نہ شروعات کی پرواہ نہ اختتام کا
پتہ بچے بے تکی اور بے مطلب کی باتیں کرتے ہیں۔ہم جب بات کرتے ہیں تو تمحید
باندھنے کے لیے جملے تلاش کرتے کرتے بعض اوقات بات تک بھول جاتے ہیں ۔دوسرے
لوگ ہماری باتوں کو کیسا سمجھیں گے ،ان کے نزدیک کون سے الفاظ قابل مذمت
ہیں ،دوسرے ہماری باتوں کوغور سے سنیں گئے یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔یہاں تک کہ
ہم نے اپنی زندگی دوسرں کی خاطر جہنم بنا رکھی ہے ۔ہم کیا چاہتے ہیں کیا
سوچتے ہیں اور کیا سوچنا چاہتے ہیں ؟ یہ باتیں سوچنے کے لیے ہمارے پاس وقت
نہیں !
ہماری زندگی کی خوبصورتی ہماری سوچوں نے مسمار کر کے رکھ دی ہے۔کیا واقعی
لوگ اس قدر اہمیت دیے جانے کے قابل ہیں؟کیا ہماری ذات کی ہمارے نزدیک اتنی
ہی اہمیت ہونی چاہیے؟جتنی کہ ہم دیتے ہیں۔کوئی آدمی اگر کسی کی ہمدری میں
رو پڑے تو مذاق اُڑایا جاتا ہے،یہ دیکھو مرد ہو کر روتا ہے۔اگر کوئی عورت
مرد کی غلط بات پر بھی اسے کچھ کہہ دے تو کہا جاتا ہے یہ منہ پھٹ ہے،مرد
اپنی بیوی سے محبت کرتا ہو ،اپنی ہر بات اس کو بتاتا ہوتو لوگ کہتے ہیں یہ
تو زن مرید ہو گیا۔یہاں تک کہ انسان اپنی پسند سے ہنستا، بولتا،کھاتا،پیتا
بھی نہیں ،وہ بھی لوگ طے کرتے ہیں۔ستم ظریفی یہ کہ ہم اپنی خوشیاں اورغم
بھی دوسروں سے منسوب کیے ہوے ہیں،ہمارا ہنسنا رونا،پانا کھونا دوسروں سے
منسوب ہوتا ہے۔
میری ایک دوست سارا دن گھر کے کاموں میں الجھی رہتی ہے اس قدر کہ اسے اپنے
بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ملتا،اس کا کہنا ہے کہ زندگی میں سکون تب ہی
آسکتا ہے جب آپ سے آپ کے تمام رشتے خوش ہوں،آپ کے تمام رشتے اسی صورت
خوش رہ سکتے ہیں جب کہ آپ ان کی خواہشوں کا احترام کرتے ہوئے جو وہ چاہیں
کرتے چلے جائیں۔کیا یہ مکن ہے،کیا کسی کو خوش کرنا آسان ہے؟ کسی کو خوش
کرنے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے کتا اپنی دم پکڑنے کے لیے دیوانا ہو
جائے۔انسان کے بس کا کام نہیں کہ اپنے تمام رشتوں کو خوش رکھ سکے ،ہاں اپنے
فرائض منصبی کو پورا کرنا لازم ہے لیکن اگر آپ ضرورت سے زیادہ دوسروں کی
خوشی سمیٹنے میں لگ جائیں تو آپ اپنی ذات سے ذیادتی کر رہے ہیں،آپ کو
چاہیے کہ آپ اپنے بارے میں سب سے پہلے سوچیں ،کیا جیز آپ کو تکلیف دے رہی
ہے ،کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کسی سے محبت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ
محبوب کے پاوں پکڑ کر بیٹھ جائیں یا اپنا کلیجہ اس کے ہاتھوں میں نکال کر
رکھ دیں۔جو انسان خود سے وفا نہیں کرتا تو دوسرے اس کی کیا قدر کریں
گئے۔دوسرے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینا تو کسی بھی مذہب میں بھی
نہیں۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی نے جب اسلام کی خاطر اپنے پورے گھر کا
سامان مہیا کیا تھا تو گھر اور گھر والے نہیں بیچ دیے تھے نہ ہی دیگر مذاہب
میں اس کی مثال ملتی تو کیوں آج ہم معاشرے کے قوانین اور ضابطوں کو خود پر
مسلط کیے ہوے ہیں،کیوں اقدار میں الجھ کر ہم اپی خواہشات کا گلا گھونٹ رہے
ہیں ،ہم کس کی خاطر اپنی ذات کی نفی کرتے کرتے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ہمارے
ہاں بچے ابھی بلوغت تک پہچتے نہیں تو رشتے طے کر دیے جاتے ہیں ،ابھی سکول
جانے کی عمر نہیں ہوئی ہوتی تو ہم یہ طے کر دیتے ہیں کہ وہ سائنس رکھیں گئے
یا کہ آرٹس،ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ اپنی خواہشوں کو دوسروں پر تھونپ دیا
جاتا ہے ،جب رزلٹ اچھا نہیں آتا تو ہم دوسروں کو کوستے ہیں ۔ہم اپنے اندر
کا خوف جو ہمارے والدین نے ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے ،ہم اسے بڑھا
چڑھا کر اپنی نئی نسل میں منتقل کیے جا رہے ہیں۔معاشرے کے قوانین کیا ہمارے
بچوں یا ہماری خوشیوں سے زیادہ قابل احترام ہیں ،وہ بھی ایسے ضابطہ جن کا
ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔نہ جانے کیوں ہم نے طے کر لیا ہے کہ
اپنی خواہشات کو ماں،باپ کے احترام میں قربان کر دو۔خواہ پھر عمر بھر
اُنہیں دل ہی دل میں کوستے رہو۔اپنی ذات کی خاطر اپنا مطالبہ پیش ہی نہ کرو
یہی سوچتے رہو کہ سب کی خوشی میں ہی میری خوشی ہے۔ہمارے ہاں جو غلط بات سب
سے زیادہ مشہور ہے اور جس کی خاطر لوگ اپنی زندگیاں مکمل برباد کر لیتے ہیں
وہ یہ ہے کہ کسی کو دکھی کر کے انسان خوش نہیں رہ سکتا،ایسا کبھی نہیں ہو
سکتا کہ انسان سب کو خوش رکھ پائے۔جو آپ کا اپنا ہو گا وہ آپ کو خوش دیکھ
کر خوش ہو گا اور جو آپ کو دُکھی دیکھ کر خوش ہو ،اس کے بارے میں سوچنا بے
وقوفی ہے۔یہ بے وقوفی ہمارے ہاں نسل در نسل دُہرائی جاتی ہے۔
میری ایک دوست کی شادی ہوئی تو اس کے شوہر سکول چلاتے تھے،انہوں نے چاہا کہ
بیگم سے بھی کام لیاجائے لہذا انہوں نے انتہائی پیار سے بیوی کو کہا کہ میں
چاہتا ہوں کہ تم پرنسپل بن جاؤ۔ہم مل کر کام کریں گے تو وقت بھی ساتھ میں
گزرے گا ایک دوسرے کو جاننے کا موقع بھی زیادہ ملے گا۔اگرچہ اس کی اس کام
میں کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن شوہر کو خوش کرنے کے لیے بےچاری نے خوشی خوشی
ہاں کہہ دیا۔پرائویٹ سکول تھا ،ون اورٹو کے بچے ذیادہ تھے ،میٹرک پڑھی
ٹیچرز رکھی جاتیں تھی جن کی تنخواہ ہزار روپے یا بارہ سو روپے ہوتی تھی
،جبکہ ون ،ٹو کلاس میں بچوں کی تعداد زیادہ تھی۔ٹیچر آئے دن چھٹی کرتیں
اور میری دوست کو ہر وہ کلاس لینا پڑتی تھی جو ٹیچر چھٹی پر ہوتی تھی،وہ
اکثر غصے میں رہنے لگی ،اپنے شوہر سے کچھ نہ کہتی،سکول میں سارا دن بچوں کے
والدین کسی نہ کسی مسئلے کے سلسلے میں آتے رہتے،میری دوست کی اپنے شوہر سے
کاپی،کتابوں بچوں کے کپڑوں اور لوگوں کی شکایات کے علاوہ کسی موضوع پر بات
نہ ہوتی ،اس سے جب میری ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے اس کی بدلی ہوئی شخصیت
کی وجہ پوچھی ہر وقت ہنسنے بولنے والی لڑکی کو اچانک سے چپ لگ جائے تو عجب
سا ہی لگتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے آنسو چھلک کئے ،بولی یار میں
چاہتی تھی کہ شادی کے بعد اپنا پالر کھولوں گی ،لیکن میرا منہ کھلتا اس سے
پہلے ہی پرنسپل کا عہدہ اس میں ٹھونس دیا گیا،اس سے اچھا تھا کہ میری شادی
کسی ایسے آدمی سے ہوئی ہوتی جو سکول نہ چلاتا ہوتا ،شادی کے دوسال
ہوگئے،کتابوں ،کاپیوں ،سکول کے سوا گھر یا گھر کے باہر کوئی بات نہیں ہوتی
۔میں کیا چاہتی ہوں یہ تو مجھ سے پوچھا ہی نہیں جاتا ۔میری امی اتنی خوش
ہیں ،فخر سے سب کو بتاتی ہیں کہ میری بیٹی پرنسپل ہے جب کہ میں ،پریپ اور
نرسی کے بچوں کو سنبھالتی رہتی ہوں،میرے شوہر کا کہنا ہے تمہارے تو مزے
ہیں،ایسی عزت تمہیں کہاں نصیب ہوتی ،جس کلاس میں جاتی ہو ،وہاں کی ٹیچر ڈر
کر کھڑی ہو جاتی ہے ،بچے کیسے خاموش ہو جاتے ہیں ۔میں ان کی باتوں کا کوئی
جواب نہیں دے پاتی،پچھلے دنوں تنخواہ دیتے ہوئے میں نے کسی ٹیچر کو سات سو
روپے زیادہ دے دیے یا مجھے نہیں معلوم کہاں گئے اس پر جو میرے شوہر نے
ہنگامہ کیا میں بتا نہیں سکتی،بولے تم پرنسپل ہو ،پرنسپل کا مطلب ہوتا ہے
ایسا انسان جس کی پیروی کی جائے ،تم اس قابل ہو کہ تمہاری پیروی کی
جائے،معلوم نہیں اور کیا کیا ،میں بتا نہیں سکتی کہ مجھے سکول کے نام سے
کیسی نفرت ہو گئی ہے لیکن کیا کروں ،اب تو کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا،وہ مجھ
سے اس قدر زیادہ امیدیں رکھتے ہیں کہ میں پورا کرتے کرتے تھک جاتی ہوں کاش
کہ ہمارے ہاں انسان جیسا ہو اسے ویسا ہی قبول کیا جائے لیکن دوسرے ہم پر
اپنی خواہشات تھونپ دیتے ہیں اور ہم اپنی خواہشوں کو اپنے اندر ہی مار دیتے
ہیں ،ایسے میں سکون نام کی چیز بھی اندر ہی مر جاتی ہے ،اس کی باتوں میں
ایسی سچائی تھی کہ جو ہمارے معاشرے میں ہر جگہ لاگو ہوتی ہے نہ صرف بیویوں
پر بلکہ بچے ہر وقت خوف میں مبتلا رہتے ہیں اگر نمبر اچھے نہ آئے تو کیا
ہو گا ،اگر سائنس میں داخلہ نہ ملا تو پاپا ناراض ہو جائیں گے ،اگر اس لڑکی
سے شادی نہ کی تو امی کا دل ٹوٹ جائے گا،اگرمیں گھرچھوڑ دوں ،کسی اور سے
شادی کر لوں تو میرے بچوں کا کیا ہو گا؟ہر کسی کی زندگی سوالوں اور رشتوں
کے بوجھ سے بندھی ہے اور یہ بوجھ رشتوں کا نہیں نہ بولنے کا ہے دوسروں کے
سامنے اپنا آپ مار دینے کا ہے،ہمارے اندر کے خوف کا ہے ،جس دن ہم بول پڑے
وہی دن ہمارے لیے سکون کا سورج طلوع کرئے گا۔میری دوست اگر بول دیتی کہ اسے
اسے سکول کی پرنسپل بننے میں کوئی دلچسپی نہیں ،اگرچہ اس کے شوہر کو اس پر
کچھ دن غصہ رہتا لیکن بعد میں سب ٹھیک ہو جاتا ،وہ اس سے پہلے بھی سکول چلا
رہا تھا،بعد میں بھی چلا لیتا،لیکن ہم سوچتے ہیں نہ جانے اپنی بات رکھنے سے
کیا ہو جائے گا ،ہمارے اندر کا خوف جس دن مر جائے گا سکون خود بخود اس کی
جگہ لے لے گا۔لازم ہے کہ اپنے وجود کی ضروریات کو دوسرے لوگوں سے مقدم
سمجھا جائےلیکن یہ بھی لازم ہے کہ یہ ضروریات جائز بھی ہوں۔جیسا کہ اس
آزاد نظم میں بیان کیا کیا گیا ہے۔
جی یہ چاہتا ہے میرا
چھوڑکر دنیا کی نگری
کوئی نئی دنیا تلاش کروں
راز خود پر فاش کروں
جو کبھی نہ کہہ پائی
وجود کی گہرائی میں
ٹھہرے پانی کی طرح
نہ جانے کب سے ہیں
مگر جب سے ہیں
میں پریشان ہوں
جی یہ چاہتا ہے میرا
تسخیر ذات کی خاطر
تیاگ دوں ہر اک رشتہ
جو باظاہر ہے فرشتہ
حقائق کے انجام سے
جو کوئی دیکھ نہیں پاتا
مگر پریشان رہتا ہے
ہر کوئی جو مسافر ہے
اس خیالی دنیا کا
نہ جانے کیا ہو جائے گا
اگر کھل گئی میری چاہیتیں
میں بھی یہ سوچتی ہوں
کیا گزرے گی اُن پر
جو مجھے سونپ دیے گئے
مگر میرے اپنے ہیں وہ
میں اپنی ذات میں تنہا
اپنے وجود سے لڑ کر
نبھائے جا رہی ہوں جو
اقدار زندگی ہیں میری
جی یہ چاہتا ہے میرا
کہ سونپ دوں ہر رشتہ کو
وجود اس کا میں کامل
جو مجھ میں ہے شامل
کسی نوکیلے خنجر کی طرح
جی یہ چاہتا ہے میرا
کہہ دوں چیخ چیخ کر
میں بھی ہوں یہ جان لو
نہ تھونپو خود کو مجھ پر
نہ اپنی ذات کو مجھ پر
مسلط کر دو ایسے
کہ سانس بھی نہ لے پاوں
جیتے جی ہی مر جاوں
جی یہ چاہتا ہے میرا
زندگی کی تھکن کو اب
جاننے والے میرے سب
جان لیں تو اچھا ہے
جی یہ چاہتا ہے میرا!
جی یہ چاہتا ہے میرا!
|