جب سے پاکستان میں میڈیا آزاد
ہوا ہے بلکہ مادر پدر آزاد ہوا ہے وہ وہ تحفے آزادی اظہار کے نام پہ کیمرے
کے سامنے بیٹھ کے دانشور بن گئے ہیں جنہیں محلے کے لوگ آج بھی مرغی چور
سمجھتے ہیں بلکہ آج بھی ان کو دیکھ کے اپنی مر غیاں ڈربوں میں بند کر لیتے
ہیں کہ یہ اچکا کہیں اسے غائب ہی نہ کر لے۔جب اس طرح کے لوگوں نے مہمانوں
کا انتخاب کرنا ہو تو پھر بنتا ہے کہ جنرل کیانی پہ رائے دینے کے لئے
کشمالہ طارق جیسی ہستیوں ہی کو اظہارِ خیال کی دعوت دی جائے۔غنیمت تھا کہ
ان کے پہلو میں ابصار عالم اور مرشدی ہارون الرشید بھی تھے۔چڑھتے سورج کے
پجاری ہمیشہ جانے والوں پہ سنگ زنی کیا ہی کرتے ہیں لیکن پتھر وہ مارے جس
کا اپنا دامن اجلا ہو۔گل خان کے کندھوں پہ سوار ہو کے جنت کی جانب محوِ سفر
اگر گل خان ہی کا منہ نوچنا شروع کر دے تو مرشدی ہارون الرشید کی چڑچڑاہٹ
سمجھ میں آتی ہے۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کو خدا جانے ابھی اور کتنے
کشمالائی زخم سہنا ہوں گے کہ ہم نے تو اپنی نفرتوں اور تعصب کی بنیاد پہ
نعوذباﷲ اﷲ کریم کی تعلیمات کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی جمہوری حکومت کی پیش کردہ تین سالہ
توسیع سمیت بطور چیف آف آرمی سٹاف اپنے چھ سال مکمل کرنے کے بعد جنرل اشفاق
پرویز کیانی رخصت ہوئے۔اب وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ تعصب سے پاک مؤرخ جب
پاکستان کی تاریخ مرتب کرے گا تو وہ پاکستان فوج کے اس سپہ سالار کا نام ان
لوگوں کی فہرست میں کہیں بہت اوپر کر کے لکھنے پہ مجبور ہو گا جنہوں نے
پاکستان کو رفعتوں اور بلندیوں کی راہ پہ گامزن کیا۔جنرل کیانی فرزند زمیں
تھا ۔ایک غریب باپ کی اولاد جس نے دنیاوی سہاروں کے بغیر خالصتاََ اﷲ کی
رحمت اور اپنی محنت کے بل بوتے پہ پاکستان کے سب سے طاقتور عہدے تک رسائی
حاصل کی اور پھر رضا کارانہ طور پہ آئین اور قانون کے آگے سر نگوں کر
دیا۔اب جب کہ اس نے اپنا سفر تمام کیا بڑبولی اور تماش بین قوم بھلے ہی
اپنے اپنے پتھر ہاتھوں میں لے کھڑی ہو لیکن جب کانٹوں کا یہ تاج اس کے سر
پہنایا گیا تھا تو افواجِ پاکستان کے افسر و جوان وردی پہن کے سڑک پہ چلنے
سے منع کر دئیے گئے تھے۔ فوج کا مورال انتہائی نچلی سطح پہ تھا اور فوج میں
سپاہی اور افسر کے درمیان انگریز ہی کے اپنے مقاصد کے تحت بنائے فاصلے
موجود تھے۔ جنرل نے چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلے اس تفریق اور دوری کو ختم
کیا۔ حکم دیا گیا کہ سپاہی کو اس کے سپاہیانہ فرائض کے علاوہ کسی ایسی جگہ
تعینات نہ کیا جائے جہاں اس کی عزت نفس مجروح ہو۔جنرل ہی کی نگاہِ دوربین
نے سب سے پہلے اس بات کا ادراک کیا کہ ہمیں بیرونی نہیں اندرونی دشمن سے
خطرہ ہے اور اس کے سدِ باب کے لئے عملی اقدام کئے۔فوج کی آہنی روایات کو
تبدیل کرنا ایسا ہی ہے جیسے مردے میں جان ڈالنا لیکن جنرل نے جو پالیسی دی
اسے نافذ کر کے بھی دکھایا۔ عہدہ سنبھالتے وقت تک فوج سیاسی حکومت کی حریف
ہوا کرتی تھی لیکن جنرل کیانی کے وژن نے فوج کو ریاست کے شانہ بشانہ کھڑا
کر دیا۔
انہی اقدامات کا اعجاز تھا کہ جب قوم نے متفق ہو کے فوج کو سوات میں دہشت
گردی کے خلاف لڑنے کا ٹاسک دیا تو جنگ میں افسر اور جوان کا امتیاز مٹ گیا
اور فوج کے افسروں نے ایسی ایسی قربانیاں دیں کہ آج فوج کا جوان اپنی قیادت
پہ فخر محسوس کرتا ہے۔سپاہی اپنے سپاہی ہونے پہ نازاں ہے۔پہلے فوج کی بندوق
کہیں ہوتی تھی اور اس میں ڈلنے والی گولیاں کہیں اور یہ جنرل کی تربیت ہی
کا اثر ہے کہ آج کا جوان بندوق کو حرزِ جان بنائے ہوئے ہے۔گولی چیمبر میں
،ہاتھ ٹریگر پہ اور نظر شاہین اور شہباز کی طرح اپنے نشانے پہ۔فوج کا مورال
آج سکائی ہائی ہے تو یہ اس کے سپہ سالار ہی کا کارنامہ ہے۔اندرونی اصلا حات
کے بعد اس سچے پاکستانی نے فوج کو ریاست اور اس کی سیاست کے معاملات سے یوں
علیحدہ کیا کہ آج فوج ریاست سے متحارب نہیں ریاست کا حصہ محسوس ہوتی ہے۔
اندرونی اور بین الاقوامی منصوبوں کے علی الرغم چیف نے ۲۰۰۸ ء میں نہ صرف
عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا بلکہ اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کی
اگلے پانچ سال یوں مدد کی کہ پہلی بار کسی جمہوری حکومت نے جیتنے والوں کو
پرامن طور پہ اقتدار منتقل کیا۔
قوم جنرل اشفاق پرویز کیانی کو مردآہن سمجھتی ہے کہ بطور چیف نام نہاد
جموروں نے بار ہا "مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے "کے نعرے لگا کے طالع
آزمائی کی دعوت دی لیکن جنرل نے اس کے جواب میں ہمیشہ حکومت کی مدد کر کے
اسے ہر بحران سے باہر نکالا۔گم کردہ راہیں ڈھونڈنا مشکل کام ہے اس کے لئے
مناسب وقت کا انتظار ضروری ہوتا ہے۔انفرادی طورپہ بھی کسی عادت کو ترک کرنا
ایک لمبی تپسیا کا تقاضا کرتا ہے جبکہ ہمارے ہاں انتظار کی سختی برداشت
کرنے کا تو سے سے رواج ہی نہیں۔میمو گیٹ کے قصے میں جنرل کی جذباتیت اور
غصے کو اسی تناظر میں دیکھا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ اپنے بیٹے کو بد
معاش پڑوسی سے پٹوانے کی سوچ گھر میں موجود پریشانی کو بڑھا سکتی ہے اس میں
کمی ہر گز نہیں لاتی۔جنرل کا ایک المیہ اور بھی رہا کہ آرمی چیف ہونے کے
ناطے وطن میں ہونے والے ہر واقعہ کا اسے ہی ذمہ دار ٹھہرایا گیابھلے اس کا
تعلق سیاسی حکومت سے تھا یا نیوی اور ائر فورس سے۔انگریزی کہاوت کے مطابق
وہ اس ملک کا سب سے ذمہ دار شخص تھا جب بھی کہیں کوئی غلطی ہوتی اسے ہی اس
کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے فکرو عمل سے پاکستانی قوم کو ایک ایسے
راستے کا راہی بنا دیا ہے جوآنے والے کل میں انشاء اﷲ پاکستان کو عظمتوں
اور رفعتوں کی نئی منزلوں کا پتہ دے گا۔ ڈرے سہمے حکمرانوں نے اپنی جلد
بازی میں بازی الٹ نہ دی تو ایک وقت آئے گا جب جنرل کیانی کو اس قوم کے
محسنین میں شمار کیا جائے گا لیکن اس قوم کے خوفزدہ حکمرانوں سے کچھ بعید
نہیں کہ یہ کل کیا کر گذریں۔میری بات کا یقین نہ آئے تو جنرل کیانی کے
وزیراعظم کی طرف سے دئیے گئے کھانے میں اپنے منتخب وزیر اعظم کی طرف سے
دئیے گئے کھانے میں موصوف کی بدن بولی پڑھنے کی کوشش کیجئیے۔ آپ کو میری
بات آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی۔اﷲ کریم اس محبِ وطن اور کھرے پاکستانی کو
مستقبل میں کشمالائی تجزیوں سے محفوظ رکھے ۔آمین |