* گالیاں *
گالیوں پر لکھتے ہوئے ہمارے پاس اس قدر سیر حاصل مواد موجود تھا کہ اگر ہم
چاہتے تو فی البدیہہ ہی کئی صفحات قلمبند کرلیتے،مگر اس طرح تو ہمارے
گناہوں میں اضافہ اور زبان کے دراز ہوجانے کا اندیشہ بدرجہ اتم موجود تھا ،اس
لئے لکھنے میں کچھ محتاط انداز اپنانے کا فیصلہ کیا ،عام طور سے یہ بات
خاصی مشہور ہے کہ سب سے زیادہ گالیاں ،پنجاب میں اور پنجابی زبان میں دی
جاتی ہیں،یہاں تک کہ خلوص و محبت کا اظہار بھی ایک عدد پیار بھر ی گالی دے
کر کیا جاتا ہے۔۔۔یاد رہے کہ اس رائے سے ہمارا اتفاق کرنا ضروری نہیں ،کیونکہ
صوبائی اور لسانی جھگڑوں سے ہم یوں گھبراتے ہیں جیسے کہ طلبہ پڑھائی
سے۔۔عاشق ،محبوب کی جدائی سے۔۔غریب عوام، مہنگائی سے۔۔۔پرامن شہری ملک میں
جاری دنگا فساد اور لڑائی سے ۔۔اس لئے ہمارے جملہ حقوق پہلے سے ہی محفوظ
تصور کئے جائیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ انگلش اور اُردو میں شروع ہونے والی گفتگو کا انجام ،اگر
بھیانک یا خوفناک صورتحال اختیار کر جائے تو اس کا اختتام عمومََا پنجابی
زبان میں ہو جاتا ہے۔پتہ نہیں اس کی وجہ اُردو اور انگلش کے ذخیرۂ الفاظ
میں کمی ہے یا پھر یہ کہ ،دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے پنجابی زبان کے ایک دو
الفاظ ہی ایسے نشتر کا کام دیتے ہیں کہ دل و دماغ کے چودہ طبق روشن ہو جاتے
ہیں،اگر فریق ثانی کو پنجابی زبان اور گالیوں پر ویسی دسترس حاصل نہ ہو ۔۔یا
پھر وہ دائرہ اخلاق میں رہ کر بات کرنے کا عادی ہو تو اس مقام سے کھسک جانے
میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔۔
گالیاں ایسے مختصر ترین code word ہوتے ہیں جو دورانِ گفتگو ،بوقتِ ضرورت
استعمال کئے جاتے ہیں۔جہاں بڑے بڑے دلائل،مؤثر ثابت نہیں ہوتے ،وہاں گالی
کا ایک ہی لفظ تیرِبحدف کا کام سر انجام دیتا ہے۔اختتامی لڑائی میں گالی ،کسی
’’گولی ‘‘سے کم نہیں ہوتی،پوری ایٹم بم اور میزائیل کا کام کرتی ہے۔۔یوں ہم
ہر لحاظ سے ایٹمی طاقت ہیں۔۔۔۔ غالبََا،لفظوں کی مار مارنا اسی کو کہتے ہیں۔
ویسے بھی ہمارے ملک میں عام رواج ہے کہ سچی باتوں کو چھپانے اور اپنا غلط
مؤقف بیان کرنے کے لئے گالی کو ہی آخری ہدف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
کچھ لوگ گالی کو ہی اپنا تکیہ کلام بنا لیتے ہیں ، اورگفتگو کے دوران زیادہ
تر اسی پر تکیہ کرتے ہیں،اور گالی دینا لازم و ملزوم سمجھتے ہیں ۔۔بعد میں
شکوہ کرتے نظر آتے ہیں ۔کہ ۔۔۔۔۔۔ جن پے تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے
لگے۔۔۔۔۔
خالص دیہاتی ماحول میں جب بچہ پروان چڑھتا ہے تو بنیادی الفاظ سیکھنے کے
ساتھ ہی چند ایک مشہور و معروف گالیاں دینا بھی سیکھ جاتا ہے ،اور پھر جب
وہ اپنے چھوٹے سے مُنہ سے یہ بڑی بڑی گالیاں نکالتا ہے تو گھر والے بچے کی
اس ادا پہ نہال ہو ،ہو جاتے ہیں،گویا اس کے مُنہ سے گالیاں نہیں بلکہ پھول
جھڑ رہے ہیں۔
صاحب ۔۔!پاکستان نے اخلاقیات و معاشیات میں ترقی کی ہو ،یا نہ کی ہو۔۔۔شعبہ
گالیات میں خوب ترقی کی ہے۔۔گالیوں کا بدلتے موسم کے ساتھ بھی خوب تعلق
ہے،جوں جوں سرما اپنے اختتام کی طرف بڑھتا ہے اور ’’گرما‘‘اپنے جوبن پر آتا
ہے ساتھ ہی گالیوں کا درجہء حرارت بھی اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔۔اور پھر
یوں ،توتو میں میں کی شروعات ہوجاتی ہے۔۔عوام الناس کے دل و دماغ کی دہی
جمنا شروع ہوجاتی ہے۔یوں سمجھ لیں کہ گرمی کی حدت جتنی زیادہ ہوگی،گالیوں
کی شدّت میں بھی اسی نسبت سے اضافہ ہوگا، ۔۔ اس پر مستضاد یہ کہ شدید گرمی
میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ۔۔۔اب آپ خود ہی سمجھ جائیں کہ ہمارے ملک کا کون
سا ادارہ سب سے زیادہ گالیوں سے مستفید ہو رہا ہے ۔
اور جناب۔۔!اب تو پاکستانی میڈیا کو ہی دیکھ لیں ،کیسے اس نے کھلم کھلا
افادۂ عوام کی خاطر اخلاق سے گری ہوئی زبان کی ترویج کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے
۔دکھائے جانے والے گانے ، ٹاک شو ز ،ڈرامے ۔۔اس قسم کے ہو گئے ہیں کہ ادب
وآداب کی تمام حدود بالائے طاق رکھ دی گئی ہیں،جس سے ہر طبقۂ فکر کے لوگ
بدرجہء اتم فیضیاب ہو رہے ہیں۔ہمارے ملک کی سیاست گالیوں اور تالیوں سے
شروع ہوتی ہے،اور پھر گالیوں اور تالیوں پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔
الغرض ہمارے معاشرے میں نت نئی گالیوں کی ایک عجب بہار آئی ہوئی ہے ۔جو کہ
صدا بہار ہے ۔۔اس کے نتیجہ میں ہمارا معاشرہ نا صرف ادب و آداب ،شرم و حیا،
اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں اور برکتوں سے محروم ہوتا
جا رہا ہے ۔یقیناًاچھی اور پاکیزہ زبان کے استعمال سے ہی اخوت و محبت،امن و
بھائی چارے کی فضا کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔۔۔وہ کہتے ہیں نا کہ
گالیاں سن کے دعا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پا کے دکھ آرام دو |