کام کریں آپ کے دُشمن

کام کے معاملے میں مرزا تنقید بیگ کافرانہ طرزِ فکر و عمل کے حامل ہیں۔ کام پر اُن کا ایمان کبھی نہیں رہا۔ اُنہوں نے ہمیشہ کام سے گریز اور اجتناب کو رواج دینے کی بھرپور وکالت اور کوشش کی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہماری اُن سے کبھی نہیں بنی۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ بے کام کئے بہتر زندگی بسر کرنے کے معاملے میں وہ اتنی اور ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں کہ ہم ہر بار اپنے آپ سے شرمندہ سے ہو جاتے ہیں!
خواجہ الطاف حسین حالیؔ کہتے ہیں ؂
بُری یا بھلی سب گزر جائے گی
یہ کشتی یونہی پار اُتر جائے گی

جب کسی نہ کسی طور سب کی کشتی پار اُتر ہی جائے گی تو پھر کوئی طوفان کی موجوں سے اُلجھنے کی زحمت کیوں گوارا کرے؟ جب شعرا یہ پیغام دیں کہ جیو جیسے جینا ہے، سب کا انجام ایک ہے تو پھر کسی کو پاگل نے کتے نے کاٹا ہے کہ محنت کرے، پسینہ بہائے۔

لوگ اندھے نہیں ہیں۔ اُنہوں نے بارہا دیکھا ہے کہ کام کرنے والے بے چارے مشینوں کی طرح گِھس جاتے ہیں اور کام ختم ہونے کا نام نہیں لیتا! وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ع
اُس کو چُھٹّی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
یعنی جس نے کام میں دلچسپی لی وہ وہ تاریک راہوں میں مارا گیا!

کام کے معاملے میں ہر قوم کا کوئی نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے۔ جاپانیوں کا نظریہ یہ ہے کہ جو کام کوئی اور کرسکتا ہے وہ ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ اور اگر کوئی کام بظاہر کسی کے بس کی بات نہ ہو تو ہمیں ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ مشرق وسطیٰ کا عمومی رویہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی کام کرسکتا ہے تو اُسے وہ کام کرنے دیا جائے! اور اگر کوئی خاص کام بظاہر کسی سے نہیں ہوسکتا تو خواہ مخواہ سَر پھوڑنے کی ضرورت کیا ہے! اور مرزا جیسے پاکستانیوں کا ’’نظریہ‘‘ یہ ہے کہ کوئی خاص کام اگر کوئی کرسکتا ہے تو اسے ہرگز نہ کرنے دیا جائے! اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ جو کام کوئی کر ہی نہیں سکتا اُس کام کے لیے اُنہیں ضرور مجبور کیا جائے جنہیں کام کرنے کا بہت شوق ہے!

مرزا کا دعوٰی ہے کہ ’’بے کامی‘‘ کے معاملے میں کوئی بھی قوم ہماری ہمسر نہیں ہوسکتی۔ اور ہمیں اُن کی بات پر کبھی کبھی یقین کرنا ہی پڑا ہے کیونکہ خود اُنہوں نے بھی اِسی طور زندگی بسر کی ہے بلکہ اُنہوں نے مارکیٹ میں نیا تصور پیش کیا ہے۔ وہ زندگی بسر نہیں کرتے بلکہ زندگی اُنہیں بسر کر رہی ہے۔ یعنی چُھری کو زحمت سے بچالیا ہے، خود ہی خربوزہ بن کر چُھری پر جا گرے ہیں!

مرزا نے کام پر یقین نہ رکھنے والوں کا گروپ تشکیل دے رکھا ہے۔ یہ ’’ماسٹر مائنڈ گروپ‘‘ اُن کے گرد منڈلاتا رہتا ہے۔ کیوں نہ منڈلائے؟ اُسے اپنی مرضی کی ذہنی خوراک جو ملتی رہتی ہے۔ اگر کوئی اِنہیں یہ کہتے ہوئے شرمندہ کرنے کی کوشش کرے کہ فلاں شخص، ملک یا قوم نے محنت سے ترقی کی ہے تو سمجھ لیجیے اُس کی تو شامت آگئی۔ سردی ہو یا گرمی، صبح کے چار بجے جو لوگ موٹر سائیکل یا سائیکل پر سوار ہوکر چھوٹے ہوٹلوں پر بیکری کے آئٹمز سپلائی کرتے ہیں اُن کی محنت بھی مرزا اور اُن کے ہم خیال افراد کے ’’پائے استقامت‘‘ میں لغزش نہیں لاسکتی! مرزا کا تصور یہ ہے کہ صبحِ کاذب سے ’’صبحِ ناطق‘‘ (یعنی شور شرابہ شور ہونے تک) کا وقت قدرت کے نظاروں کو نظر بھر دیکھنے اور تازہ ہوا کو پھیپھڑوں میں داخل کرنے کا ہوتا ہے۔ ایسے میں محنت کہاں سے ٹپک پڑتی ہے؟ یا اُسے مداخلت کا موقع دیا ہی کیوں جائے؟

’’اعصاب کی مضبوطی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ جُون جُولائی کی گرمی میں کدال چلاکر سڑک کا سینہ چیرنے والوں کی مشقت سے بھی اِن کے دل نرم نہیں پڑتے! مرزا اور ان کے ہم خیال لوگوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے ع
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں!

مرزا جیسے لوگ محنت کی طرف کیوں آئیں جب ماحول میں بے حساب لوگ کچھ کئے بغیر بہت مزے سے زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں؟ لوگ ایس ایم ایس کے ذریعے کام سے گریز کی تلقین میں مصروف رہتے ہیں۔ ایک ایس ایم ایس میں کام کرنے والوں کو اِن الفاظ میں ’’خراجِ عقیدت‘‘ پیش کیا گیا ہے۔ ’’بنا رہ پگلا، کام کرے گا اگلا! جس نے لی ٹینشن، اُس کی بیوی کو ملی پنشن! کام سے ڈرو مت مگر کام کرو مت! کام کرو نہ کرو مگر کام کی فکر ضرور کرو! کام کی فکر کرو نہ کرو مگر باس سے اِس فکر کا ذکر ضرور کرو! کوئی کام کر رہا ہو تو کرنے مت دو اور اگر کوئی کام نہ کر رہا ہو تو اُس کی چُغلی کرو!‘‘

مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان کو جن لوگوں نے ناکام ریاست سمجھ رکھا ہے اُن کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ خزاں کو بہار کی ضِد سمجھنے والے بھول جاتے ہیں کہ جب درختوں پر ایک بھی پَتّہ باقی نہیں رہتا تب خزاں کا موسمِ بہار چل رہا ہوتا ہے! مرزا کا استدلال ہے کہ دنیا بھر میں ہزار دِقّت کے بعد یہ ممکن بنایا جاسکا ہے کہ عام شہری کو زیادہ کام نہ کرنا پڑے اور اُن کی زندگی میں سکون ہی سکون ہو جبکہ ہم کسی خاص دقت، محنت اور تحقیق کے بغیر اِس منزل تک بہت پہلے پہنچ گئے تھے! مرزا کو اِس بات کا زیادہ دُکھ ہے کہ کام سے بچانے والا ماحول پیدا کرنے پر پاکستان کو سراہنے کے بجائے ناکام ریاست قرار دے کر مذاق اُڑایا جارہا ہے!

کام کے خلاف مرزا کی بُنیادی دلیل یہ ہے کہ دُنیا بھر میں لوگوں کو پُرسکون زندگی بسر کرنے کا موقع ریٹائرمنٹ کے میسر ہو پاتا ہے مگر ہم یہ موقع بہت پہلے ہی حاصل کرچکے ہوتے ہیں! اور یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پُرسکون زندگی بسر کرنے کا موقع مل بھی جائے تو کس کام کا؟ ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی بچتی ہی کتنی ہے؟ زمانے بھر میں اصول یہ ہے کہ جسم کو تھکن سے چُور کرنے والی محنت کے بعد آرام کے چند لمحات نصیب ہوتے ہیں۔ یعنی آرام یقینی بنانے کے لیے محنت کا سسٹم رائج ہے۔ خاک ایسے سسٹم پر جس میں انسان مر کھپ جائے، آرام کو ترس جائے!

بے عملی کی بنیاد پر پاکستان کو ناکام ریاست قرار دینے والوں پر برسانے کے لیے مرزا کے ترکش میں دلائل کے تیر بھرے پڑے ہیں۔ مثلاً
٭ کیا کیا قدم قدم پر ہمارے عمل نے ثابت نہیں کیا کہ بے عملی ہی زندگی بسر کرنے کا سب سے آرام دہ تصور ہے؟
٭ جن اقدار کو دُنیا والوں نے آج بھی دردِ سر کی طرح گلے لگا رکھا ہے کیا ہم نے اُنہیں خیرباد کہتے ہوئے دائمی تسکین و مسرت کا سامان نہیں کیا؟
٭ آرام کے بڑے دورانیوں کے درمیان ہم نے کام کا وقفہ متعارف کرایا ہے!

کام کرنے والوں کی مذمت کے معاملے میں مرزا انتہا پسند ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کام کو پاکستان کی حدود سے نکالا جاچکا ہے اِس لیے اب اگر کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو پاکستان میں رہنے کا خیال بھی دل سے نکال دے۔ اور جسے یہاں رہنا ہے وہ کام کا خیال اپنے ذہن سے کھرچ کر پھینک دے!

مرزا کے ہم خیال لوگ کہتے ہیں کہ اﷲ نے اِتنی بڑی کائنات میں صرف زمین کو اِنسانوں یعنی سوچنے والی مخلوق سے نوازا ہے۔ تو کیا ہماری زندگی کا مقصد صرف یہ ہے کہ کام کرتے کرتے مر کھپ جائیں؟ اﷲ کی بنائی ہوئی اِس دنیا اور وسیع و عریض کائنات کا مشاہدہ نہ کریں، غور و فکر کی راہ پر نہ چلیں؟ اگر کام کرتے کرتے ہی چل بسے تو قدرت کی صَنّاعی کے اِس شاہکار یعنی کائنات کا مشاہدہ کون کرے گا؟

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524570 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More