بچے کو بچاؤ - اللہ کا شکر ہے کہ ویل کے نیچے نہیں آیا

میں کلاس کا سب سے شرارتی لڑکا تھا۔اسکول جانے سے واپس گھر آنے تک میری والدہ محترمہ دعاہی کرتی رہتیں کہ میرا بیٹاصحیح سلامت گھر واپس آجائے۔ والدین اور اساتذہ مجھے ہر وقت نصیحت ہی کرتے رہتے لیکن میری عقل شریف پر کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی تھی،میں والدین کے لیے بڑا مسئلہ بن چکا تھا۔گھر تو گھر محلے والے بھی پریشان تھے۔ہمارا روز کا معمول تھا کہ اسکول سے چھٹی پر جلد سے جلدگھر پہنچاجائے،اس سلسلے میں کبھی کسی موٹر سائیکل والے کے ساتھ تو کبھی گدھا گاڑی اور کبھی کسی بس کے پیچھے لگ جاتے۔کبھی کبھی تو کسی تو سائیکل والے سے بھی لفٹ مانگ لیتے تھے اور جو لفٹ نہ دیتاتو چپکے سے اس کے پیچھے ہولیتے۔قصہ مختصر ایک دن ہم تین دوست اسکول کی چھٹی کے بعد گھر آرہے تھے اوراُس دن ہمیں کوئی لفٹ بھی نہیں دے رہا تھا،اس دن ہم تینوں لفٹ مانگ مانگ کر تھک گئے تھے مگر کوئی لفٹ دینے کو تیار نہیں تھا۔ہم لوگ ایک جمپ (اسپیڈ بریکر) کے پاس جاکر کھڑے ہوگئے ایک سوزوکی نے جمپ کے پاس آکرجوں ہی اپنی رفتار کم کی ہم اُس پر چڑھ گئے،مگر سوز وکی کا ڈرائیور بہت ہی ہوشیار تھا۔اس نے پہلے رفتار تھوڑی کم کی اور اس کے بعد فوراً تیز کردی۔میرے دونوں دوست چڑھنے میں کام یاب ہوگئے لیکن میں لٹک گیا۔میں آدھا گاڑی کے اوپرتھا اور اور آدھا نیچے،بس یوں سمجھ لیجیے کہ میرے سر اور سوزکی کے پچھلے ویل کے درمیان قریباًایک انچ کا فاصلہ تھا۔میں نے اٹھنے کی بہت کوشش کی مگر اٹھ ہی نہیں پایا کیوں کہ میرے کندھوں پر بھاری بیگ جو تھااور جو لوگ یہ ماجرہ دیکھ رہے تھے،وہ شور مچاتے ہوئے گاڑی کے پیچھے بھاگتے رہے اور کہتے رہے’’بچے کو بچائو بچے کو بچائو‘‘

بہت شور شرابے کے بعد گاڑی رکی،تو میں نے اپنے آپ کو سنبھالااور سائیڈ پر بھاگ نکلا۔اس روز تو ہم تینوں بچ گئے لیکن اگلے روز وہی حرکت دوہرائی۔اسکول کی چھٹی ہوئی تو ہم کل کا واقعہ بھول چکے تھے ۔اس دفعہ سوزوکی نہیں تو اونٹ گاڑی ہی سہی۔اس زمانے میں اونٹ گاڑی سامان لوڈنگ کے کام آتی تھی اور اب بھی جوڑیا بازار میں اونٹ گاڑی سے یہی کام لیا جاتاہے۔قصہ مختصر یہ کہ چھٹی کے بعد ہم انتظار کررہے تھے کہ ایک اونٹ گاڑی پر نظر پڑی۔میرے دوست جلدی سے جاکر بیٹھ گئے مگر میں پھر پھنس گیا۔اونٹ گاڑی کے اگلے ویل چوں کہ چھوٹے اور پچھلے بڑے ہوتے ہیں۔میں نے اس پر چڑھنے کی بہت کوشش کی مگر قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے ناکام رہا،آخرکار میں اوپر چڑھنے کے لیے اس بڑے ویل کے اوپر پائوں رکھا،ویل گھوم رہا تھااورمیں اس کے اوپر بیٹھا ہواتھا میری خوب چیخیں نکلنے لگیں۔اونٹ والے نے اونٹ گاڑی کو روک دیا،بس چند سیکنڈ اسی حالت میں اور گزر جاتے تو اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتا۔اللہ کا شکر ہے کہ ویل کے نیچے نہیں آیااور بچ گیالیکن میری ران اور پنڈلی دونوں بری طرح چِھل گئیں تھیں اوراس کے نشان آج بھی موجود ہیں،یہ قصہ قریباً 1995 کا ہے۔اس دن کے بعد سے میں نے شرارتیں بہت کم کردیں اور جلد بازی کی عادت بھی ترک کر دی۔اکثر آپ لوگوں نے بڑے بوڑھوں سے سنا ہوگا کہ ’’جلدی کا کام شیطان کا‘‘اسی لیے آپ بھی سمجھیںکہ جلدبازی اور شارٹ کٹ نقصان دہ ہیں۔

محمد جاوید خان غوری
About the Author: محمد جاوید خان غوری Read More Articles by محمد جاوید خان غوری: 8 Articles with 7224 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.