جنگلوں میں چھپا شخص٬ نصف انسان نصف درخت

سترہ ہزار سے زائد چھوٹے بڑے جزیروں پر مشتمل انڈونیشیا براعظم ایشیا کے جنوب مشرق میں وا قع ایک اہم ملک ہے- یہ ملک اپنے منفرد اور حیرت انگیز نباتات اور جمادات کے باعث دنیا بھر میں جداگانہ شناخت رکھتا ہے- آتش فشاں پہاڑ اور وسیع جنگلات انڈونیشیا کے ارضی حسن میں چار چاند لگاتے ہیں ان خوبصورت علاقوں میں سے ایک مغربی جاوا کا صوبہ ہے- اس جزیرے کے صوبائی دارالحکومت ’’ بنداونگ‘‘ Bandung کے دور افتادہ گاؤں ’’ تن جنگ جایا‘‘Tanjungjayaمیں ایک ایسا عجیب و غریب انسان بستا ہے جسے پہلی نظر میں دیکھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنے ہاتھوں اور پیروں کو درخت کی چھال سے ڈھانپ رکھا ہے یا پھر بہت سی سوکھی چھال یا شاخیں ہاتھوں میں پکڑ رکھی ہیں اور پیروں میں لپیٹی ہوئی ہے-
 

image


دور سے دیکھنے پر وہ ایک پانچ فٹ کا درخت نظر آتا ہے جس پر پتوں کے بجائے صرف چھال اور الجھی ہوئی جڑیں ہوں اس نادر سراپے میں دکھائی دینے والے شخص کا نام ’’ڈییڈی کوسوارا‘‘ Dede Koswara ہے جس کے جسم پر نہ تو یہ چھال ہے اور نہ ہی اس نے سوکھی جڑیں اور ٹہنیاں اپنے ہاتھوں اور پیروں میں تھام رکھیں ہیں- بلکہ وہ ایک ایسے جرثومے(HPV(Human Papilloma Virus کی ستم ظریفی کا شکار ہے جو جسم کے اندر سے انسانی کھال یا جِلد پر حملہ آور ہوتا ہے- ’’ڈییڈی کوسوارا‘‘(HPV) وائرس کے باعث ایک پراسرار اور انوکھی جلدی بیماری Epidermodysplasia Verruciformis میں مبتلا ہے طبی ماہرین کے مطابق HPوائرس انسان کے مدافعاتی نظام پر حملہ آور ہو کر عام سی جِلدی بیماریوں کا باعث بنتا ہے- تاہم بدقسمتی سے ’’ڈییڈی کوسوارا ‘‘کو HP وائرس کے حملے کے ساتھ ساتھ جینیاتی نظام میں بگاڑ کا بھی سامنا ہے- ان دونوں عوامل نے مل کر’’ کوسوارا ‘‘ کو انتہائی شاذ و نادر ہونے والی اس بیماری میں مبتلا کردیا ہے ۔

ماضی میں ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ’’ڈییڈی کوسوارا ‘‘پر اس بیماری کا حملہ 15 برس کی عمر میں اس وقت ہوا تھا جب اس کی ٹانگ کے نچلے حصے میں ایک بڑا سا مسّہ (Wart) ظاہر ہوا جس کے کچھ ہی عرصے بعد مزید ایسے چھوٹے بڑے مسّے نکل آئے- 25سال کی عمر تک یہ مسّے سر سے پیر تک پھیل گئے یہ مسّے اتنے قریب قریب تھے کہ لگتا تھا کہ ’’ڈییڈی کوسوارا ‘‘ کے جسم کے گرد کسی نے درخت کے تنے کی چھال لپیٹ دی ہو یا پھر اس کے جسم کے اندر سے کوئی درخت کا تنا ابھر رہا ہے- ہاتھوں اور پیروں میں پپڑیوں کی شکل میں دکھائی دینے والے ان لا تعدا د مسّوں نے اس کے شب و روز بالکل بدل دئے- اس کیفیت میں مبتلا ہونے کے بعد اس کا تعارف عموما’’ ٹری مین‘‘ Tree Manکے نام سے کیا جانے لگا ایک ایسا شخص جس کی شخصیت کے گرد پراسراریت کی چادر تنی ہوئی تھی اگرچہ 25برس کی عمر سے قبل ہی اس کی شادی ہوگئی تھی اور وہ دو صحت مند بچوں کا باپ بھی بن چکا تھا- مگر مرض کی نوعیت نے اسے دنیا سے کنارہ کشی پر مجبور کردیا حالاں کہ یہ چھوت کی بیماری نہیں تھی لیکن مرض سے عدم آگاہی کے باعث نہ صرف اس کے دوست احباب نے ملنا چھوڑ دیا بلکہ بیوی بچے اور ماں باپ بھی علیحدہ رہنے پر مجبور ہوگئے اور وہ خود بھی گوشہ نشین ہوگیا ۔

چالیس سالہ ’’ڈییڈی کوسوارا ‘‘کے حالات کے بارے میں دنیا کو اس وقت آگاہی ہوئی جب بائیس نومبر دو ہزار سات کو مشہور برطانوی ویب سائٹ’’ میٹرو آن لائن‘‘ پر اس کے تکلیف دہ حالات اور دردناک بیماری کی ویڈیو نا معلوم زرائع سے پیش کی گئی- تاہم ویب سائٹ کی انتظامیہ نے ویڈیو کے مستند ہونے کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا بعد ازاں یہی ویڈیو یو ٹیوب پر بھی اپ لوڈ کردی گئی جس کے فورا بعد سن دو ہزار آٹھ میں مشہور ڈسکوری چینل اور TLCسیریز نے ڈییڈی کوسوارا کے مرض، اس کے روز شب اور خاندان کے افراد کے حوالے سے ایک ڈاکومنٹری تیار کی- یہ ڈاکومنٹری ان دونوں اداروں کے مشہور پروگرام \'\'My Shocking Story\"کا حصہ تھی ،ڈاکومنٹری کا عنوان Half Man Half Tree تھا فلم کی تیاری میں ڈسکوری چینل کی ٹیم نے جزیرہ جاوا کے دور افتادہ علاقوں میں واقع جنگلوں کا سفر کیا جہاں Tree Manڈییڈی کوسوارا بیماری کے ہاتھوں تنگ آکر دنیا سے چھپ کے زندگی گزار رہا تھا- اس تحقیقی نوعیت کی ڈاکومنٹری کی تیاری میں ڈسکوری چینل کے عملے کے ساتھ امریکہ کے میری لینڈ میڈیکل سینٹر کے شعبہ جِلد (Dermatology)کے چیئرمین ڈاکٹر’’ انتھونی گاسپاری‘‘ (Anthony Gaspari)بھی شریک سفر تھے- بین الااقومی شہرت کے ماہر امراض جلد ڈاکٹر انتھونی گاسپاری نے دوران تحقیق ڈاکومنٹری میں ڈییڈی کوسوارا کی بیماری کی نوعیت، شدت اور علاج کے حوالے سے کافی اہم سوالات اٹھائے یہ سوالات نہ صرف آگے چل کر اس کے مرض کی نوعیت کو سمجھنے میں اہم ثابت ہوئے بلکہ ڈاکٹر انتھونی کی کوششوں کے باعث تکلیف میں مبتلا ڈییڈی کوسوارا کو عالمی سطح پر ہمدردی اور شناسائی حاصل ہوئی اور علاج کی راہ بھی ہموار ہوئی- بعد ازاں ڈاکٹر انتھونی گاسپاری نے مرض پر تحقیق اور علاج کے حوالے سے دو مرتبہ ذاتی حیثیت میں بھی انڈونیشیا کا سفر کیا اور’’ڈییڈی کوسوارا‘‘سے ملاقات کیں۔
 

image

Half Man Half Tree کے عنوان سے پیش کئے جانے والے اس پروگرام کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آسٹریلیا کے ABCچینل نے بھی ’ ’ میڈیکل مسٹری‘‘ سیریز میں’’ ڈییڈی کوسوارا ‘‘ کی انوکھی بیماری پر ایک تحقیقی پروگرام Tree Manپیش کیا جس میں اس کے علاج کے حوالے سے زبردست مہم چلائی گئی- اس مہم کے نتیجے میں ڈاکٹروں نے ڈییڈی کوسوارا کی سرجری کرنے کا فیصلہ کیا جو چھبیس اگست دو ہزار آٹھ کو تین مرحلوں میں مکمل ہوئی جس کے دوران پہلے مرحلے میں اس کے جسم سے مسّے اور قالین کی مانند دکھائی دینے والی کھال کی پپڑیوں کو اکھاڑا گیا جس کے بعد ہاتھوں کے سینگ نما ناخنوں کو علیحدہ کیا گیا ، دوسرے مرحلے میں سر کے بالوں کے اندر موجود مسئے اور جسم پر پھیلی ہوئی بل دار پپڑی نما کھال کو درست کیا گیا اور پیروں کے ناخنوں کے گچھوں کو کاٹا گیا اور تیسرے مرحلے میں ہاتھوں کی کھال کی پیوند کاری کی گئی، آپریشن کے دوران جسم پر سے علیحدہ کئے گئے مسّے اور کھال کا مجموعی وزن چھے کلو گرام تھا- سرجری کے تمام عمل کی عکس بندی ’’ڈسکوری ہیلتھ چینل ‘‘نے کی جسے اس نے Treeman: Search for the Cureکے عنوان سے پیش کیا ۔

تاہم محض چھے مہینے بعد ہی ڈییڈی کوسوارا کے جسم کے مسّے اور ہاتھوں اور پیروں کے ہیبت ناک سینگ نما ناخن دوبارہ ظاہر ہونا شروع ہوگئے لہذا بارہ مارچ دو ہزار دس کوڈییڈی کوسوارا کا تادم تحریر نواں آپریشن کیا گیا ہے جو’’ بند انگ شہر‘‘ کے مقامی ہسپتال حسن صادقین میں کیا گیا- تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں ڈاکٹروں نے مجموعی طور پر 2.4کلو گرام وزن کے مسئے اور ہاتھوں اور پیروں پر سے تکلیف دہ ناخن صاف کئے- آپریشن کے بعد سگریٹ کے کش لیتے ہوئے ڈییڈی کوسوارا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسے نئی زندگی مل گئی ہے اور وہ یہ سوچ کر نہایت خوش ہے کہ وہ اب عام انسانوں کی طر ح اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارسکے گا- لیکن بدقسمتی سے محض دو ماہ بعد ہی اس کے ہاتھوں اور پیروں پر دل دہلا دینے والے سینگ نما ناخنوں کے گھچے دوبارہ بننا شروع ہوگئے اور ڈییڈی کوسوارا ایک مرتبہ پھر مایوسی کے اندھیرے میں ڈوب گیا- انڈونیشی ڈاکٹروں کی ٹیم ڈییڈی کوسوارا کی تکلیف کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے دسویں آپریشن کی تیاری کرر ہی ہے۔

انڈونیشیا کے مشہور ماہر امراض جلد ڈاکٹر رحمت دناتا اور ڈاکٹر عین دین سوتیجا کے مطابق سخت مسّوں اور چھال جیسی غیر معمولی جلد اور سخت جھاڑیوں جیسے ناخنوں کی افزائش کی بنیادی وجہ یہ کہ ڈییڈی کوسواراکے مسّوں کی خون کی بافتیں اور نسیں اس کے ہاتھوں اور پیروں کی ہڈیوں میں سرایت کر گئی ہیں لہذا ڈییڈی کوسوارا کی بیرونی جلد تو کسی حد تک آپریشن کے بعد صاف ہوجاتی ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد مسّوں اور ناخنوں کی دوبارہ افزائش ہونے لگتی ہے- اور چوں کہ ڈییڈی کوسواراکا مرض انتہائی شدید نوعیت کا ہے اور اس کا جینیاتی نظام بھی خراب ہے لہذا یہ عمل تیزی سے اثر دکھاتا ہے- ان حقائق کے بعد ڈاکٹر حضرات متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اسے مرتے دم تک کم ازکم سال میں دو مرتبہ سرجری کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑے گا۔

شدید مشکلات میں گھرا ڈییڈی کوسوارا علاج سے قبل مقامی سرکس میں اپنے ہیبت ناک جسم کی نمائش کر کے روز و شب گزارتا تھا کیوں کہ بیماری کے باعث وہ اس قابل نہیں رہا تھا کہ اپنے ماہی گیری کے آبائی پیشے کو جا ری رکھ سکے- اگرچہ اس کا پورا جسم مسّوں اور عجیب و غریب کھال سے ڈھکا ہوا ہے حتی کہ اس کے دونوں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں عملا ان سینگ نما ناخنوں کے مڑے تڑے گھچوں میں کھو گئی ہیں اس کے باوجود ڈاکٹروں کو امید ہے کہ وہ دوبارہ عام انسانوں کی طرح اپنے ہاتھوں اور پیروں کا استعمال کرسکے گا- اس امید کی تکمیل میں ان کا بھرپور ساتھ انڈونیشی حکومت دے رہی ڈییڈی کوسوارا مکمل طور پر انڈونیشی حکومت کے خرچ پر زیر علاج ہے- اس کے علاوہ کئی بین الااقوامی طبی تحقیقی ادارے اس کی انوکھی اور پریشان کن بیماری کے حوالے سے تحقیق میں مصروف ہیں- ڈاکٹر انتھونی گاسپاری پرامید ہیں کہ ڈییڈی کوسوارا کے مرض پر کی جانے والی تحقیق نہ صرفHP وائرس کو ختم کرنے میں اہم ثابت ہوگی بلکہ جِلد کے کینسر کے حوالے سے بھی یہ تحقیق اہم تنائج کی حامل ہو گی ۔
 

image

دیگر مریض
ڈییڈی کوسوارا کے منظر عام پر آنے سے قبل مارچ2007میں بھی ایک اس قسم کا کیس منظر عام پر آیا تھا جس کا تعلق رومانیہ سے تھا Ion Toader نام کا یہ کسان مشہور ماہر جِلد Carmen Madeleine Curea کے زیر علاج تھا- امریکن اکیڈمی آف ڈرماٹولوجی کے سابق صدر Carmen Madeleine Cureaکا کہنا تھا کہ یہ کیس بھی Epidermodysplasia Verruciformis ہی کا تھا ۔

اس کے علاوہ 2009میں جب ڈسکوری چینل ٹیم ڈییڈی کوسواراپر ڈاکو منٹری مرتب کر رہی تھی تو ٹیم کے ہمراہ ماہر جینیات ڈاکٹر مارٹن کاسٹ بھی تھے- ڈاکٹر مارٹن کاسٹ نے اس دوران جاوا جزیرے ہی سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخص کو بھی ڈھونڈ نکالا جو اسی نوعیت کے مرض میں مبتلا تھا- بعد ازاں ڈسکوری چینل نے Zainal نام کے اس متاثرہ شخص کی ملاقات ڈییڈی کوسوارا سے کروائی اور چینل نے ان دونوں حضرات کی ملاقات کے تناظر میں پروگرام \"Treeman Meets Treeman\" کے نام سے پیش کیا پروگرام کے منظر عام پر آنے کے بعد سے Zainal کا علاج بھی کیا جارہا ہے ۔

اسی قسم کی بیماری میں مبتلا اب تک کے معلوم آخری مریض کا تعلق بھی انڈونیشیا کے جزیرے جاوا ہی سے ہے لیکن یہ شخص جس نے اپنی شناخت مخفی رکھی ہوئی ہے ہالینڈ میں رہائش پذیر ہے- اس کے علاج کے لئے ریڈیو تھراپی کی تکنیک استعمال کی جاری ہے اس تکنیک سے اس کے مرض میں تو افاقہ ہوگیا ہے لیکن یہ شخص بدقسمتی سے جِلد کے کینسر میں مبتلا ہوچکا ہے- ان تمام واقعات کے حوالے سے ڈاکٹر اس امر پر بھی تحقیق کررہے ہیں کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کے باعث اس انتہائی کم وقوع پذیر ہونے والے جینیاتی نظام اور مدافعاتی نظام کی خرابی کے شکار چار افراد میں سے تین افراد کا تعلق انڈونیشیا سے ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE:

Like every other child, Dede was born sweet and cute. He grew up like every other child with hopes and dreams, but who would have thought that his once beautiful and adorable physique will be a thing of scientific experimentation later in his life. That is the story of Dede Koswara of Indonesia.