زلزلہ کی صورت میں آواران کے لوگوں پر قیامت صغرا
آئی اور گزر گئی۔لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے، اپنے پیاروں کو بنا کفن کے
ہی میسر چادروں میں شہر خموشاں کے حوالے کیا۔اورخود بے سروسامانی کے عالم
میں آنے والے نامسائد حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ان کے
سامنے کئی مسائل سر اٹھائے کھڑے تھے،ویسے تو ان کی حا لت پہلے بھی تسلی بخش
نہ تھی مگرزلزلے کی وجہ سے بد سے بدتر ہو گئی۔بھوک افلاس ، غربت،بے
سروسامانی چادر اور چاردیواری کا نہ ہوناایسے مسئلے تھے جوکہ ان لوگوں کی
پریشانی کو مزیدبڑھا رہے تھے۔ جہاں مردوں نے ان حالات کا مردانہ وار مقابلہ
کیا وہیں عورتوں اور بچوں نے بھی بہادری کے ساتھ ان حالات کا سامنا کیا۔
یہاں کے لوگ جہاں ان تکالیف کو برداشت کر رہے ہیں وہیں وہ امید اور آس کی
تصویر بنے پوری دنیا اور خاص طور پر پاکستان اور بلوچستان کے حکمران،
قبائلی رہنماؤں،اور پاکستانی میڈیا کی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
ایمرجنسی کے پیش نظرعلاقے میں پہلے سے موجود سارے آفیسران نے پورے تندہی سے
کام کیا۔ اور محدود دستیاب وسائل کو بروئے کا ر لا کر اپنے تئیں لوگوں کی
ہر ممکن مدد کی۔ اور لوگوں کو ناگہانی آفت سے نکالنے کی بھرپور کوشش کی۔اور
ان سب کاموں میں بھرسوں سے غائب سرکاری آفیسران کی کچھ شکلیں بھی نظر آئیں
۔جنہوں نے انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام پیدا کرنے کی کوشش کی۔اسکے علاوہ
مختلف غیر سرکاری تنظیموں جن میں الخدمت فاؤنڈیشن، ایدھی فاؤنڈیشن ، الخیر
ٹرسٹ Red Crecent FIF ، Poverty Erdication Iniciative, اور آر می کے
آفیسران شامل ہیں جنہوں نے ریلیف کے کامو ں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، جن
میں ایمبولینس سروس ، ایمرجنسی میڈیکل کیمپ، ضروری اور فوری فرسٹ ایڈ کی
ادویات ،ضروری طبی آلات اور فوری راشن کی فراہمی شامل ہیں ۔جہاں تک
ایمرجنسی ریلیف کا تعلق ہے وہ توانہیں فوری طور پر مل گیا۔اور ریلیف کا کام
آج بھی جاری ہے آواران میں ریلیف کے کام کی مکمل نگرانی آرمی اور ٖفرنٹیر
کور کر رہی ہے ۔ ان کی کوشش ہے کہ تمام لوگوں تک ریلیف پہنچ سکے مگر امن و
امان کی خرا ب صورت حال کی وجہ سے ریلیف کے کاموں میں دشواریاں درپیش ہیں ۔کئی
ایک NGOs تو اب بھی لوگوں کو ریلیف دینے کی کوششوں میں لگے ہوے ہیں،تاکہ
لوگوں کو آنے والے نامسائد حالات جیسے کہ سردی وغیرہ کے لیے تیار کر سکیں ۔مگر
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے NGOs کو NOC بھی نہ مل سکا کہ وہ
کام کرسکیں، اور سب سے سنگین مسئلہ یہ ہے کہ % 90 مکانات مکمل تباہ ہو چکے
ہیں جس کی وجہ سے لوگ سردیوں کی سرد راتیں اپنی مدد آپ کے تحت گھاس پھوس کی
جھونپڑیوں میں یا پھر خیموں میں گذارنے پہ مجبور ہیں ۔ اور یہی بات آواران
کے باسیوں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔اس سلسلے میں کئی ممالک اور
بہت ساری NGOs نے گھر بنا کر دینے کی پیش کش کی ہے مگر بھلا ہو ہماریے
خودار حکمرانوں کا جنہیں اپنے لیے تو غیر ملکیوں سے امداد لینا منظور ہے
مگر ان بے سروسامانی کے عالم میں پڑ ے لوگوں کے لیے منظور نہیں اور امداد
لینے سے انکاری ہیں اور موئقف یہ ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے اور ہم خود ان
کی مکمل بحالی کا کام کر سکتے ہیں۔مگر اب جب کہ زلزلہ کو دو مہینے مکمل ہو
چکے ہیں یہاں پر نہ تو مرنے والوں کے لواحقین کو اور زخمیوں کو معاوضہ ملا
ہے اور نہ ہی بے گھر لوگوں کے لیے کوئی گھر بننا شروع ہوئے ہیں ، اور تو
اور شروع میں صوبائی حکومت کی جانب سے دو ایمبولینس، چار جرنیٹر اور بیس
ٹرانسفارمر اورکچے روڈوں کی گرڈنگ کی فوری فراہمی کا جووعدہ کیا گیا وہ بھی
اب تک پورا نہیں ہوا آگے تو اﷲ ہی حافظ۔
کیاہماری گو رنمنٹ واقعی آواران کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے یا پھر زمینی
حقائق چھپا ناچاہتی ہے تاکہ دنیا یہ بات نہ جان سکے کہ اس ترقی یافتہ دور
میں جب پاکستان جاسوسی ڈرون طیارے بنا چکی ہے وہیں پاکستان کے کسی کونے میں
آج بھی ایک خطہ ایسا ہے جو کہ زندگی کی بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہا ہے
اور قرون وسطہ کے مناظر پیش کر رہا ہے۔کیونکہ یہ وہی حکومت ہے جس نے
کشمیراورزیارت کے زلزلہ زدگان کے لیے بیرونی امداد لی تھی ، تو پھر آواران
کے لیے ڈبل پالیسی کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ْ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
آواران کے لوگ شروع دن سے ہی اس بات کے منتظر رہے کہ حکمران ، وزراء اور
قبائلی رہنما آئیں گے اور ان لوگوں کی دلجوئی کریں گے۔ تھوڑا بہت ان کی
امیدیں بھر آئیں جب انہوں نے وز یر ا علیٰ بلوچستان اور چند ایک وزراء کو
اپنے بیچ پایااور یہ بات ان کے لیے سکھ کا باعث تھی کہ اس ناگہانی آفت ا ور
تکلیف کی گھڑی میں ان کے حکمران ان کے درمیاں موجود ہیں اس حوالے سے پنجاب
اور سندھ کے وزیر علیٰ بھی پیچھے نہ رہے وہ اور ان کی کابینہ کے چند وزراء
نے باقائدہ نا صرف اس علاقے کا دورہ کیا بلکہ اپنی حد تک ہر ممکن مدد بھی
کی۔ مگر وہیں دوسری جانب ہمارے وزیر اعظم صاحب جن کو شروع کے دس دنوں میں
ہی ایک وزٹ کرنا چاہے تھا بڑی مشکل سے باہر ممالک کے دوروں سے دو گھنٹے
نکال کر دو مہینے بعد آواران چلے آئے۔مگر یہ کیا دو مہینے بعد لوگ اس آسرے
میں تھے کہ شاید ان کے دکھوں کا کچھ مدواہ ہو سکے مگر یہاں مداوہ تو ایک
جانب جہاں عام لوگوں کو وزیر اعظم سے ملاقات سے دور رکھا گیا وہیں میڈیا کو
بھی کوریج کی اجازت نہ ملی، جن لوگوں کو ملاقات کا شرف بخشا گیا انہیں بات
چیت کرنے کی یا سوال پوچھنے کی اجازت نہ ملی اور دورہ تو برائے نام تھا نہ
انہوں نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا نہ متاثرین سے ملاقات کی بس انہیں
تھوڑی بہت بریفنگ دی گئی وہ بھی ان لوگوں کے درمیاں بیٹھ کر جن سے وزیراعظم
صاحب کی ملاقات روز ہی اسلام آباد میں رہتی ہے۔انہوں نے ناحق ہی زحمت کی
اور ہیلی کواپٹر کا خرچہ کرایا حالانکہ وہ یہ بریفنگ اسلام آباد میں بھی
بیٹھ کر لے سکتے تھے ا ور پھر بجائے یہاں متاثرین میں چند ایک چیک تقسیم
کرتے، انہوں نے آواران کے لوگوں کو پھر نئے سبز باغ دکھا ئے او ر آواران کو
ماڈل ضلع بنانے کی خواہش ظاہر کی، مگر وہیں دوسری طرف ان کے آنے سے فائد ہ
تو ایک طرف لوگوں کی پریشانی دگنی ہوگئی، غیر ضروری سیکیورٹی کی وجہ سے
پہلے سے پریشان حا ل لوگوں کا اپنے کام پہ جانا مشکل ہو گیا،مریضوں اور
ڈاکٹروں کا اسپتال جانا مشکل ہوا،اورتو اور ایمبولینس کو بھی چلنے کی
اجازات نہ ملی اور مریض تڑپتے ر ہے ریلیف کا کام مکمل طور پہ معطل رہا ا ور
یہ صرف نوازشریف کے آنے پر نہ ہوا بلکہ ہر VIP کی آمد پہ کم و پیش یہی صورت
حال ہوتی ہے جو کہ انتہائی تکلیف دہ ہے-
یہ تو تھے ہمارے حکمران جنہوں نے مردہ دلی کے سا تھ آواران کے دورے کو ایک
بوجھ سمجھ کر سر سے اتار پھینکامگر وہیں دوسری طرف دیکھیں تو بلوچستان کے
وہ تمام قوم پرست جماعتیں، قبائلی رہنماسردا ر او ر نواب جو کہ قوم پرستی
کے دعوے دار ہیں اورخود کو بلوچ عوام کا حقیقی رہنما کہتے ہیں اور بلوچ
عوام کے غم کو اپنا غم کہتے ہیں مگر جب حقیقی طور پہ بلوچ عوام غم کے
دوراہے پر کھڑی تھی اوراپنے رہنماؤں کی راہ تک رہی تھی کہ وہ آئیں گے ا ور
ان کی ترجمانی کریں گے تو پتہ ہی نہیں کہ قومیت کے دعویدار یہ لیڈر حضرات
کہاں غائب تھے۔آواران کہ زلزلے کو دو مہینے ہو رہے ہیں لوگ بے سروسامانی کی
حالات میں کھلے آسمان تلے سردی کی یخ بستہ راتیں گزارنے پر مجبور ہیں مگر
ہمارے ان لیڈرصاحبان، قبائلی رہنماؤں اور سرداروں کے کانوں میں جو تک نہ
رینگی ، بجائے وہ یہاں آتے اور یہاں کے لوگوں کی دلجوئی کرتے انہوں نے ان
کے بارے میں بیان تک دینا مناسب نہ سمجھا۔ بلکہ ان میں کچھ لیڈر حضرات نے
اس تکلیف کی گھڑی میں آواران کے بجائے غیر ملکی دوروں کو ترجیح کو دی
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
ان سب سے ہٹ کے جو میڈیا کا رول تھا وہ بھی تسلی بخش نہ تھا۔میڈیا نے بھی
باقی سب کی طرح ایک بار پھر یہاں کے لوگوں کے ساتھ سوتیلا پن دکھایا۔اور جس
طرح کی کوریج کشمیر کے زلزلے کے وقت دیکھنے میں آئی وہ اب کے بار مفقود نظر
آئی میڈیا والوں نے ایک آدھ وزٹ کر کے او ر ایک ڈاکومینٹری بنا کر اپنا فرض
پورا کیا اور ان پہ احسان کیا ، اس کے بعد اگر کوئی کوریج ہوئی تو صرف VIPs
کی، کیونکہ یہ صاحبان ان میڈیا والوں کو اپنی کوریج کے لئے باقائدہ ہیلی
کواپٹرز میں اپنے ساتھ لاتے اور لے جاتے ۔اور ہیلی کواپٹرز کی آمدورفت جو
کہ مریضوں کے لئے ہونی چاہئے تھی صرف اور صرف VIPs کے لئے رہی مگر کیا
کیجیے آواران کے مجبور عوام کا جنہوں نے ان تمام لوگو ں سے آس جوڑ لی ہے،
وہ چاہے حکمران ہوں چاہے،قوم پرست جماعتیں، قبائلی رہنما یا سردار ہوں،یا
پھر میڈیا والے ہوں اور اب دیکھنا یہ ہے ان تمام بے حس لوگوں پر ان معصوم
لوگوں کی پکار کا اثر ہوتا ہے کہ نہیں کیونکہ ٓاواران جو کہ ایک لاوارث ضلع
تھا، اور ہر طرف سے مایوس ہو چکا تھا انکے دلوں میں گزشتہ دو مہینوں میں
دوبارہ امید کے کرن جل اٹھے،مگر آواران زلزلے کے ایک ماہ بعد جو صورت حال
پیدا ہوئی ہے وہ اور بھی ابتر ہے ۔ ضلعی حکومت بدانتظامی کاشکار ہے
کمشنرقلات ڈویژن جن کو صوبائی حکومت کی طرف سے ہدایت تھی کے وہ لوگوں کی
ریلیف کا کام مکمل ہونے تک آواران میں رہیں اور ریلیف کے کام کی نگرانی
کریں وہ دوسرے دن ہی رفو چکر ہو گئے اور ساتھ ہی ڈپٹی کمشنر خاران کو مشکے
اور ڈپٹی کمشنر واشک کو گشکور کے ریلیف کے کام کی نگرانی سونپی گئی تھی وہ
دو دن بعد پھر ایسے غائب ہو گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ تعلیم اور دیگر
اداروں کی جو پہلے صورت حال پہلے تھی وہ اور بھی بدتر ہوگئی یہاں جو اساتذہ
کرام ڈاکٹر صاحبان اور باقی اداروں کے سرکاری ملازمیں پہلے ڈیوٹی دیتے تھے،
وہی رہ گئے باقی سب پھر سے غائب ہو گئے۔ اس دوران کئی ایک انکشافات ہوئے جن
میں کئی روڈ جن کا وجود ہی نہیں صرف سرکاری صفحات پہ نظر آئے اور ان کے نام
پہ کروڑوں روپے بٹورے گئے،اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ایسی تقرریوں کا
پتہ چلا جو کہ صرف خزانے کے کاغذوں میں نظر آئے اور جوکئی سالوں سے سرکار
سے تنخواہ لیتے رہے مگر انہوں نے نہ کبھی آواران کو دیکھا ہے اور نہ کبھی
آواران کے کسی رہائشی نے انہیں دیکھا ہے یہ شعر آواران کی حالت پہ صادق آتی
ہے۔
چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے
مذکورہ بالا صورت حال سے ہر کسی کے ذہن میں یہی سوالات ابھرتے ہیں کہ کیا
واقعی آواران کی پسماندگی دور ہوگی اور اس کے پیچھے چھپے ذمداروں کے نام
سامنے آئیں گے ؟کیا واقعی کروڑوں روپوں کے گھپلہ کرنے والوں کے خلاف
کاروائی ہوگی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا یا پھر مجبور عوام
کی تصاویر کی تشہیر کرنے والے ریلیف کے نام پہ پیسے بٹور کے انہیں لوگوں پہ
خرچ کریں گے یا اپنا بینک بیلینس بڑھائیں گے زیارت کے زلزلے کی طرح ؟کیا
واقعی روڈ سرکاری کاغذات سے نکل کر گراؤنڈ پہ آجائیں گے ؟ کیا واقعی گھوسٹ
سرکاری ملازمیں خزانے کے کاغذوں سے نکل کر گراونڈ میں لوگوں کی خدمت کرتے
نظر آئیں گے اور ان کو دئے گئے تنخواہوں کی ریکوری ہوگی ؟کیا واقعی یہاں کے
لوگ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونگے ؟؟کیا یہاں کے لوگ واقعی برسر روزگار ہو
نگیں؟اور ترقی کے جو بھی خواب دکھائے جا رہے ہیں کیا وہ واقعی شرمندہ تعبیر
ہونگے؟؟کیا آواران واقعی ماڈل ضلع بنے گا؟؟؟؟ |