قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے

1- Language is for communication
یہ بات سو فیصد سچائ اور حقاءق پر مبنی ہے کہ زبان رابطے کا ذریعہ ہے۔ زبان اسی کی ہے جو اسے استعمال میں لاتا ہے۔ اس کے استعمال کی چار صورتیں ہیں: بولنا‘ لکھنا‘ پڑھنا اورسمجھنا۔ ان میں سے کسی ایک کا استعمال خواندگی کے زمرے میں داخل کر دیتا ہے۔
اس حوالہ سے موجودہ خواندگی کے تعدادی ریکارڑ کو کسی بھی زبان کے لیے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس معاملے میں دوبارہ سے سروے کرنے کی ضرورت ہے۔ زبان شخص کے جذبات احساسات اور خیالات کا اظہار کرتی ہے لہذا
١۔ زبان کا کوئ مذہب نہیں۔
٢۔ زبان ہر قسم کی علاقائ تقسیم وتخصیص سے بالا تر ہے۔
٣۔ زبان شخص سے جڑی ہوئ ہے اور شخص کے مزاج و رجحان کی تابع فرمان ہے۔
گویا وہ وہی کچھ بیان کرے گی جو شخص کی مرضی اور منشا ہو گی اسی طرح لہجے اور میں بھی شخص کے آلات نطق اور معاون آلات نطق کے ماتحت رہے گی۔ زبان انشراع کے حوالہ سے بلا تفریق و امتیاز شخص کو شخص کے قریب لاتی ہے تاہم ہم خیالی نہ ہونے کی صورت میں زبان ہی کے حوالہ شخص‘ شخص سے دور ہو جاتا ہے۔ زبان ہی کے زیر اثر اشاراتی زبان وجود پکڑتی ہے۔ اس میں زبان کا کوئ قصور نہیں ہوتا‘ قصور الفاظ کے اندر موجود مفاہیم کا ہوتا ہے اوراس معاملے کا تعلق انداز تکلم اور لب و لہجہ سے بھی ہوتا ہے۔

2- No language is better or worse than other
یہ نقطہ دو حصوں پر مشتمل ہے
اول۔ بیٹر Better‘ بیٹر Better زبان وہی کہلا سکتی ہے جو اظہار اور انشراع کے معاملے میں بہتر ہو اور اس حوالہ سے کسی قسم کی رکاوٹ اور پچیدگی نہ پیدا ہو۔ رکاوٹ اور پچیدگی کی کئ وجوہ ہو سکتی ہیں
١۔ ذخیرہ الفاظ محدود ہو سکتا ہے۔
٢۔ آوازوں کا نظام ناقص ہو سکتا ہے۔
٣۔ لچک پذیری میں نقص ممکن ہے۔
٤۔ سوشل نہ ہو۔
٥۔ مختلف لہجوں کا ساتھ نہ دیتی ہو۔٦۔ آلات نطق یا معاون آلات نطق اس کے ساؤنڈ سسٹم کا ساتھ نہ دیتے ہوں۔
٧۔ تبادل آوازوں کا نظام بہتر نہ ہو۔
٨۔ مفرد آواز کے لیے مرکب آواز کا سہارا لینا پڑتا ہو۔ یہ مرکب آوازیں ایک سے زیادہ آوازیں دیتی ہوں۔ یا پھر تلفظ میں پچیدگی پیدا ہوتی ہو۔
٩۔ لکھنے پڑھنے کے حوالہ خرابی کی صورتیں نکلتی ہوں۔
۔١سیکھنے میں آسان نہ ہو۔
١١۔ سیکھنے والے کی دلچسپی باقی نہ رہتی ہو۔
١٢۔ متبادلات کی تعداد زیادہ نہ ہو۔
١٣۔ ایک لفظ کے بہت سے معنی ہوتے ہیں۔ جملے میں مطلوبہ معنی واضع نہ ہوتے ہوں۔
١٤۔ عمومی بول چال میں لفظوں کی فطری اداءگی سماعت پر گراں گزرتی ہو۔
۔۔١٥اصطلاحات کا ذخیرہ وافر نہ ہو یا پھر گھڑنے پر فطری اصولوں کے مطابق نہ رہتی ہو
١٦۔ ایک ہی بات کہنے کے لیے مختلف ڈھنگ اور طور اپنانے سے قاصر ہو۔
١٧۔ رشتے ناتے واضع کرنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔ واحد جمع اور مونث مذکر بنانے کے لیے فطری اصول نہ رکھتی ہو۔
غرض ایسی بہت ساری باتیں ہیں جو better اور na’better سے علاقہ رکھتی ہیں۔
دوم۔ ورس Worse
کوئ بھی زبان Worse نہیں ہوتی ہاں اس میں کہی گئ بات‘ اچھی یا بری ہو سکتی ہے۔
English is considered to be necessary for progress

ایسی بات کو احمقانہ اور غیردانش مندانہ کہنے میں کوئ برائ یا خرابی محسوس نہیں ہوتی۔ ماہرین لسانیات اور دوسری زبانیں استعمال کرنے والوں کے لیے یہ بات ان کے ہاضمے کی دسترس سے قطعی باہر ہے۔ یہی سنہری کلمات یونانی عربی فارسی ترکی وغیرہ کے لیے کہے جاتے رہے ہیں۔ کہاں گیا وہ رعب و دابدبہ؟! سب مٹی ہو گیا۔ بالکل اسی طرح کل کو یہ بھی مٹ جاءے۔ انگریزی کا لسانی مطالعہ کر دیکھیں اس کی بالادستی اور رعب ودبدبے کا چانن ہو جاءے گا۔

Now it (English)
become kind of international language
یہ بات امریکہ بہادر کی عسکری قوت سے مرعوب ہو کر تو کہی جا سکتی ہے ورنہ خود مغرب میں انگریزی بولنے والوں کی تعداد اتتہائ غیر معقول ہے۔ بہت سے مغربی ممالک کا کاروبار ان کی اپنی زبان میں چل رہا ہے۔ ماضی بعید کی ان گنت چیزیں آج حیرت کا سبب ہیں۔ کیا وہ انگریزی کا کارنامہ قرار دیا جاءے۔ چمچے اہرام مصر کو انگریزی کی دین قرار دیں گے۔ ان کی چھوڑیے‘ سچائ کیا ہے‘ اس کا کھوج کرنا ضروری ہے۔ بہت ساری استعمال کی اشیاء کے نام جاپانی اور چینی ہیں‘ بازار میں مستعمل بھی ہیں۔ ان اشیاء کی تخلیق کی پگڑی انگریزی کے سر پر رکھی جاءے؟! ان حقاءق کی روشنی میں ماسی انگریزی کو بین الاقوامی زبان کہنا کیونکر مناسب ہو گا۔ اگر اسے امریکہ بہادر سے رابطے کی زبان کہا جاءے تو زیادہ مناسب ہو گا۔
ہماری اور دیگر ممالک کی بہت ساری بیبیاں ہندوی (اردو+ہندی) کی فلمیں دیکھتی ہیں اور اپنی زبان میں بخوبی مفاہیم سمجھ رہی ہوتی ہیں۔ حالانکہ وہ ہندوی لکھنے پڑھنے اور بولنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ ہندوی ان کی کبھی بھی زبان نہیں رہی ہوتی۔ ان کے گھر یا ان کے قرب و جوار میں ہندوی کا نشان تک نہیں ملتا۔
ہندوی اس وقت دنیا دوسری بڑی زبان ہے لیکن اپنے لسانی نظام اور ساؤنڈ سسٹم کے حوالہ سے پہلی بڑی زبان ہے۔
یوکے اور کنیڈا میں وہاں کی دوسری بڑی استعمال کی زبان ہے۔
دنیا کے کسی خطے میں چلے جاءیں ہندوی سے متعلق اچھے خاصے لوگ مل جاءیں گےاس لیے انگریزی کو دھونس سے بین الا قومی زبان کا درجہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہندوی سے متعلق لوگ دنا کے سب سے بڑے خریددار ہیں۔ خام مال برامد کرنے کے حوالہ سے بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ پھل اناج سبزیاں پوری دنیا میں برصغیر سے جاتی ہیں۔ ذاتی مفادات کے تحت اس سے متعلق وڈیرے بےحسی کا شکار ہیں۔ وہ نہیں جانتے یا جاننا نہیں چاہتے کہ دنیا کی اقتصادیات میں ان کی کیا اہمیت ہے۔

5- Most of the books and knowledge available in (english)
it.
یہ نقطہ ہر حوالہ سے ضعف باہ کا مریض نظر آتا ہے۔ دنیا کی کون سی بڑی کتاب ہے جس کا ہندوی میں ترجمہ نہیں ہوا۔اس وقت ہندوی میں
ا۔ مذہبی لڑیچر کی کتابیں دنیا کی تمام زبانوں سے زیادہ ترجمہ ہوئ ہیں۔
ب۔فنون وغیرہ کی ہر بڑی کتاب ترجمہ ہو کر اس میں داخل ہو چکی ہے۔
شعری اصناف سخن میں انگریزی اس کے قریب سے بھی گزرنے کی تاب نہیں رکھتی۔ کوئ نگریزی میں استاد غالب کا سا نکال کر ہی دکھا دے۔
ج۔ اقتصادیات سے متعلق ترجمہ ہو چکی ہیں۔ بے شمار کتابیں۔۔
آخری بات اس ذیل میں یہ ہے کہ یہ کہنا سو فیصد غلط ہے کہ کوئ قوم مانگے یا ریاستی جبر کے تحت پڑھائ جانے والی زبان میں ترقی کر سکتی۔ ترقی کا خواب قوموں کی اپنی زبان میں ہی شرمندء تعبیر ہو سکتا ۔ہے۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190906 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.