آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں معذورافراد کا عالمی دن
منایا جارہا ہے اس دن کو منانے کا مقصددنیا بھر میں موجود 65کروڑ سے زائد
افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہوتا ہے پاکستان میں معذورافرداکی تعداد
تقریباََ پونے دوکروڑ ہے جن میں سے 79%دیہاتوں اور21%شہری علاقوں میں رہتے
ہیں ۔پاکستان میں مقیم معذورافراد کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے خصوصاََ
دیہات میں مقیم معذوروں کی حالت تو انتہائی ابتر ہے اگرہم یہ کہیں کہ
دیہاتوں میں رہنے والے معذورافراد جانوروں سے بھی بدترزندگی بسرکررہے ہیں
تو یہ بے جا نہ ہوگا ۔جہاں تک معذورافراد کے مسائل کا تعلق ہے تو ان میں
میں روزگار کی عدم دستیابی،قانون ساز اداروں میں معذورافراد کی نمائندگی کا
نہ ہونا،سفر کی بہترین سہولتوں کا فقدان،انتہائی حساس قسم کے معذورافراد
کیلئے وظائف کی عدم فراہمی ،ذہنی معذوروں کیلئے سائیکالوجسٹس اور ہنرمند
معذورافراد کیلئے قرض حسنہ کی سہولت کا نہ ہوناچندبڑے مسائل ہیں جن کو جب
تک حل نہ کیا گیا اس وقت تک معذورکمیونٹی مایوسی کی دلدل میں مزیددھنستی
رہے گی۔سابق حکومت نے معذورافراد کیلئے سپیشل کارڈزکااجراء کیا جس کے تحت
چندمراعات کا بھی اعلان کیا گیا لیکن افسوس یہ کارڈ معذورافراد کیلئے زیادہ
موثرثابت نہ ہوسکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ عالمی یوم معذوراں کے موقع
پرسابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے پیغام میں یہ بھی کہا کہ معذورافراد کی
بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کے بارے میں قانون سازی اور کسی واضح پالیسی
کا نہ ہونا ہے ۔یہ بات کتنی حیرت انگیز ہے کہ یہ بات ایسی شخصیت کررہی تھی
جس کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفط قانون بن جاتا تھا جس کی پارٹی پارلیمنٹ
،سینٹ اور تمام صوبوں میں خودمختار تھی ،قصہ مختصر یہ کہ اگر سابقہ حکومت
چاہتی تو بڑی آسانی سے معذورافراد کیلئے قانون سازی کرسکتی تھی اورپاکستان
کو معذوردوست ملک بنانے کے اپنے وعدے کو پورا کرسکتی تھی لیکن ایسا نہ
ہوسکا اور معذورافراد کو بھی پوری قوم کی طرح خوابوں اور سرابوں کے پیچھے
ہی دوڑایا گیا ۔بہرحال موجودہ حکومت کی اب زمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے
ہنگامی اقدامات اور ٹھوس حکمت عملی مرتب کرے۔اس مقصد کیلئے خطیررقم فراہم
کی جائے جس سے سب سے پہلے معذورافراد کا بیروزگاری کا مسئلہ حل کیا جائے
اورہنرمندافراد کو بلاسود ْقرضے فراہم کرنے کیساتھ ساتھ تعلیم یافتہ
معذورافراد کو نوکریاں فراہم کی جائیں تاکہ وہ کسی پر بوجھ بننے کی بجائے
ایک بامقصد اور خودکفالت کی زندگی بسر کرنے کیساتھ ساتھ ملک و ملت کی بھی
خدمت کرسکیں۔اس کے بعد ان کے مفت علاج معالجے کیلئے جامع پالیسی وضع کی
جائے خصوصی طور پر ذہنی معذورافراد کیلئے ہر ضلع میں کم از کم ایک
سائیکالوجسٹ کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔تیسرے نمبر پر معذورافراد کو مفت
سفری سہولیات ہرقسم کی ٹرانسپورٹ پر مہیا کی جائیں یہاں پر ہم وزیراعلیٰ
پنجاب میاں شہبازشریف کے اس اقدام کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جس میں انہوں
نے لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی میں معذورافراد کا کرایہ مکمل طور پر ختم کردیا
ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ استثنیٰ معذورافراد کیلئے میٹرو سمیت
تمام سرکاری و پرائیویٹ گاڑیوں تک حاصل ہونا چاہئے۔ حکومت کی جانب سے یہ
تمام مراعات و سہولیات اس وقت بیکار ہوجاتی ہیں جب تک معاشرہ ان کی عزت نفس
کا خیال رکھتے ہوئے ان کو وہ عزت و مرتبہ نہ دے جس کے وہ مستحق ہیں اس لئے
آخر میں میری معاشرے سے بھی گزارش ہے کہ معذورافراد کو حقارت کی نظر سے
دیکھنے کی بجائے اپنے اندران کی خدمت کا جذبہ پیدا کریں کیوں کہ یہ
اخلاقیات کا تقاضا بھی ہے اور زندہ و مہذب قوموں کا شعار بھی جس کی عملی
تصویر ہمیں اسلام کے ابتدائی دور میں اس وقت نظرآتی ہے جب حضرت عمرفاروق ؓ
نے اپنے دور میں معذورافراد کیلئے خوراک و خدام کا نتظام ریاست کے ذمہ لیا
اور اس سے قبل خود حضوراکرم ﷺ نے غزوہ تبوک کے اختتام پر یہ فرما کر
معذورافراد کی اہمیت پر ہمیشہ کیلئے مہرتصدیق ثبت کردی کہ''ہمارے ساتھ کچھ
لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کوئی گھاٹی یا پہاری عبور نہیں کی مگر اﷲ نے
انہیں اجروثواب میں برابر حصہ دیا ہے جس پر صحابہ کرام ؓ نے عرض کی کہ یا
رسول اﷲ ﷺ وہ ایسے کون لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ سفر کی صعوبتیں اور
تکالیف برداشت نہیں کیں لیکن اجروثواب میں ہمارے برابر ہیں وہ کیا چیز ہے
جس نے انہیں سفر سے روکا تو آپ ﷺنے فرمایاان کی معذوری نے۔اﷲ ہمیں اطاعت
رسول ﷺ کی پیروی کی توفیق نصیب فرمائے -
|