جب کوئی انسان جان بوجھ کر خود کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتا
ہے تو اس کا یہ عمل خودکشی کہلاتا ہے۔مگر ماہرینِ عمرانیات کی نظر میں
انسان کا ہر وہ فعل جو اس کی جان یا صحت کے لیے خطرہ ثابت ہو،وہ بھی اقدامِ
خودکشی ہے مثلاًکانوں میں لیڈ لگا کر ریلوے ٹریک پر گانا سنتے ہوئے چلنا
خطرے سے خالی نہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی ایسا کرے تو اس کا یہ عمل
خودکشی میں آئے گا۔
خودکشی کا مسئلہ ابتداءدنیا سے چلا آرہا ہے لیکن دنیا کی پوری تاریخ میں
کسی مذہب نے اس پر کوئی واضح نظریہ نہیں پیش کیا ہے سوائے اسلام کے۔یہ دنیا
کا پہلا نظامِ حیات ہے جس نے خودکشی کو حرام اور اس کے مرتکب کو ہمیشہ کے
لیے جہنمی بتایااور ساتھ ہی ان تمام اسباب پر توجہ دی جس کی وجہ سے انسانی
ذہن میں اس کا خیال آسکتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں اس کا رجحان بہت
ہی کم ہے، جو کرتے بھی ہیں تو اس کی وجہ ان کا اسلامی تعلیمات سے دور ہونا
ہے اور یہ بھی کہ ان میں زیادہ تر معاملات مشکوک ہوتے ہیں۔خصوصاً جب بظاہر
لڑکیاں سسرال میں خودکشی کرتی ہیں۔ان میں سے اکثریت کو قتل کرکے خودکشی کا
رنگ دے دیا جاتا ہے اوریہاں کا قانون کیسا ہے؟سب کو معلوم ہے ۔اس پر بات
کرنے کی ضرورت نہیں۔
ہندوستان میں خودکشی کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو بہت خطرناک صورتِ
حال سامنے آتی ہے۔کرائم برانچ 2012 کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں
کل135445یعنی (11.2%)لوگوں نے خودکشی کی۔اگرچہ اس میں2011 کے مقابلے0.1%
کمی آئی ہے ۔تامل ناڈو 12.5%کے ساتھ سرِ فہرست رہا۔مہاراشٹرا11.9% اورویسٹ
بنگال11.0% دوسرے،تیسرے نمبر پر رہے۔اترپردیش 2.7%سب سے نیچے رہا۔
اگر بات فیملی خودکشی کی ہو تو اس میں کل 109کیسز سامنے آئے۔189 لوگوں کی
موت ہوئی ،جس میں عورتیں بچے بھی شامل ہیں۔راجستھان اس معاملے میں 74کیسز
کے ساتھ سرِ فہرست رہا۔
خودکشی کے اسباب پر نگاہ ڈالی جائے تو گھریلو مشکلات کی وجہ سے25.6%،بیماری
سے20.8% ، لَو افیئر میں3.2% ، غربت سے 1.9%، نشیلی دواﺅں کی وجہ سے
3.3%،جہیز میں1.6% ، معاشی حالت میں غیر متوقع نقصان کی وجہ سے2.1%،نامعلوم
اسباب کی وجہ سے 15.1%اور دوسری وجوہات کی وجہ سے 26.5% لوگوں نے(جس میں
ریکینگ،جنسی تعلقات میں ناکامی ،احساسِ گناہ ،والدین کی بے جا ڈانٹ
ڈپٹ،مطالبات پورے نہ کرنا، لڑکیوں کو کم تر سمجھنایا جہیز دینے کی وجہ سے
طعنہ دینااور طویل بیماری،جب اپنوں نے خاص کر اولاد نے بھی ساتھ چھوڑ دیا
ہووغیرہ) خودکشی کی ہے۔
عمر اور جنس کے لحاظ سے خودکشی کرنے والے مرد اور عورت کا تناسب دیکھا جائے
تویہ14 سال کی عمر تک کا49:51 ہے،15 سے 29سال کی عمر کا56:44 ہے،30 سے44
سال کی عمر کا69:31 ہے،45 سے59 سال کی عمر کا74:26 ہے اور60 سے زائد کا
72:28تناسب ہے۔ اسی طرح خودکشی کرنے والے غیر شادی شدہ مرد اور عورت کا
62:38تناسب ہے، شادی شدہ کا 66:34اور طلاق شدہ کا49:51 تناسب رہا۔
اگر پیشہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سروس کرنے والوں میں12.5%،سیلف سروس
میں38.7%، بے روزگار7.4% ، اسٹوڈنٹس5.5% ، ریٹائر0.7% ، ہاﺅس وائف18.2% اور
دوسرے پیشے میں17.0% لوگوں نے خودکشی کی ہے۔
انسانی زندگی میں تعلیم کا اہم کردار ہے لیکن ہمارے یہاں کا تعلیمی سسٹم
ایسا ہے کہ ناکامی کی صورت میں کمزور طالب ِعلم دباﺅ میں آکر خودکشی کرلیتے
ہیں۔2012کی رپورٹ کے مطابق پرائمری میں23%، میٹرک میں23%، انٹر میں19.2%،
ڈپلوما میں1.5%، گریجویٹ میں3.4%، پوسٹ گریجویٹ میں0.6%،ہائر ایجوکیشن
میں9.7%طلبہ و طالبات نے خودکشی کی۔
دوسرا اہم سبب یہ کہ ایک طالب ِعلم جب کئی سارے امتحانات پاس کر کے اور ا س
پر ہزاروں روپئے خرچ کر کے،جاب کی تلاش کرتا ہے تو اسے ناکامی ملتی ہے۔ہر
جگہ اس سے رشوت،سفارش مانگی جاتی ہے ۔اگر اس کے پاس نہ ہو تو وہ ناامید ہو
جاتا ہے اور زندگی اسے بوجھ لگنے لگتی ہے۔ایسے میں اس کے دماغ میں مایوسی
جڑ پکڑ لیتی ہے۔اگر اس کو صحیح رخ نہ دیا جائے تو اس کے لیے خودکشی کرنا
آسان لگنے لگتا ہے۔
خودکشی کرنے والوں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جن کو بچپن میں محرومی ملی ہو یا
جن کے والدین نہ ہوں ،جن کی ذہنی و جسمانی تکمیل کسی اچھے ہمدرد کے بغیر
ہوئی ہو یا والدین ہوں، مگر ان کی آپس میں بنتی نہ ہو یا طلاق ہو گئی ہو۔
خودکشی کے طریقے:اس کے مختلف طریقے رائج ہیں۔مثلاً آتشی اسلحہ،تیزدھار آلات
اورزہر یا زہریلی ادویہ کے استعمال سے یاآگ میں جل کر،پانی میں ڈوب
کر،اونچائی سے چھلانگ لگا کر یا ٹرین کے آگے کود کرلوگ خود کو ہلاک کر لیتے
ہیں۔بعض دفعہ موت کو سامنے دیکھ کر لوگوں کا ارادہ آخری وقت میں تبدیل
ہوجاتا ہے مگر ٹرین یا آتشی اسلحہ کے استعمال سے بچنے کی امید نہیں رہتی
ہے۔
خودکشی کرنے والوں کی پہچان:اس کی بعض پہچان ہوتی ہیں جس کو ذہن میں رکھتے
ہوئے ایسے لوگوں کو بچایا جا سکتا ہے۔لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہر حال میں اس
سے کامیابی مل جائے۔
٭عموماً ایسے لوگوں میں زندہ رہنے اور مر جانے کی خواہشات جنم لیتی ہیں، وہ
کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں اور ان کا ذہن کسی خاص مسئلہ پر رائے قائم کرنے
کے قابل نہیں رہتا۔
٭جسمانی حرکات و حالت سے بے چینی کا اظہار ہوتا ہے۔غصہ اور ندامت دونوں
رویے ان کے اندر آجاتے ہیں۔کبھی ایک دم سے بھڑک اٹھیں گے اور اگلے ہی پل
ندامت سے معافی مانگ رہے ہوں گے۔
٭روز مرہ کے کاموں سے ان کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔بیوی بچوں سے دور ،دوست
اور احباب سے کٹ جائیں گے۔ملنے میں اجنبیت محسوس کریں گے۔
٭ان کا چہرا تھکا ہوا معلوم ہوگااور کثرت سے سگریٹ نوشی کریں گے۔آنکھیں
ویران اور ایک ہی پوزیشن میں رہ کر فضا میں دوڑتی رہیں گی۔نیند سے کوسوں
دور رہیں گے۔خاموش رہنے لگیں گے۔ان سب باتوں کا اندازہ تبھی ہوگا جب ہم
اپنے گھر کے لوگوں کے روزمرہ معمولات سے واقف ہوں گے۔
خودکشی کے اثرات:اگر خودکشی کرنے والا جان لے کہ اس کے جانے کے بعد گھر
والوں یا اعزہ واقارب کو کن مشکلات اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ
ایسا کرنے سے پہلے پچاس بار سوچے گا۔اس لیے کہ مرنے والے کے اہل و عیال
شرمندہ اورخود کو مجرم گمان کرتے ہیںکہ اگر اس کی بات مان لیتے تو ایسا نہ
ہوتا یا یہ کہ ہم لوگ اس کو سمجھ نہ سکے اور ان کو غم،دکھ،ندامت،ذلت و
رسوائی کا ڈراور کسی کو کھونے کا احساس بھی ہوتا ہے۔پھر خودکشی کرنے والا
شادی شدہ ہے تو بیوی بچے بے سہار ااور یتیم ہو جاتے ہیں ۔معاشرے کے طنزیہ
اور چبھتے ہوئے سوالات کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔اگر غیر شادی شدہ لڑکی خودکشی
کر لے تو پچاس طرح کی باتیں بننے لگتی ہیں اور کردار پر ہی سوال اٹھنے لگتے
ہیں۔لیکن خواتین یا لڑکیاں جو خودکشی کرتی ہیں ،اگر وہ پوسٹ مارٹم کامنظر
دیکھ لیں تو کبھی اس کا خیال اپنے دلوں میں نہیں لاتیں، کہ کیسے ان کی لاش
کے ساتھ بے حرمتی کی جاتی ہے اور نامحرم ،اجنبی مرد ہاتھ لگا کر چیر پھاڑ
کرتے ہیں۔
خودکشی میں معالجین کا کردار:ایسے لوگ خودکشی کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے رابطہ
ضرور قائم کرتے ہیںاور اپنی پریشانیوں یا مسائل کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔اس کو
وہ مستقل سر درد،سینے میں جلن،مایوسی اور اضمحلال وغیرہ کی صورت میں بیان
کریں گے۔اب یہ ڈاکٹر کی سمجھ پر منحصر ہے کہ وہ ان کو کس حد تک بھانپ لیتا
ہے۔بہتر ہوگا کہ ان سے اشارے کنائے میں پوچھ لیا جائے ،اس سے وہ اپنے دل کی
بھڑاس نکال سکتے ہیں۔
حل: عام حالات میں جب کوئی شخص اپنی زندگی کا خاتمہ کرتا ہے تویہ غم،افسوس
اور مایوسی کا ردِ عمل ہوتا ہے۔اس کا سیدھا اور آسان حل یہ ہے کہ حقیقی
مسلمان بنا جائے۔ اگر مسائل یا مصیبتیں ہیں بھی تو مایوسی کا شکار ہونے کے
بجائے اس سے نکلنے کی کوشش کیاجائے اور اس میںاللہ تعالی سے مدد طلب کی
جائے اور اسی پر بھروسہ کیا جائے ۔قرآن نے ان سب کا علاج بہت ہی اچھے انداز
میں پیش کیا ہے:
ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ ان اللہ بالغ امرہ قد جعل اللہ لکل شئی قدیر
(الطلاق:۳)
”اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا ۔ اللہ تعالی اپنا کام
پورا کر کے ہی رہے گا“
ایک مسلمان پانچ وقت کی نمازکی پابندی کرے تو اس کے لیے اسے مسجد آنا ہوتا
ہے جہاں اس کے جاننے والوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے اسی طرح سے جمعہ اور
عید کی نماز میں سارے لوگ میں وہ گھرا ہوتا ہے ،اس لیے اس کو تنہائی کا
احساس نہیں ستاتالیکن وہ لوگ جو تنہائی اور مایوسی بے اطمینانی کا شکار
ہوتے ہیں، ان کے ذہن میں زیادہ خودکشی کے خیالات آتے ہیں۔ان کے لیے اللہ
تعالی فرماتا ہے:
و انفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدکم الی التھلکة و احسنوا ان اللہ یحب
المحسنون(البقرة:۵۹۱)
”اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ
ڈالو۔احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے“
اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان لوگوں پر احسان کرتا ہے تو لوگ مصیبت میں اس
کے کام آتے ہیں ۔اس طرح وہ خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا اوریہ بہتر ہے اس
بات سے کہ خودکشی کرلے۔اللہ تعالی ایسا کرنے والوں کو دردناک عذاب دے
گا۔ارشادِ ربانی ہے:
ولا تقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما۔ومن یفعل ذلک عدوانا و فسوف نصلیہ
نارا (النسائ:۹۲،۰۳)
” اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے۔ جو
شخص ظلم وزیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا، اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے“
یاد رہے کہ جس چیز سے خودکشی کی جائے گی، مرنے والے کو حشر کے میدان میں
اسی سے عذاب دیا جائے گااور اس کے تمام اچھے کام منسوخ کردیا جائے گا۔جہنم
میں بھی ہمیشہ خود کو اسی سے ہلاک کرتا رہے گا۔حدیثِ نبوی ہے:
ابوہریرةؓ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا! جو شخص اپنے آپ کو لوہے کے
ہتھیار سے مار لے تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اوروہ اس کو اپنے پیٹ
میں جہنم کی آگ میں ہمیشہ مارتا رہے گا۔اور جو شخص زہر پی کر اپنی جان لے،
تووہ اسی زہر کو جہنم کی آگ میں پیتا رہے گااور ہمیشہ اسی میں رہے گا۔جو
شخص اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر مار ڈالے تو وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں گرا
کرے گااور ہمیشہ اسی حال میں رہے گا(مسلم:۶۲۰۱)
اللہ تعالی ہم سب کو اس حرام کام سے محفوظ رکھے، آمین |