وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ
شرجیل میمن نے اعتراف کیا ہے کہ محکمہ بلدیات میں ساڑھے بارہ ہزار ایسی
بھرتیاں کی گئی ہیں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ بلدیاتی اداروں میں تیس
سے چالیس فیصد ملازمین ڈیوٹی نہیں دیتے۔ جس کی وجہ سے شہروں میں صفائی کا
عمل بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ ان کایہ کہنا ہے کہ اس محکمہ کا سب سے بڑا
مسئلہ غیرحاضر ملازمین ہیں جبکہ محکمے میں ضرورت سے زیادہ ملازمین بھرتی
کئے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں 80 فیصد ہائیڈرنٹس غیرقانونی طور
پر چل رہے ہیں جس کا نوٹس لیتے ہوئے دس ہائیڈرنٹس بند کردیئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ستر فیصد70 ہائیڈرنٹس آئندہ ہفتے بند کردیئے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بعض علاقوں میں ہائیڈرنٹس بند کرانے سے ملازمین کو خطرہ
بھی ہے۔
وزیر اطلاعات و بلدیات کی یہ بات بلاشبہ سچ ہے کہ کراچی میں پانی کی چوری
بند کرانا اور غیر قانونی ہائیڈرنٹس بند کرانا خطرے سے خالی نہیں۔ سوال یہ
ہے کہ ساڑھے بارہ ہزار ملازمین کس نے بھرتی کئے کس دور میں بھرتی ہوئے؟ اس
بات کو ہاتھ لگانا بجلی کی کھلی گیارہ ہزار واٹ کی تاروں کو ہاتھ لگانے کے
مترادف ہے۔ اس لیے وزیر موصوف اپنے پارٹی کے منشور کا سہارا لے کر اس
معاملے کو وہیں دفن کرنا چاہتے ہیں۔ موصوف نے بلدیاتی اداروں میں تیس سے
چالیس فیصد غیر حاضر ملازمین کی بھی بات کی ہے لیکن یہ بھی گیارہ ہزار واٹ
کی تاریں ہیں جنہیں ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت
سندھ ساڑھے بارہ ہزار ملازمین کو تنخواہ کے نام پر بھتہ دے رہی ہے۔ ان کے
خلاف شکایت کا دفتر اس لیے بھی بند ہے کیونکہ بھتہ خوروں کے خلاف شکایت
کرنا جرم ہے۔ فرض کریں کہ ان ملازمین میں سے ایک کی تنخواہ دس ہزار روپے ہے
تو بارہ ہزار ملازمین کی کل ماہوار تنخواہ کی رقم ماہوار ساڑھے بارہ کروڑ
اور سالانہ ڈیڑھ ارب روپے ہوتی ہے۔ یہ ملازمین پانچ سال سے تعینات ملازمت
میں ہیں تو یہ رقم نو ارب روپے اور اگر دس سال سے ہیں تو اٹھارہ ارب روپے
بنتی ہے۔ حکومت سندھ اس طرح سے جو بھتہ دے رہی ہے وہ اس کو پیراسائیٹ کی
طرح اپنی گرفت میں لے رہا ہے اور گرفت کو مضبوط کر رہا ہے۔ لاکھوں پناہ
گزین بھی صوبے میں رہائش پذیر ہیں جن کے اعداد شمار کا حکومت ہر دفعہ
اعتراف تو کرتی ہے لیکن ان کو نکالنے کا کوئی تدارک نہیں کرتی۔ ایک چینی
کہاوت ہے کہ اگر گھر ی روز صفائی نہ کی جائے تو اس کو گھر نہیں کہا جا
سکتا۔لہٰذا حکومت سندھ کو غیر قانونی ملازمین، پناہ گزینوں، ہائیڈرنٹس،
تجازوات اور اسلحہ کے خلاف ایکشن لینا پڑاگا۔ ابھی تو صرف ایک محکمے کی بات
ہورہی ہے۔ حکومت سندھ کے 52 محکمے ہیں۔ ان کی بھی سینکڑوں ہوش اڑادینے والی
کہانیاں ہیں۔
روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں دہشت گردی کے واقعات کے عنوان سے لکھتا ہے
کہ حیدرآباد چند عشروں سے دہشت گردی کی کارروائیوں سے محفوظ تھا۔ وہاں
گزشتہ دنوں دہشت گردی کے چار واقعات کے باعث امن کا یہ شہر خوف اور بے
یقینی کی دھند کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ پولیس موبائل پر ہونے والے دو مختلف
واقعات میں چار پولیس اہلکار قتل ہو گئے جبکہ ایک نجی گارڈ کو فائرنگ کے
واقعہ میں قتل کردیا گیا ہے۔ حیدرآباد میں اس نوعیت کی دہشت گردی کا یہ
پہلا واقعہ ہے۔ مگر اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد امن کے اس شہر میں اپنے
پاؤں جما چکے ہیں۔ ان دو واقعات کا طریق واردات ایک ہی ہے یعنی موٹر سائیکل
پر سوار مسلح افراد نے پولیس والوں کو ڈھونڈ کر قتل کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ
ملزمان جہاں اپنی موجودگی کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں وہاں پولیس کو بھی
ایک اہم پیغام اس دہشت گردی نے دیا ہے۔ ملک میں متعدد دہشت گرد تنظیمیں اور
پریشر گروپ سرگرم ہیں۔ ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ جب کسی دہشت گرد تنظیم یا
گروہ کے لوگ گرفتار ہوتے ہیں تو وہ دباؤ ڈالنے کے لیے ایسی کارروائیاں کرتے
ہیں جوکہ کسی مخصوص علاقے یا شہر تک محدود نہیں ہوتیں۔ بہرحال جو بھی صورت
ہو اس میں بعض انتظامی کوتاہیاں ضرور ہیں۔ پہلی بات یہ کہ یہ دہشت گردی
گنجاں آبادی میں ہوئی ہے۔ جہاں سڑک پر لوگوں کی آمدورفت بھی زیادہ ہے۔ مگر
اس کے باوجود ہشت گرد کامیابی کے ساتھ کارروائی کر کے فرار ہوگئے اور کہیں
بھی انہیں رکاوٹ نہیں ہوئی۔ آخر مجرمان کہاں گئے؟ انہوں نے کوئی سلمانی
ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں؟ حیدرآباد میں ٹارگٹ کلنگ کے یہ واقعات انتظامیہ کی
توجہ چاہتے ہیں۔ یہ عام فہم بات ہے کہ ایک علاقے یا شہر میں آپریشن ہوتا ہے
تو وہ وہاں سے نکل کر دوسرے شہر میں چلے جاتے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے دہشت
گرد کراچی سے اور کراچی کے دہشت گرد لاہور، مری اور دوسرے شہروں سے گرفتار
ہوتے رہے ہیں۔ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران ہر چیز پر نظر کیوں
نہیں رکھی جارہی ہے۔ ریاست کی آنکھیں اور کان سمجھے جانے والے ادارے کہاں
کیا کر رہے ہیں؟ ان کی کارکردگی اس مرتبہ نظر کیوں نہیں آرہی؟ یہ امر اس
وقت زیادہ توجہ طلب ہے جب انتہا پسند بدلہ لینے کی دھمکیاں دے رہے چکے ہوں
اور کارروائیاں تیز کرنے کا خطرہ موجودہو۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں
دہشت گرد زیادہ منظم اور محافظ منتشر ہیں۔ جو دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑ
نہیں سکے ہیں۔
روزنامہ ’’سندھ ایکسپریس‘‘ ’’حکومت بلدیاتی انتخابات سے متعلق اپنا مؤقف
واضح کرے ‘‘کے عنوان سے لکھتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق کچھ نئے
الجھاوے اور سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جب الیکشن کمیشن سندھ اور پنجاب میں
انتخابی شیڈول کا اعلان کرچکی ہے ، تب یہ خبریں آرہی ہیں کہ وزارت بین
الاصوبائی رابطہ نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی
سفارش کی ہے ۔ وزارت نے یہ مؤقف رکھا ہے کہ ملک میں کئی برسوں سے مردم
شماری نہ ہونے کی وجہ سے وسائل کی تقسیم سے لے کر نئی حلقہ بندیوں تک کئی
مسائل موجود ہیں۔ لہٰذا پہلے مردم شماری کرا کے پھر یہ انتخابات کرائے
جائیں۔ اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم نے محکمہ شماریات کو ملک میں مردم شماری
کرانے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ ملک میں آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی
تھی۔اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہر دس سال کے بعد مردم شماری کرانا لازمی ہے۔
اگر اس ترمیم کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ مردم شماری 2008 ء میں ہونی
تھی لیکن تب پہلے مرحلے میں صرف گھر شماری ہوئی تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ
اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے۔ ہمارے پاس فیصلے پہلے اور ان پر سوچنے کی ضرورت
بعد میں محسوس کی جاتی ہے۔ اس تناظر میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ بھی ہے۔
ان انتخابات کے بارے میں جو بحث ہوتی رہی ہے، حکومت جو دلائل دیتی رہی ہے،
ان کی ضرورت کبھی نہیں پڑتی اگر ہم اپنے معاملات آئین کی روشنی میں چلا رہے
ہوتے۔ اب جب انتخابات کا شیڈول بھی آچکا ہے، سندھ میں حلقہ بندیوں کا
نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا ہے، لوگ اس عمل میں شریک ہو چکے ہیں ، تب اس طرح
کے سوالات یقیناًعوام کے لیے تعجب کا باعث بنیں گے کہ اداروں کے مؤقف میں
یکسانیت کیوں نہیں؟ اس طرح کے سوالات اور پیچیدگیاں مزید غیر یقینی صورت
حال پیدا کریں گی۔ حکومت اگر لوگوں کو اور کچھ نہیں دے سکتی تو کم از کم
انتظامی پیچیدگیاں تو پیدا نہ کر ے- |