اردو اور سائنسی علوم کا اظہار

یہ کہاوت بلکہ بےوزن مقولہ برسوں سے سننے میں آ رہا ہے کہ اردو ساءنسی نہیں لڑیری زبان ہے۔ ان دنوں بھی یہ بحث چل رہی ہے کہ اردو زبان سائنسی علوم کو اپنے اندر سمونے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ایک بہت بڑے عالم فاضل کو ہاں میں ہاں ملاتے میں نے بقلم خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ بڑے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ماہرین لسانیات پراس ذیل میں غشی کا عالم طاری رہا ہے۔

سرکاری سطع پر اس زبان کی کبھی اور کسی حوالہ سے پذیرائ نہیں ہوی۔ یہ بات محض زبانی کلامی کی رہی ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی لیکن اس گریب کی جانب کبھی کسی کی نظر نہیں گئ۔ نجی سطع پر ادارہ علم و ادب پاکستان نے اسلامی ادب کی کاشت کے لیے کوششیں کیں۔ پروفیسر حسن عسکری اس سے قبل اس حوالہ سے سرگرم رہے۔ چوہدری احمد خاں نے ترویج و نفاذ اردو کے لیے رات دن ایک کیا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ان دونوں تحریکوں سے میرا تعلق رہا اور بسات بھر تعاون بھی رہا۔ اردو سوساءٹی پاکستان کے تحت میں کئ سال کھپتا کھپاتا رہا۔ مضامین لکھے قراردادیں منظور کراءیں مقتدرہ قوتوں کے دروازے کھٹکٹھاءے۔ محتسب پاکستان‘ اسلامی شرعی عدالت کے دروازے پر دستک دی۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ ہر کوئ اپنی موج میں مست رہا۔ سرکاری سطع پر کسی کو کوئ توفیق نہ ہوئ۔

جب انگریزی مسلط نہیں تھی اس وقت جملہ شعبوں سے متعلق اشیاء کے نام نہیں تھے۔ میں یہاں سیکڑوں چیزوں کے نام درج کر سکتا ہوں۔ عسکری اشیاء تیار کرنے والے بیاسی علاقے سے پکڑ کر یونانی اور دوسرے تکڑے لے جاتے تھے۔ قدیم اسلحہ اور برتن مختلف خارجی ولاءتوں اور بیاسی علاقہ کے ایک سے ہیں۔ یہ لوگ بلا کے ذہین اور ہنرمند ہیں۔ ذہانت اور ہنرمندی کس کام کی جو اسے استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ جب یہ اشیاء بنائیں گے تو اشیاء کے نام بھی تخلیق پاتے رہیں گے۔

ہندویِ یعنی اردو پنجابی کو چھوڑ کر دنیا کی واحد زبان ہے جس کے تین رسم الخط ہیں۔ یہی نہیں یہ دنیا کی دوسری بڑی استعمال میں آنے والی زبان ہے۔ لچک پذیری کے حوالہ سے بھی اپنا جواب نہیں رکھتی۔ اس کا ہاضمہ دنیا کی تمام زبانوں سے بڑھیا ہے۔ الفاظ کو نءے نءے روپ اور اشکال دینے میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔

ہماری کیا‘ دنیا بھر کے لوگوں میں یہ گندی عادت موجود ہے کہ کسی چیز کا تجربہ اور آزمایش کیے بغیر دیکھا دیکھی اور کہی کہائ کو مدنظر رکھتے ہوئے منفی فتوی صادر کر دیتے ہیں۔ یہ انداز اور رویہ کسی طرح درست نہیں۔ اس زبان پر ذمہ داری تو رکھو اگر ناکام رہے تو سو کیا‘ ہزار طرح کی باتیں بنائ جا سکتی ہیں۔ دوسری طرف ترجمہ اور مترادفات کے لیے صرف عربی فارسی کے کیوں قدم لیے جاءیں مقامی زبانیں جو کسی حد تک سہی‘ مانوس بھی ہیں‘ سے تمسک بےثمر نہیں رہے گا۔ میں دعوی تو نہیں کرتا البتہ کامل یقین کے ساتھ کہنے کو تیار ہوں کہ کہیں اور جانا نہیں پڑے گا خود اردو اپنی لچک پذیری اور الفاظ گھڑنے کی صلاحیت کے سبب مایوس نہیں کرے گی۔

الفاظ کو اپنانے اور اردوانے کے معاملے میں بخیل تنگ دست اور کم ظرف نہیں۔ اس کی فراخ دلی اور فراخ دامنی کے سبب نظریہ چلا آتا تھا کہ یہ زبان مختلف زبانوں کی آمیزش سے وجود میں آئ ہے۔ یہ نظریہ آج غلط فہمی سے زیادہ نہیں رہا۔ اس نے بدیسی زبانوں کے الفاظ کو اپنا سلیقہ اور اپنے اطوار دے کر اردوایا ہے۔ دیسی اور بدیسی الفاظ کے سو طرح کے آمیزے پیش کیے ہیں۔ متلا عین+نک= عینک۔ لفظ عینک سے کون واقف نہیں۔ مترادف تلاشے ہیں مثلا سی ڈی کے لیے توا عام استعمال میں ہے۔ بدیسی الفاظ کے ساتھ اردو مصادر کا بکثرت استعمال ہوتا آیا ہے۔ مثلا آزمایش کے ساتھ کرنا مصدر عام استعمال میں ہے۔ اس کا اختصار آزمانا مستعمل اور مانوس ہے۔

انگریزی الفاظ کے ساتھ اردو مصادر کا استعمال بہت پہلے سے رواج میں ہے۔ مثلا ایڈواءس کرنا‘ ملنا۔ اتھارٹی ملنا‘ دینا‘ پھٹنا‘ پھاڑنا۔ ڈسٹرب کرنا‘ ہونا۔ بک کرنا‘ ہونا۔ ارتھ ہونا‘ کرنا۔ پرائز ملنا‘ دینا۔ اٹیچ ہونا‘کرنا۔ ڈاءل کرنا۔ انفوم کرنا۔ لنک ہونا ‘کرنا‘ بنانا۔ ریوارڈ دینا‘ ملنا‘ ہونا۔ ہلپ کرنا‘ ملنا‘ ہونا۔ ٹپ دینا‘ ملنا۔ کلوز کرنا‘ ہونا۔ ہنٹ دینا‘ ملنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ مرکبات محاورے کے درجے پر فاءز ہو چکے ہیں۔ ان محاورات یا افعال متعدی سے مصادر تشکیل پا سکتے ہیں۔ مثلا ایڈواءزنا‘ اتھاڑٹا‘ ڈسٹربنا‘ بکنا‘ ارتھنا‘ پراءزنا‘ اٹیچنا‘ ڈاءلنا‘ انفورمنا‘ ریوارڈنا‘ ہلپنا‘ لنکنا‘ ٹپنا‘ کلوزنا‘ ہنٹنا۔ مصادر سے مختلف فعلی حالتیں تشکیل پانا عام روٹین اور معمول کی بات ہے۔

مزید ہیتی اور اشکالی تبدیلیاں وقت ضرورت اور حالات کے تحت ہوتی رہیں گی۔ آج بہوت یا پھر لاہو مکتوبی صورت نہیں رہی۔ اردوائے اور کھڑے گیے لفظ آتے وقتوں میں مانوس ہو جانے کے بعد کیا سے کیا ہو جاءیں گے۔ اب میں صرف ایک لفظ جو مانوس اور مستعمل ہے کی چند اردوائ اشکال درج کرتا ہوں:

ڈرامہ
ڈرامہ کرنا‘ ہونا‘ چلنا‘ بگڑنا‘ بنانا وغیرہ
ڈرامنا‘ ڈرمنا
ڈرامہگر‘ ڈرامہکر‘ ڈرامہ ساز‘ ڈرامہ باز‘ ڈرامہ گو؛ ڈرامہ شعار
ڈرامہ بازی‘ ڈرامہ سازی‘ ذرمہ شعاری‘ ڈرامہ گوئ
ڈرامچی‘ ڈرامچے
ڈرامائ
ڈرامے‘ ڈراموں‘ ڈرامہ جات‘ ڈرامات
ڈرامی ڈرامو
ڈرامہ در ڈرامہ

مزاج نوعیت حالات صورتحال ماحول سیچویشن ضرورت وغیرہ کے تحت لفظ تشکیل پاتے جاءیں گے اور مفاہیم بھی تببدیل ہوتے رہیں گے۔ الفاظ سازی کا معاملہ اانگریزی تک ہی محدود نہیں رہے گا دیگر بدیسی زبانوں کے الفاظ بھی اردوانے کا عمل تیز ہو جائے گا۔ اردو کو موقع تو دیا جائے۔ مثلا ہائ + دان غیر مانوس نہیں رہے گا۔ کامی سان سے کامی‘ سان تعظیمی لاحقہ ہے لہذا کامی بھوم مانوس اور مستعمل ہونے میں وقت نہیں لگے گا۔ یہ بھی کہ ہم سائنسی ترقی کو ترجیع میں تو رکھیں‘ اردو زبان سب سمبھال لے گی۔۔ مکتوبی زبان میسر آنے میں رائ بھر دیر نہیں لگے گی۔

بالکل اسی طرح دوسری زبانوں کے لفظ اردوائے جا سکتے ہیں۔ چینی جاپانی اور کورین کا لسانی سسٹم مغرب کی زبانوں سے مختلف ہے لیکن ان کے الفاظ بہرصورت اردوانے میں کسی قسم کی دقت محسوس نہیں ہو گی۔ ان زبانوں سے اردو کا لسانی رشتہ بڑا کارآمد ثابت ہو گا۔ معاشی ترقی اور خوشحالی کے حوالہ سے ان کا کل بڑا شاندار نظر آتا ہے۔ عربی اور فارسی‘ اردو والوں کے روٹین میں ہے۔ ان سے استفادہ اردو والے نادانستہ کرتے آ رہے ہیں۔ حقائق بالا کی روشنی میں اردو یعنی ہندوی کو گری پڑی زبان قرار دینا یا سمجھنا سراسر زیادتی ہے۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190894 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.