اور واقعے کے بارے میں استفسار کیا تھانیدار نے ڈیڑھ لاکھ روپے وائیں صاحب کو واپس دیتے ہوئے کہا مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ شخص آپ کا عزیز ہے ۔ یہ پیسے مجھے ہر مہینے علاقے کے ایم پی اے کو بطور رشوت دینے پڑتے ہیں جو مجھ سے تقاضا کرتا ہے ۔پہلے تومیں کسی اور کو پکڑ دھکڑ کر اتنی رقم ایم پی اے کو ادا کرتا رہاہوں اس مرتبہ آپ کا عزیز میرے ہتھے چڑھ گیا غلام حیدر وائیں نے پوچھا پیسے تو تم نے مجھے واپس کردیئے ہیں اب ایم پی اے کو کہاں سے پیسے دو گے تھانیدار نے جواب دیا کسی اور پکڑ لوں گا میں ایم پی اے اور ایم این اے کے تقاضے اپنی تنخواہ سے تو پورے نہیں کرسکتا ۔یہ ایک واقعہ ہے جو اس بات کاثبوت ہے کہ اسمبلیوں میں پہنچنے والے جعلی اور اصلی ڈگریوں والے لوگ کس قدر بے رحم اور کرپٹ ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک کو چلا نا ہوتا ہے جس طرح کھنڈے استرے سے اچھی شیو نہیں بنائی جاسکتی جس طرح ہتھیلی پر سرسوں نہیں جماسکتی اسی طرح ٹیکس چور ٗ رشوت خور ٗ ڈاکو ٗ قبضہ مافیا اور قانون شکن لوگ جب تک منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچتے رہیں گے پاکستان ترقی و خوشحالی سے اتنا ہی دور ہوتا چلاجائے گا یہ نہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو سمجھ آتی ہے جو ایسے کرپٹ ٗ نااہل اور بدکردار لوگوں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرتی ہیں اور نہ ہی عوام کو سمجھ آتی ہے جو ہر الیکشن میں ماضی اورکردار کو دیکھے بغیر ووٹ دے کر انہیں اسمبلیوں میں پہنچاتے ہیں۔

یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ بااثر افراد کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ڈی سی ٗ اے سی کو حکم دیتا ہے اے سی تحصیل دار اور متعلقہ پولیس افسر کو کہتا ہے تحصیل دارپٹواری کی گردن دباتا ہے اور پولیس افسر اپنے ماتحت تھانوں کے اہلکاروں کا جینا حرام کردیتا ہے چنانچہ وہ انتظامی زنجیر جس کے فرائض میں قانون کی عملداری کو یقینی بناکرعوام کی فلاح و بہبود اور موثر انتظامی ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے اوپر سے لے کر نیچے تک کرپشن ٗ رشوت خوری ٗ سیاسی مداخلت اور اقربا پروری کی بنا پراپنی حیثیت اور عملداری کھو کرعوامی مسائل کی بنیاد ثابت ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج 21 ویں صدی میں بھی جاگیرداروں ٗ سرداروں ٗ چودھریوں اور نمبرداروں کی نہ صرف حکمرانی موجود ہے بلکہ ان کے دولت اور جائیداد کے نشے میں چور بیٹے ٗ غنڈوں کا روپ دھار کر غریب مزارعوں اور کسانوں کی بیٹیوں کی عزتوں سے سرے عام کھیلتے ہیں بلکہ کئی مقامات پر مزارعوں پر کتے چھوڑنے کی خبریں بھی اخبارات میں تواتر سے شائع ہوتی رہی ہیں۔جو بھی شخص ان کے راستے کی دیوار بننے کی کوشش کرتا ہے وہ اسے ہٹا کر اپنی حاکمیت قائم کرلیتے ہیں قانون ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ان دنوں شاہ زیب کو جس درندگی سے جاگیردارکے بیٹے نے قتل کیا پھر ہر قانون کے محافظ نے جاگیر دار کے بیٹے کو نہ صرف تحفظ دینے کی جستجو کی بلکہ سز ا سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی وہ آج کے جاگیردارانہ دور کی اہم مثال تصور کی جاتی ہے آج اگر قاتل جیل میں ہے تو اس کی وجہ پاکستانی قانون یا قانون پر عمل کرنے والے نہیں ہیں بلکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہیں جنہوں نے اسے قانون کی مضبوط گرفت میں جکڑ رکھا ہے ۔وگرنہ پولیس تھانے اور عدالتیں سب اسی کی زبان میں بات کررہی تھیں ۔

اگر پاکستان کے انتظامی ادارے سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہوں اور انتظامی افسر خوف خدا کے جذبے سے لبریز ہوکر رزق ہلال کھانے اور اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے پرعزم ہوں توکس کی جرات ہے کہ ان علاقوں میں کوئی جاگیر دار یا رسہ گیر ایک چوری ٗ جنسی زیادتی ٗ زمین و جائیداد پر قبضے کی واردات کرسکے ۔چند سال پہلے میں ضلع قصور کی تحصیل پتوکی گیا وہاں قابل ذکر لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انکشاف ہوا کہ پتوکی میں چند سال پہلے ایک شفقت نامی پولیس افسر تعینات ہوا تھا اس نے عہدہ سنبھالتے ہی شہر کی مسجدوں میں اعلان کر وادیاتھا کہ آج سے پتوکی شہر کے تمام لوگ رات کو اپنے گھروں کے دروازے کھول کر بلاخوف سوئیں اگر کسی کی چوری ہوجائے تو وہ اگلی صبح تھانے آکر مجھ سے وصول کرلیں ۔وہ دیانت دار اور جرات مند پولیس افسر صرف تین مہینے پتوکی تعینات رہا اس دوران تمام چور ٗ ڈاکو ٗ رسہ گیر اور فراڈیے شہر چھوڑگئے تھے یہ صورت حال سیاسی عہدوں پر فائز لوگوں کو برداشت نہ ہوئی انہوں نے وزیر اعلی پر دباؤ ڈال کر اس ایمان دار پولیس افسر کو پتوکی سے تبدیل کروا دیا ۔

یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ پاکستان کی 80 فیصد آبادی اب بھی دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں آباد ہے جہاں جرائم کی افزائش ٗ جنسی جرائم اور قتل و غارت کی سرپرستی متعلقہ علاقے کے سیاسی قائدین دھڑلے سے کرتے ہیں ڈپٹی کمشنر یا ایس ایس پی جو ضلع کا سب سے بڑا افسر کہلاتا ہے اس کی مجال نہیں کہ وہ ان کے مکروہ عزائم میں رکاوٹ بن سکے یا اپنے دامن کو ہی بچا سکے ۔ایسے ماحول میں ملک میں الیکشن کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتااور نہ ہی پولیس والوں کی تعداد دوگنا کرنے سے جرائم رک سکتے ہیں جب تک انتظامی افسر کو سیاسی قائدین کی غلامی سے آزاد نہیں کردیاجاتا یا کلیدی عہدوں پر فائز یہ لوگ خود اپنے عہدوں سے انصاف نہیں کرنے لگتے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہرشخص لوٹ مار کرنے ٗ سرکاری وسائل سے سہولتیں حاصل کرکے انتظامی عہدوں پر حاکمیت قائم کرنے کے لیے الیکشن لڑتا ہے اور الیکشن میں کامیابی کے لیے بھی ٗ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معقولہ استعمال ہوتا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈپٹی کمشنر سے لے کر پٹواری تک تمام عہدے سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہوتے ہیں بلکہ ان عہدوں پر اگر غلطی سے کوئی کرپٹ شخص تعینات ہو بھی جائے تو پکڑے جانے پر اس کو اتنی سخت سزا دی جاتی ہے کہ دوسروں کو بھی کان ہوجاتے ہیں لیکن پاکستان میں سزا صرف غریب مزارعوں ٗ کسانوں ٗ مزدوروں ٗ کلرک اور چھوٹے چوروں کے لیے رہ گئی بڑے چوروں کو پکڑنے کے لیے قانون بھی چھوٹا ہو جاتا ہے انہی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں قانون ہر بااثر افراد کے گھر کی لونڈی بن کے رہ گیا ہے ۔پنجاب میں سکاٹ لینڈ طرز کی پولیس فورس تیار کرنے کا خواب دیکھنے والے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ قانون توڑنے والے ان کے ارد گرد ہی بیٹھے ہوتے ہیں جن کے تقاضوں اور مطالبات کو پذیرائی دینا حکمران اپنے لیے اعزاز تصور کرتے ہیں کیونکہ ایسے خائن ٗ کرپٹ اور لیٹروں کی سیاسی حمایت سے وہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔

پاکستان میں دو تین درجن کے لگ بھگ بڑے شہر ہیں جن کی ترقی کے لیے ڈپٹی کمشنر کے علاوہ اور بھی انتظامی ادارے قائم کیے جاتے ہیں مثلا لاہور کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ٗ میٹروپولٹین کارپوریشن ٗ واسا ٗ واپڈا ٗ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ٗ لائسنسنگ اتھارٹی ٗ ماحولیات ٗ بورڈ آف ریونیو ٗ ٹاؤن ناظمین کے ادارے شامل ہیں ۔یہ ادارے ہر سال اربوں روپے کا بجٹ وصول کرتے ہیں لیکن فرض شناسی اور احساس ذمہ داری ان اداروں کو چھو کر بھی نہیں گزری ۔ چور چوری کرکے اپنے گھر پہنچ جاتا ہے پھر بھی ان اداروں میں لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے افسروں کا مردہ ضمیر بیدار نہیں ہوتا ان اداروں کا کام ٗہر مہینے لاکھوں روپے تنخواہیں وصول کرنا ٗ ترقیاتی فنڈ ہڑپ کرنا ٗعوام کو کسی بھی بہانے لوٹنا ٗ مسائل کو حل کرنے کی بجائے انہیں بڑھانا اور عوام کی زندگی دشوار کرنا رہ گیا ہے ۔ایل ڈی اے کے افسران کی ملی بھگت کی وجہ سے درجنوں ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے اخبارات میں پورے پورے صفحے کے اشتہارات شائع کروا کر کھربوں روپے لوٹ لیے ہیں لیکن بہت کم سوسائٹیاں ایسی ہیں جن کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے اعتبار سے ہاوسنگ سوسائٹی کہاجاسکتا ہے ۔ فنانس کمپنیوں نے چند سال پہلے ڈبل منافع کا لالچ دے کر جس طرح غریب عوام کو لوٹا اس کے آدھے سے زیادہ متاثرین تو زندگی بھر کا سرمایہ لٹ جانے کے غم میں قبروں میں اتر چکے ہیں اور جو ابھی زندہ ہیں زندگی ان کے لیے عذاب بن چکی ہے ۔سیکورٹی ایکسچینج جس کا کام مالیاتی اداروں کے ساکھ اور سکیموں کو چیک کرنا وہ اس وقت بیدار ہوئی جب اربوں روپے جعلی اور نام نہاد مالیاتی اداروں میں جمع ہوچکے تھے اور ان اداروں کے مالکان تمام سرمایہ جیب میں ڈال کر بیرون ملک فرار ہوچکے تھے ۔ اس طرح انتظامی اداروں کی لاپرواہی کی وجہ سے عوام کے کھر بوں روپے چند کرپٹ لوگوں کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔راتوں رات امیر ہونے کا یہ بہت منفرد راستہ ہے اور لٹنے والے لوگ بدعائیں دیتے رہتے ہیں لیکن ان کی بدعائیں بھی کرپٹ لوگوں اور بددیانت انتظامی افسروں کا کچھ نہیں بگاڑسکتیں ۔

یہی عالم ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ٗ ٹریفک لائسنسنگ اتھارٹی ٗ واسا ٗ ماحولیات اور ٹاؤن ناظمین کا ہے ان اداروں کی دیواریں بھی رشوت مانگتی ہیں رشوت نہ دینے کی صورت میں فائل ہی گم کردی جاتی ہے جس کی سزا صرف متاثرہ شخص کو ہی بھگتنی پڑتی ہے۔ واسا جس کا کام لاہور شہر کو صاف پانی کی فراہمی ٗ اور نکاسی آب ہے وہ ان دونوں فرائض کی انجام دہی میں مکمل طور پر ناکام ہے اس کی نااہلی کی وجہ سے لاہور شہر آدھے گھنٹے کی بارش کو بھی برداشت نہیں کرپاتا اور کسی سمندری جزیرے کا منظر پیش کرتا ہے واسا کی نااہلی کی بدولت ہی ڈینگی مچھروں نے گزشتہ سال تین سو افراد کی جان لینے کے بعد اس سال بھی ادھم مچا رکھا ہے اور پانچ سو افراد ان دنوں بھی ڈینگی کا شکار ہوکر ہسپتالوں میں داخل ہیں ۔ ماحول کی خوبصورتی اور صفائی کاحقیقی منظر اگر دیکھنا ہو تو کسی بلند بلڈنگ پر کھڑے ہوکر دیکھاجاسکتا ہے یوں محسوس ہوتاہے گردو غبار کی گہری چادر نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس میں جہاں محکمہ ماحولیات کی نااہلی شامل ہے وہاں ٹریفک کو جاری و ساری رکھنے والے محکمے ایل ڈی اے کا بھی بڑا ہاتھ ہے ایکسپریس اور ڈبل منزلہ سڑکیں بنانے کی بجائے ہر کلومیٹر کے فاصلے پر چوراہا بنا دیاگیا ہے اس پر گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اندھیر مچا رکھا ہے مہنگائی کے اس دور میں غریب انسان دو وقت کی روٹی کھانے کو بھی ترس گیا ہے مائیں مہنگائی اور غربت سے تنگ آکر بچوں سمیت نہروں میں چھلانگ لگا کر خود کشی کررہی ہیں ایک جانب غربت کی یہ انتہا تو دوسری جانب ہر چوک میں نئی سے نئی قسم کی کاروں کی لمبی قطاریں غربت کو منہ چڑاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اتنی کاریں تو شاید دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ملک چین میں بھی نہ ہوں ۔بجلی پٹرول گیس اور اشیائے خورد نوش کی قیمتیں اس قدر بڑھا دی گئی ہیں کہ رزق ہلا ل میں موٹرسائیکل رکھنا بھی محال ہوچکا ہے گاڑی تو وہی خریدتے ہیں جن کا ہاتھ یا تو سرکاری خزانے تک پہنچتا ہے یا وہ کسی ایسے ادارے میں ملازم ہیں جہاں پبلک ڈیلنگ ہوتی ہے ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ شاید ہی کوئی سرکاری اور انتظامی ادارہ کرپشن اور رشوت خوری اور سرکاری مال کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث نہ ہو ۔نیب کے سابق چیرمین فصیح بخاری کا یہ بیان ریکارڈ میں موجود ہے کہ پاکستان میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے ۔جب کرپشن ایک اعزاز بن جاتی ہے تو پاکستان کیسے ترقی کرسکتا ہے ۔

پاکستان کے ترقی نہ کرنے کی پانچویں وجہ حکمرانوں کی شاہ خرچیاں ٗ لاتعداد غیر ملکی دورے ٗ سرکاری خرچ پر عمرے اور حج ہیں ۔اس کے باوجود کہ پاکستان کے حکمران خیرات مانگنے یا عیاشی کرنے کی غرض سے دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں لیکن غریب پاکستانیوں کے دیئے ہوئے ٹیکسوں کی رقم سے من پسند لوگوں سے جہاز بھر کے بیرونی دوروں پر جانا پھر وہاں سرکاری خرچ پرمہنگے ترین ہوٹلوں میں انہیں ٹھہرانا ٗ شاپنگ کے لیے بھی کروڑ روپے مال مفت دل بے رحم کی طرح خرچ کرنا ہمارے حکمرانوں کا معمول چلا آرہا ہے ۔ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو کسی ترقی یافتہ ملک میں امداد لینے کے لیے گئے تو ان کے وفد میں درجنوں افراد موجود تھے متعلقہ ملک نے جن کی میزبانی کرنے سے صاف انکار کردیا اس لیے حکومت پاکستان کے خرچ پر انہیں مہنگے ترین ہوٹلوں میں نہ صرف ٹھہرایا گیا بلکہ ٹرانسپورٹیشن کے لیے مہنگی ترین گاڑیوں کااہتمام بھی کیاگیا جب بھٹو صاحب مقررہ وقت پر اس ملک کے وزیراعظم کے آفس خیرات مانگنے پہنچے تو میزبان وزیر اعظم کو موجودنہ پایا آدھے گھنٹے بعد میزبان وزیر اعظم ہانپتا کانپتا جب اپنے افس پہنچا تو اس نے بھٹو صاحب سے معذرت کرتے ہوئے کہا آپ کے وفد کے اراکین کی گاڑیاں اتنی دور تک لمبی قطار بنائے کھڑی ہیں کہ مجھے اپنی گاڑی پارک کرنے کے لیے جگہ ہی نہ مل سکی چنانچہ ان کے پیچھے میں اپنی گاڑی پارک کرکے پیدل ہی چلتاہوا یہاں پہنچا ہوں ۔ ہر برطانوی وزیر اعظم کسی غیر ملکی سربراہان مملکت کا استقبال اپنی رہائش گاہ 10 ڈاؤن سٹریٹ کے دروازے پر کھڑے ہوکر کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ہر شہر میں وسیع و عریض محلات کو حکمرانوں نے وزیر اعظم ہاؤس ڈیکلر کرکے ہزار ہزار سیکورٹی اہلکار تعینات کرکے مقامی لوگوں کے لیے زندگی عذاب بنا رکھی ہے ۔ان کے محلات میں سرکاری خرچ سے ہیلی پیڈ تعمیرہوتے ہیں جب وہ چلتے ہیں تو آگے اور پیچھے مغل بادشاہوں کی طرح گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں ۔ آصف علی زرداری کے حوالے سے ایسے کتنے ہی واقعات ریکارڈ کا حصہ ہیں کہنے کامقصد یہ ہے کہ جو شخص بھی صدر یا وزیر اعظم پاکستان بنتاہے وہ قومی خزانے کو باپ کی جاگیر تصور کرکے خود بھی جی بھر کے لوٹتا ہے اور اپنے حواریوں اور خاندان کے افراد کو بھی مواقع فراہم کرنا نہیں بھولتا ۔جبکہ امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک میں صدر ہو یا وزیر اعظم ٗ وزیر ہو یا مشیر ٗ سرکاری افسر ہو یا ماتحت سب کو احتساب کا خوف لاحق ہوتا ہے اور ہرشخص اپنے اپنے فرائض پوری دیانت دار ی سے انجام دینا اپنا فرض اولین تصور کرتا ہے ۔یہ جذبہ اور ولولہ پاکستانی حکمرانوں اور سرکاری افسروں میں شاید پیدا ہی نہیں ہوا ۔جو ترقی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔

پاکستان میں ترقی کی راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ تنخواہوں اورمالی سہولتوں کے ڈھانچے میں بہت بڑا تضاد ہے یہاں درجنوں سرکاری ٗنیم سرکاری ٗ کارپوریشنیں ٗ بنک اور نجی ادارے قائم ہیں ۔قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ یہاں کلیدی عہدوں پر تعینات لوگوں کے لیے تعلیمی قابلیت کا کوئی میعار مقرر نہیں ہے حکمران انڈر میٹر ک شخص کو بھی کسی بھی سرکاری محکمے یا کارپوریشن کا چیرمین بنا کر دس لاکھ روپے تنخواہ مقرر کرکے تعینات کرسکتے ہیں بطور خاص پیپلز پارٹی کے ہر دور میں ایسے واقعات زیادہ تعداد میں سنے اور دیکھے جاتے ہیں پھر جن افسروں کو لاکھوں کے حساب سے تنخواہ ملتی ہے ان کو سرکاری خزانے سے تین چار گاڑیاں ٗ پر آسائش بنگلے ٗ دو ہزار لیٹر پٹرول مفت ٗ گھر کے ٹیلی فون بل ٗ سوئی گیس بل کی کوئی حد مقرر نہیں لاکھوں روپے بل بھی آجائیں تو آنکھیں بند کرکے سرکاری خزانے سے جمع کروا دیئے جاتے ہیں شہر کے بہترین کلبوں کی ممبر شپ ٗ بہترین پرائیویٹ ہسپتالوں میں اپنی ذات سمیت خاندان کے تمام افراد کو وی آئی پی علاج و معالجے کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ ماتحت سرکاری ملازمین ذاتی ملازمین کادرجہ حاصل کرلیتے ہیں جو صاحب کے بچوں کو سکول سے لانے واپس گھر لیجانے ٗ بچوں کی فیسوں اوریوٹیلٹی بلوں کو جمع کروانے سمیت گھریلو ذمہ داریاں بھی نبھاتے ہیں ۔ ایک جانب غریب ملک پاکستان میں کلیدی عہدوں پر کام کرنے والے ہزاروں افسر ٗپاکستان میں رہتے ہوئے یورپ کے ماحول میں زندگی کو انجوائے کرتے ہیں تو دوسری جانب کلرک ٗ سٹینو گرافر ٗ کیشیئر ٗ کیمپوٹر آپریٹر بھرتی کرنے کے لیے نہ صرف مشکل ترین تحریری ٹیسٹ لیے جاتے ہیں بلکہ ایم بی اے کی ڈگریاں طلب کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت کو ایک سال کے کنٹریکٹ پر دانستہ اس لیے رکھاجاتا ہے تاکہ کوئی شخص سکھ کا سانس نہ لے سکے تنخواہ مقرر کرنے کا جب مرحلہ در پیش ہوتا ہے تو دس ہزار سے پندرہ ہزار روپے بمشکل مقرر کی جاتی ہے اس تنخواہ میں بھرتی ہونے والے شخص کو نہ بجلی فری ملتی ہے نہ گیس ۔ بلکہ اسے اپنی کم ترین تنخواہ میں سے ہی بجلی ٗگیس ٗٹیلی فون اور پانی کا ہزاروں روپے ماہانہ بل خود ہی ادا کرنے پڑتے ہیں بلکہ 113 روپے فی لیٹر پٹرول اپنی جیب سے خرید کر اپنی موٹرسائیکل میں ڈلوانا پڑتا ہے ۔اس منافقانہ اور غیر منصفانہ پالیسی کی بہترین مثال آصف علی زرداری تھے جو صرف ایف اے پاس تھے اور منصب صدارت پر بیٹھ کر سیاہ و سفید کے مالک تھے ان کا ہر حکم قانون کا درجہ رکھتا تھا ان کے ذاتی مقدمات پر اربوں روپے من پسند وکیلوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹ دیئے گئے اس کے برعکس ملک کروڑوں ایف اے پاس نوجوان ایسے ہوں گے جن کو کوئی ڈھنگ کی ملازمت نہیں ملتی کوئی چھابڑی فروش ہے تو کوئی اینٹیں سر پر اٹھا کر مزدوری کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔اسی منافقانہ اور غیرمنصفانہ طرز ملازمت کی وجہ سے حکمران ٗ سرکاری افسران اور ان کے خاندان کے افراد دن بدن امیر سے امیر تر اور بے چارے ملازمین غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں کیونکہ ہر مہینے حکومت آنکھیں بند کرکے بجلی پٹرول اورگیس کی قیمتوں میں جو اضافہ کرتی ہے اس سے چھوٹے ملازمین کی تنخواہیں ہر مہینے کم سے کمتر ہوتی چلی جاتی ہیں جبکہ حکمرانوں اور سرکاری افسروں کو اس سے کوئی فرق پڑتا کیونکہ وہ تو پہلے ہی بجلی گیس پٹرول سمیت زندگی کی ہر سہولت سرکاری خزانے سے حاصل کررہے ہیں مہنگائی کا بوجھ ان کی بجائے سرکاری خزانہ برداشت کرتا ہے اور یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔اس پر ظلم یہ کہ پرائیویٹ ادارے ہر قسم کے لیبر قانونین سے مکمل آزاد ہیں وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ دیں یا نہ دیں ان سے آٹھ گھنٹے ڈیوٹی لیں یا 20 گھنٹے کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے وہ اپنے ادارے میں کام کرنے والے ملازمین کو مراعات دینے کی بجائے ایک لیبر انسپکٹر کو منہ مانگی قیمت پر خرید لیتے ہیں اور ہر قسم کے قانون سے آزاد ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ ادارے اپنے ہاں کام کرنے والوں کو حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم دس ہزار روپے تنخواہ بھی دینے کو تیار نہیں ہوتے ۔ کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جہاں آج کے مہنگائی کے دورمیں بھی ملازمین کو پانچ سے چھ ہزار روپے تنخواہ تھما دی جاتی ہے اگر کوئی اعتراض کرے تو اس کا جواب ملازمت سے برطرفی کی صورت میں نکلتا ہے ۔جب کسی شخص کو پیٹ بھر کے روٹی نہیں ملے گی جب اس کے بچے رات کو بھوکے پیٹ سوئیں گے ٗ پیسے نہ ہونے کی بنا پر سکول نہیں جا سکیں گے ٗ جب بیماری میں انہیں معیاری علاج کی سہولت میسر نہیں ہوگی ٗ جب عید تہوار پر نئے کپڑے اور گھر میں کچھ نہیں پکے گا تو ایسے افراد ملک و قوم سے کیسے وفا کرسکتے ہیں انہی وجوہات کی بنا پر آج پاکستانی معاشرے میں کرائمز ٗ جنسی جرائم ٗ دہشت گردی ٗ اغوا کاری ٗ بھتہ خوری ٗچوری اور ڈاکے ایک وبا کی صورت اختیار کرچکے ہیں ۔جبکہ حکمرانوں کو عوام سے جھوٹے وعدے کرنے اور مسلسل بیوقوف بنانے سے ہی فرصت نہیں ہے ۔ان حالات میں پاکستان کیسے ترقی کرسکتا ہے فیصلہ کن پوزیشنوں پر کام کرنے والے افراد ہی کرپٹ ٗ لاپرواہ ٗ ٹیکس نادہندگان ٗ جعلی ڈگریوں کے حامل ٗ پلاٹوں ٹھیکوں اور پرمٹوں کی اسیر ہوجائیں تو وہ قوم زیادہ عرصہ تک اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتی ۔

دنیا میں جن ممالک نے ترقی کی ہے انہوں نے ذاتی مفادات کو فراموش کرکے قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ہر سطح پر میرٹ ٗ دیانت داری اور ملک سے وفاداری کو رواج دیا ہے وہاں کے حکمرانوں نے ذاتی غلام بنانے کی بجائے اداروں کو ریاستی قوانین کا پابند بنایا ہے وہاں اگر پولیس کسی بھی بااثر شخص کو قانون شکنی کے جرم میں گرفتار کرتی ہے تو حکمران پولیس پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ۔پولیس ٗ عدالتیں اور انتظامی ادارے ہر قسم کے سیاسی اثر و رسوخ سے محفوظ ہیں ۔ان ممالک میں ٹیکس نہ دینا ٗ قانون توڑنا اور دوسروں کے حقوق غصب کرنا سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے لیکن یہی جرائم پاکستان میں اوپر سے لے کر نیچے تک پوری شدت سے سرایت کرچکے ہیں جو شخص بھی صدر یا وزیراعظم بنتا ہے وہ پورے ملک کو ذاتی جاگیر تصور کرکے انتظامی اداروں میں من پسند تقرریاں کرکے اداروں کی کارکردگی کو صفر بنا دیتا ہے اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ پاکستان میں پی آئی اے ٗ سٹیل ملز ٗ ریلوے سمیت کتنے ہی سرکاری ادارے ہیں جو حکومت کو کچھ کما کردینے کی بجائے پانچ سو ارب سالانہ عوام کے دیئے ہوئے ٹیکسوں سے ڈکار جاتے ہیں حکومت ان اداروں کی اصلاح کرنے ان میں لاکھوں روپے ماہانہ پر سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے نااہل افسروں اور ملازمین کی تقرریوں کو روکنے کی بجائے ان پر مزید بھاری تنخواہوں والے افسروں کا بوجھ لاد دیتی ہیں جن سے یہ ادارے دیمک زدہ بن کر قومی معیشت پر ہمیشہ کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں ۔جہاں تک ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ٗ تخریب کاری ٗ اغواکاری ٗ بھتہ خوری اور چوری ڈاکے کی وارداتوں کی بہتات کا تعلق ہے یہ بات اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ہمارے سیکورٹی اداروں میں ایسے افراد موجود ہیں جن کے رابطے دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے ساتھ استوار ہیں ان کے تعاون کے بغیر کسی بھی جگہ دہشت گردی کامیاب نہیں ہوسکتی لیکن یہاں جی ایچ کیو ٗ کامرہ ٗ کراچی میں بحری فضائی اڈوں پر حملے اس لیے کامیاب ہوئے کہ وہاں مقامی اداروں کے لوگوں نے دہشت گردوں کو مکمل اطلاعات فراہم کی تھیں ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اب دہشت گردی ٗ تخریب کاری ٗ بھتہ خوری اور اغوا کاری صرف طالبان ہی نہیں کرتے بلکہ اس کاروبار کومنافع بخش تصور کرکے بڑی تعداد میں خود پاکستانی بھی شریک ہوچکے ہیں جہاں مجرم پکڑے ہی نہیں جاتے وہاں جرائم کیسے رک سکتے ہیں پولیس صرف تنخواہیں لینے کے لیے ہے اپنے فرائض سے وفا ان کے خون میں شامل نہیں ۔ہر شہر کے داخلی راستوں پر جو پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں وہ یا تو موبائل سے مسیجنگ میں مصروف ہوتے ہیں یا اپنی بندوقیں کہیں دور رکھ کر خود گپیں ہانک رہے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد ایک شہر سے دوسرے شہرے آسانی سے آجارہے ہیں وارداتیں ہوتی ہیں انسان مرتے ہیں جنازے اٹھتے ہیں حکومت مرنے والوں کے لیے مراعات کا اعلان کرتی ہے چند دنوں بعد پھروہی لاپرواہی ہم پر طاری ہوجاتی ہے ۔سیکورٹی ناکامی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ افغانستان اور بھارت موبائل سمیں پاکستان میں کھلے عام فروخت ہورہی ہیں اور انہیں سموں سے پاکستان میں بیٹھ کر کروڑوں روپے بھتہ مانگا جاتا ہے عدم ادائیگی کی صورت میں لوگوں کو جان سے مار بھی دیا جاتا ہے مارنے والے افغانستان سے نہیں آتے بلکہ ہمارے ہی گلی محلوں میں کرایے کے مکان لے کر بھتہ خوری کا یہ منافع بخش کاروبار کامیابی سے کررہے ہیں ۔

پاکستانی پولیس یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجاتی ہے کہ یہ دھمکی تو افغانستان سے ملی ہے ہم کچھ نہیں کرسکتے حالانکہ ان کے علم میں یہ بات ہے کہ افغانستان کی سموں سے جو کالیں بھتہ خوری کے لیے موصول ہوتی ہیں وہ افغانستان سے نہیں پاکستان سے ہی کی جاتی ہیں چند مہینے پہلے حساس ادارے کے اہلکاروں نے گرین ٹاؤن کے مکان کی بیسمنٹ میں ایک ایسا ٹیلی فون ایکسچینج پکڑا تھا جہاں سے کی جانے والی کالیں افغانستان کی معلوم ہوتی تھیں کرایے کے مکان میں رہنے والے ان لوگوں نے پیری مریدی کا سلسلہ شروع کررکھا تھا اور بڑی تعداد میں مرد و زن ان کے پاس دم کروانے آتے تھے ۔حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق وہ لاہور کی جیلوں سے دہشت گردوں کو آزاد کروانے کے لیے اہم ترین شخصیات کو اغوا کرنے کا پروگرام بھی رکھتے تھے لیکن مخبری ہونے پر ان کا یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا ۔گزشتہ تیرہ سالوں میں ہم ایسے سانحات ٗ حادثات اور دہشت گردی کے واقعات میں کتنے ہی زخم کھا چکے ہیں پانچ ہزار سے زائد محب وطن پاکستانی موت کی صورت میں دہشت گردی کا شکار ہوکر قبروں میں اتر چکے ہیں ان کے لواحقین پر کیا گزررہی ہے اس کے بارے میں صرف وہی جانتے ہیں لیکن حکمران ہر سانحے کے موقع پر وہی رٹے رٹائے فقرے دہرا دیتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا عزم متزلزل نہیں ہوگا حالانکہ وہ خود تو زیر زمین پناہ گاہوں میں چھپے بیٹھے ہیں اگر وہ حقیقت میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے پر عزم ہیں تو وہ خود کیوں وزیرستان سمیت قبائلی ایجنسیوں میں جاکر فوج کے شانہ بشانہ جنگ میں حصہ نہیں لیتے ۔وہ خود تو موت سے اس قدر ڈرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو بھی پاکستان سے بہت دور کسی یورپی ممالک میں اس لیے آباد کررکھا ہے کہ کوئی دہشت گرد انہیں نقصان نہ پہنچا دے لیکن ہمارے بے حس اور ڈالروں کے پجاری حکمران ہم پاکستانیوں کو اپنی ذات کا حصہ تصور نہ نہیں کرتے ان کا ہم پاکستانیوں سے سلوک ان انگریز حکمرانوں سے بھی بدتر ہے جو اپنے ڈیڑھ سو سالہ دور اقتدار میں سختی سے قانون پر عمل درآمد کروا کے شیر اور بکری کو ایک ہی گھاٹ پر پانی پر مجبور کرچکے تھے جن کے انصاف کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں ۔جو چند پولیس افسروں سے پورے شہر کو امن کا گہوارہ بنا دیتے تھے لیکن آج پولیس افسروں کی باراتیں ہر شہر میں موجود ہیں لیکن چوری ڈاکے بھتہ خوری اغواکاری دہشت گردی سمیت ہر واردات ہونا ایک معمول بن چکا ہے پولیس کے کانوں پر پھر بھی جوں نہیں رینگتی وہ معمول کا حصہ تصور کرکے اس طرح چپ ساد ھ لیتی ہے جیسے اس نے کچھ سنا اور دیکھا ہی نہیں ہے ۔متاثرین کی فریاد نہ پولیس افسروں تک پہنچتی ہے نہ حکمرانوں کے بند کانوں تک ۔ چنانچہ وہ بے چارے اپنے دکھ اور پریشانیوں سینوں میں لیے قبروں میں اتر جاتے ہیں ۔

سیکورٹی اداروں کی لاپرواہی کی بنا پر پاکستان کے کسی بھی شہر میں کرایے پر مکان حاصل کرنا اور پھر وہاں جرائم پیشہ افراد کا اکٹھا ہوکر دہشت گردی کرنا کوئی مشکل بات نہیں رہی ۔ مالک مالکان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کرایے پر مکان حاصل کرنے والا افغانی ہے یا بھارتی اسے تو صرف منہ مانگے کرایے کی ضرورت ہے جو اسے مل جاتا ہے تو وہ اپنا مکان ہر دہشت گرد کو دینے کے لیے بھی تیار ہوتا ہے جبکہ متعلقہ پولیس اسٹیشن کے اہلکاروں کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ اپنے اپنے علاقے کے کرایے میں رہنے والوں کے بارے میں جستجو کرسکیں کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں ۔

پاکستان اگر ترقی و خوشحالی سے بہت دور ہوتا جارہا ہے اور ناکامی کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے تو اس میں جہاں نااہلی ٗ کرپٹ اور جھوٹے حکمرانوں کا حصہ ہے وہاں انتظامی اداروں میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت اور قدم قدم پر نااہلی ٗ بزدلی اور قومی جذبے سے عاری رویے کا عمل دخل شامل ہے جبکہ عوام جو اپنے ووٹوں سے جعلی ڈگری کے حامل ٗ کرپٹ ٗ خائن اور اقرباپروری کرنے والے امیدواروں کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں وہ بھی اپنا دامن نہیں بچا سکتے ۔اگر وہ ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے باکردار اور باصلاحیت امیدواروں کا انتخاب کریں تو پاکستان بھی ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہوسکتا ہے لیکن ایسا ہونا بہت مشکل کام ہے کیونکہ نہ عوامی رویے تبدیل ہونے ہیں اور نہ ہی حکمرانوں اور انتظامی اداروں نے اپنے رویوں سے دیانت ٗامانت اور فرض شناسی کا ثبوت دینا ہے ۔

Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126733 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.