پسند ناپسند کے پیمانے کے تحت
آرمی چیف کا انتخاب کرکے ناکامی ‘ پشیمانی اور اقتدار سے رخصتی کا ماضی
رکھنے والے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کیلئے اس بار سربراہ
عساکر کا انتخاب پہلے سے بھی زیادہ مشکل ترین اَمر تھا کیونکہ ایک جانب
سنیارٹی کی بنیاد پر آرمی چیف کے عہدے کیلئے ہاٹ فیورٹ وہ جنرل اسلم ہارون
تھے جنہوں نے مشرف کی جانب سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیئے جانے کے وقت
اس مشہور زمانہ ٹریپل ون بریگیڈ کی کمان کی تھی جس کی فعالیت کی خبروں سے
ہی عوام کے ذہن میں آمریت کے خدشات سرا ٹھانے لگتے ہیں جبکہ مذکورہ عہدے
کیلئے فیورٹ کے دوسرے پائیدان پر جنرل راشد محمود موجود تھے جن کی عسکری
بصیرت ‘ قابلیت اور تجربات سے کسی طور انکار ممکن نہیں تھا جبکہ تیسرے نمبر
پر دفاع وطن کیلئے جانوں کا نذرانہ دیکر ”تمغوں والے گھرانے “ سے تعلق
رکھنے والے میجر عزیز بھٹی شہید کے بھانجے اور میجر شبیر شہید کے بھائی
راحیل شریف تھے ۔ جنہوں نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی پاکستان کو
جھکانے اور تسخیر کرنے کی نئی جنگ حکمت عملی کا توڑ نکالتے ہوئے ”عزم نو
مشقوں“کا انعقاد کرکے بھارت کی” کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن “کو ناکامی سے دوچار
کرکے بھارتی عسکری قیادت کیلئے ”عفریت “ کی حیثیت اختیار کرلی اور بھارتی
فوجی قیادرت راحیل شریف کو بھارت کی فوجی و جنگی حکمت عملی کیلئے سب سے برا
خطرہ قرار دینے پر مجبور ہوگئی ۔
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے بھارت کی جانب سے جاری سرحدی
اشتعال انگیزی ‘ بھارتی عزائم ‘ سرحدی صورتحال ‘ اگلے برس امریکہ کی
افغانستان سے واپسی کے بعد پیدا ہونے والی ممکنہ صورتحال ‘ طالبان سے
مذاکرات کی کامیابی کیلئے سازگار ماحول ‘ مذاکرات کی کامیابی کے ذریعے
دہشتگردی سے نجات و امن کی بحالی اور تعمیرو ترقی پاکستان کیلئے جمہوریت کے
تسلسل کی ضمانت کے حصول کیلئے راحیل شریف کے عزم و حوصلے ‘ صلاحیت و قابلیت
اورجوش و جذبے کو آزمانے کا فیصلہ کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف
جبکہ ر جنرل راشد محمود کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی تعینات
کردیا گووزیراعظم کے اس فیصلے پر بہت سے حلقوں کی جانب سے اسے جنرل ہارون
اسلم کے ساتھ میاں صاحب کی انتقامی کاروائی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی جس کے
بعد جنرل اسلم ہارون نے سپرسیڈہونے کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا
اور کور کمانڈرز کے اجلاس سمیت آرمی چیف تقریب حلف برداری سے بھی معذرت
کرلی مگر دوسری جانب پاکستان کے تمام حلقوں نے میاں صاحب کی جانب سے جنرل
راحیل شریف کو آرمی چیف مقرر کئے جانے کے فیصلے پر تائید و اطمینان کا
اظہار کرتے ہوئے درست انتخاب قرار دیا ہے کیونکہ پاکستان کے موجودہ سیاسی و
جغرافیائی حالات اور اندورنی ‘ بیرونی و سرحدی صورتحال کے پیش نظر پاکستان
و مسلح افواج کوجس سیاسی نظریات کے حامل یا دوسرے لفظوں میں سیاست بیزار
خالص دفاعی پروفیشنل ‘ جرا ¿تمند اور تجربہ کار کے ساتھ پرعزم و حوصلہ مند
سپہ سالار کی ضرورت تھی جو بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال بھارت کو نگاہیں
جھکانے پر مجبور کرسکے راحیل شریف ان تمام خصوصیات پر پورا اترتے ہیں جبکہ
ان کے آرمی چیف بنائے جانے سے مستقبل قریب میں جمہوریت کیلئے خطرات اور
فوجی بغاوت کے امکانات بھی معدوم دکھائی دے رہے ہیں ۔
جمعہ 29نومبر 2013ءکو جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہونے والی تبدیلی کمان کی
تقریب میںجنرل اشفاق پرویز کیانی سے 15ویں سپہ سالار کی حیثیت سے پاک فوج
کی کمان لینے والے نئے آرمی چیف راحیل شریف نے1988ءمیں نیشنل ڈیفنس
یونیورسٹی اسلام آباد سے وار کورس کرنے کے علاوہ برطانیہ کے رائل کالج آف
ڈیفنس اسٹڈیز سے بھی فارغ التحصیل ہیں جس نے انہیں اپنے دونوں ہمعصروں کے
مقابل امتیاز عطا کیا ۔ کمانڈ اینڈسٹاف کالج کوئٹہ فیکلٹی ممبر رہنے کے
علاوہ راحیل شریف کو بطور بریگیڈئیر ایک بار بریگیڈ کی کمان کرنے اور بطور
جنرل دو بار کمانڈر رہنے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔راحیل شریف انفٹری ڈویژن کے
جنرل آفیسر کمانڈنگ اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ بھی رہ چکے
ہیں۔بطور لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف نے دو سال تک 30کور کی کمانڈ کی اور پھر
آئی جی ایلیویشن اینڈ ٹریننگ بنا ئے گئے-
فوجی اعزازات و تمغہ جات کی کثرت سے مالامال روایتی فوجی گھرانے سے تعلق
رکھنے اور اپنی جرات و بہادری کے باعث کئی اعزازات حاصل کرنے والے میجر
شریف کے گھر 16جون 1956میں کوئٹہ میں پیدا ہونے والے جنرل راحیل شریف کا
تعلق روایتی فوجی خاندان سے ہے ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید کو پاک
بھارت جنگ میں شاندار خدمات پر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر
دیا گیا جبکہ انکے ماموں میجر عزیز بھٹی بھی لاہور میں بھارت کا حملہ پسپا
کرنے پر نشان حیدر کے حقدار قرار پائے تھے جبکہ جنرل راحیل شریف کے دوسرے
بھائی ممتاز شریف بھی پاک فوج میں کیپٹن رہ چکے ہیں اور انہیں انکی خدمات
پر ستارہ بسالت عطا کیا جا چکا ہے ۔
راحیل شریف نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی اور 1976میں پاک فوج
میں کمیشن حاصل کیا اور فرنٹیئر فورس کی 6بٹالین کا حصہ بنے۔اسی بٹالین میں
ان کے بھائی شبیر شریف نے شہادت پائی تھی۔راحیل شریف نے نوجوان افسر کے طور
پر گلگت میں انفٹری بریگیڈ میں خدمات سرانجام دیں بعد ازاں وہ پاکستان
ملٹری اکیڈمی میں ایڈجوٹنٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے ۔ انہوں نے کینیڈا کے
کمانڈ اینڈ سٹاف کالج سے گریجویشن اور جرمنی سے کمپنی کمانڈر کورس کیا اور
انفنٹری اسکول میں انسٹرکٹر مقرر ہو گئے۔
لوگوں میں گھل مل جانے اور ماتحت عملے کی دلجوئی کے باعث ہر دلعزیزمگر
انتہائی بارعب اور اپنے مؤقف پر سختی سے ڈٹ جانے والے جنرل راحیل شریف
کمانڈ کا انتہائی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ انفٹری بریگیڈ میں بریگیڈ میجر
بھی رہ چکے ہیں جہاں انہوں نے دو انفٹری یونٹس کی کمان کی ان میں سے ایک
انفنٹری یونٹ کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور دوسرا یونٹ انفنٹری یونٹ
سیالکوٹ ورکنگ باﺅنڈری پر تعینات تھا۔
دوبیٹوں کی دولت سے مالا مال اور ایک بیٹی کی نعمت سے سرفراز جنرل راحیل
شریف کو آرمی چیف مقرر کرنے کا فیصلہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے
انتہائی سوچ بچار اور مسلسل مشاورت کے بعد کیا جبکہ اطلاعات کے مطابق اس
سلسلے میںحتمی مشاورت و رہنمائی کا سہرا بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے رہنما
لیفٹیننٹ(ر)جنرل عبدالقادر بلوچ کے سرجاتا ہے جو راحیل شریف سے انتہائی
قریبی تعلق کے باعث ان کے مزاج آشنا تصور کئے جاتے ہیںاورعبدالقادر بلوچ سے
حتمی مشاورت کے بعد ہی میاں نواز شریف نے راحیل شریف کو آرمی چیف بنانے کا
فیصلہ کیا کیونکہ جس دور میں چوہدری نثار اور شہباز شریف لیفٹیننٹ جنرل
راشد محمود سے ملاقاتوں میں مصروف تھے عبدالقادر بلوچ آرمی چیف کیلئے راحیل
شریف کے تقرر کے حوالے سے میاں نواز شریف کی رہنمائی کررہے تھے ۔
جنرل راحیل شریف اس وقت سالارِ ارضِ پاک بنائے گئے ہیں جب ارضِ پاک کو
بیرونی دشمنوں کی نسبت اندرونی دشمنوں سے زیادہ خطرہ ہے۔ دہشتگردوں کے
ہاتھوں پاک فوج کے 8ہزار افسران اور جوان اور 42 ہزار معصوم اور بے گناہ
شہری شہید ہو چکے ہیںلیکن دہشت گردوں کے حمایتی اورحتیٰ کہ مذہبی گروہوں کے
قائدین تک پاک فوج کے شہدا کی شہادت سے انکار کرکے دہشتگردوں کی موت کیلئے
شہادت کا فتویٰ صادر فرمارہے ہیں ۔
ملک میں ایک قوم کا وجود مکمل خطرے میں پڑچکا ہے اور دو قومی نظریئے کی
بنیاد پر تشکیل و تعمیر ہونے والی ریاست اپنے اساسی نظریات سے ہی انکار کی
جانب محو سفر ہے ۔امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے باہمی گٹھ جوڑ نے ہماری
قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کر دیا ہے ،امن کے گماشتے، بھارتی را اور امریکی
سی آئی اے کی داشتائیںمذموم ایجنڈے کو آگے بڑھا نے میں مصروف تو کیا ان
حالات میں برصغیر کو ویزہ فری بنانے کا وزیراعظم کا وہ خواب شرمند ہ تعبیر
ہوسکے گا جس کی تکمیل کیلئے بھارتی ‘ امریکی و اسرائیلی سرمائے سے محو
پرواز امن کی آشا کے نظریئے کو ہمارے قلمکار ، شاعر، نقاد اور دانشوراس
نظریئے کو بڑھاوا دے رہے ہیں کہ ادب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور ہمارے عوام
اس حقیقت کے اس قدر قائل ہوچکے ہیں کہ بھارتی چینلز کی پسندیدگی کے ساتھ ان
کی تہذیب و ثقافت کو بھی اپنی ثقافت پر فوقیت دیکر اردو و پنجابی ‘ سندھی و
بلوچی اور پشتو وسرائیکی کی بجائے ہندی میں گفتگو کے عادی ہوتے جارہے ہیں
الیکٹرونک میڈیا پر بھارتی ڈرامے اور سینما گھروں میں بھارت کی عریاں فلمیں
جگہ بنارہی ہیں اور پرنٹ میڈیا پر ٹپوری ‘ سپاری ‘ خلّاس اور کِریا کَرم
جیسے الفاظ سرخیوں میں آرہے ہیں ۔
امریکہ کی افغانستان سے واپسی کے اعلان و ارادے پر چھاتی ٹھونک کر فتح کا
جشن منانے والے روشنی کے پس منظر میں چھپی ظلمت کے اس پار یہ نہیں دیکھ
پارہے ہیںکہ جانے والا اپنا نقش پا اس طرح چھوڑے جارہا ہے کہ ایک خدا ‘ ایک
کتاب‘ ایک رسول پر ایمان رکھنے والے نئے خداﺅں‘ نئی کتابوں اور نئے فرقوںکے
حوالے سے تقسیم کئے جا چکے ہیں اور اسی بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے
ہیں۔ جس کے ذہن میں دین کی جو تشریح آرہی ہے ‘ وہ اس کو نافذ کرنے کے لئے
بندق اٹھا کر جہاد کا پرچم لہرارہا ہے اورجہادی شہید قرار دیئے جارہے ہیں
جبکہ سرفروشان وطن ومحافظوں کی قربانی کو امریکی حمایت کہہ کر حرام موت
قرار دیا جارہا ہے ۔
نئے سپہ سالا کو یہ بات جان لینی چاہئے کہ وہ روایتی قسم کی فوج کے سربراہ
نہیں بنائے گئے بلکہ مختلف مذہبی نظریات کے حامل ‘ اپنے اپنے حلقوں کے
جانبدار ایسے افراد کے ایسے گروہ کی سرداری کے بندھن میں باندھے گئے ہیں
جنہیں نظم و ضبط کے کڑے اصولوں نے باہم مربوط رکھا ہوا ہے وگرنہ وہ بھی اسی
قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو انتشار و نفاق سے دوچار اور باہم دست و گریباں ہے
اور اس فوج کے سپہ سالار کو جنگ سومنات ‘ پلاسی یا وزیرستان کے میدان میں
نہیں لڑنی بلکہ انہیںنظریاتی جنگ کے اس کھاڑے میں اترنا ہے جہاں فتح کیلئے
عزم ‘ حوصلے ‘ طاقت ‘ شجاعت اور تجربہ کے ساتھ ہوشمندی ‘ دانائی اور
بالخصوص ڈپلومیسی کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔
ڈرون حملوں کی بندش ‘نیٹو سپلائی کے معاملات ‘ افغانستان سے امریکی و نیٹو
افواج کا انخلاءاو ر کراچی میں سیاسی قبضے اور جرائم پیشہ گروہوں کی جنگ ‘
گیس و پٹرول کی قیمتیں ‘ پانی وبجلی کا بحران اور ایسے ہی دیگر معاملات عام
آدمی کے نزدیک اس وقت وہ مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جو میڈیا کے
ذریعے حکومتی و بیرونی ایماءپر عوام الناس کے اذہان میں منتقل کئے جارہے
ہیںمگر تحفظ وطن کے ذمہ داروں کے سردار کو ظاہری مسائل کی تہہ میں موجود ان
مسائل پر توجہ دینی ہوگی جو سرطان کی طرح ہمارے جسد قومی میں سرایت کر رہے
ہیں ، جو اندر ہی اند رہمیں کھوکھلا کر رہے ہیں۔اور اگر دشمن ہمیں دھوکا
دینے میں کامیاب ہو گیا تو وہ وقت دور نہیں جب ہم خدا نخواستہ اس کے قدموں
میں سرنڈر پر مجبور ہو جائیں گے اور وہ ہمارے سروںکے ڈھیر پر اپنا تخت
سجائے گاکیونکہ پاکستان کی حفاظت کا ضامن پاکستان کا سب سے بڑا ہتھیار ہی
اپنوں کی غداری ‘ منافقت و مفاد پرستی کے باعث پاکستان کا سب سے برا دشمن
بن چکا ہے اور پاکستان کی جوہری صلاحیت سے خائف دوست کے پردے میں پوشیدہ
اور دشمن کے روپ میں مقابل بین الاقوامی قوتیں جوہری طاقت کو ہمارے لئے
راکھ کا ڈھیر میں تبدیل کرنے کیلئے منافقوں اور مفاد پرستوں کے ذریعے ہمیں
اس انتشارو نفاق سے دوچار کررہی ہے جس کے بعد کوئی جوہری قوت ‘کوئی ایٹمی
طاقت اور کوئی اسلحہ و گولہ بارود ہمارے قومی تشخص اور یکجا وجود کو منتشر
ومحفوظ رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا جبکہ چند جرنیلوں کی حماقت یا ضرورت
وقت کو غداری قرار دیکر آمریت و جمہوریت کے رنگوں سے فوج کی پیشانی پر
ناپسندیدہ تحریر کردینے والوں نے فوج اور عوام کے مابین زمین و آسمان جیسے
فاصلے پیدا کرنے میں کوئی کسر اٹھارکھی ہے اور نہ کسی فروگزاشت سے کام لیا
ہے یہی وجہ ہے آج وحشت و قدامت زدہ علاقوں کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کیلئے
مشہور شہروں ‘ دیہاتوں اور قصبوں میں بھی مسلح افواج اور رینجرز اہلکاروں
کے اغوا و قتل کی وارداتوں کا آغاز ہوچکا ہے جو طوالت و وسعت اختیار کررہا
ہے اور فاصلے بڑھانے والے عوام کے قاتلوں سے مذاکرات کی حمایت کے بعد اب
فوجی افسروں و اہلکاروں کے قتل کی معافی کی خواہش کا بھی اظہار کررہے ہیں
اور اگر یہ ہوگیا تو پھر ہر قاتل ‘ لٹیرا ‘ غدار اور ملک دشمن کمزور ہوجانے
اور گھرجانے کے بعد مذاکرات کا ڈرامہ رچاکر معافی ورعایات اور مراعات کا
طلبگار و حقدار ہوگا ۔
اسلئے فوج کے نئے سربراہ کیلئے جہاں ان کڑے حالات فوج کے تحفظات کاخاتمہ
کرکے اسے منظم و یکجا رکھنا انتہائی مشکل ہوگا وہیں آرمی چیف کا اعزاز
بخشنے والے کی امیدوتوقعات پر پورا اترنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ثابت
ہوسکتا ہے جبکہ مذہبی زعما اور سیاسی قیادت وجماعت کے ہاتھوں بکھری اور
بھٹکی ہوئی قوم کوایک قوم کی قالب میں تادیر محفوظ رکھنا روز بروز مشکل سے
مشکل ترین اَمر بھی ہوتا جارہا ہے ۔ ان حالات میں مسلح افواج اور اس کے
سربراہ کیلئے کیا کیا نت نئے چیلنجز سامنے آنے والے ہیں اور کون سے کون
میدان ہیں جن میں سرخروہونے ہونے کیلئے کیا کیا قربانیاں دینا پڑیں گی
پیشگی اس کا اندازہ و تیاری کرلینا ہی سپہ سالار اور ملک و قوم کے مستقبل
کیلئے ضروری ہے ۔
راحیل شریف چونکہ اجلی وسربلند فوجی روایات کے حامل خاندان کا سپوت ہونے کے
ساتھ بذات خود ایک غیر متنازعہ اور بلندکردار کی حامل شخصیت اور عسکری و
دفاعی مہارت کے حامل فوجی و کمانڈر ہیں اسلئے ان سے یہی توقع کہ وہ فوج کی
آبرو پر لگنے والے داغ مٹانے اور نئی درخشاں روایات کی صورت گری کرنے پر
توجہ دینے کے ساتھ قومی ضروریات اور قومی تشخص کیلئے لاحق خطرات پر بھی
توجہ دیں گے اور ملکی سرحدوں کے تحفظ کے ساتھ قوم کے اذہان کو بھی دشمن کے
حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئے موثر پلاننگ ترتیب دیکر کامیاب اقدامات اٹھائیں
گے اورشاندار فوجی کیریئر و ماضی کے ساتھ مستقبل کاان کا عرصہ ”سپاہ گری“
بھی پاکستان، جمہوریت اور فوج کے لئے باعث عزت و وقارکا لازوال و بیمثال
اور تاریخی عرصہ ثابت ہوگا کیونکہ آخری میزان میں ہر انسان ، اپنے منصب کے
حوالے سے نہیں، اپنی کارکردگی اور کردار و عمل کی بنیاد پر تولا جاتا ہے۔ |