آزادکشمیر کی سیاست اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم

 شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ملک عرب کاایک شہنشاہ بڑا سخی اور دل والا تھا اس کی طبعیت ایسی تھی کی جی چاہے تو غریبوں کی جھولیاں بھر دے ،کسی غریب بھوکے کو پاس بٹھا کر کھانا کھلادے وغیر ہ وغیرہ ۔ایک روز شہنشاہ نے اعلان کیا کہ فلاں خدمت گار کی تنخواہ پہلے سے دوگنی کردی جائے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ وہ محنتی اورایماندار ہے اور کام بھی جی جان سے کرنے کا عادی ہے لہذا یہ اس کی انعام ہے دربار میں دوسرے خدمت گار اس سے مختلف ،کام چور اور بے ایمان تھے اور اپنے کام میں دھوکہ دہی سے کام لیتے تھے شہنشاہ کے دربار میں ایک درویش صفت انسان بھی موجود تھا جب اُس نے یہ کلمات سنے تو خوشی سے نعرے بلند کرنے لگا درباریوں نے پوچھا بھائی کیا ہوا ،کیونکہ بے خود ہوئے جارہے ہو وہ بولا میں یہ سوچ کر خوش ہوا ہوں کہ اﷲ رب العزت بھی اپنے بندوں کے درجات بلند فرماتے ہیں جیسے شہنشاہ نے اپنے خدمتگار کو ترقی دی اور کام چوروں اور بے ایمانوں کو نظر انداز کردیا اسی طرح اﷲ رب العزت بھی اپنے عبادت گاروں اورنیک بندوں کے درجات بلند کردیتے ہیں اور جو سستی برتتے ہیں محروم رہتے ہیں ۔

قارئین آزادکشمیر کی سیاسی صورتحال اس وقت انتہائی کشیدہ دکھائی دے رہی ہے اگرچہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے کشمیر کونسل اور قانون ساز اسمبلی آزادکشمیر کے مشترکہ اجلاس منعقدہ مظفرآباد کے دوران کوئی بھی ایسا اشارہ نہیں دیا کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ آزادکشمیر میں کسی قسم کی سیاسی مہم جوئی یا محاذآرائی کو فروغ دینا چاہتے ہیں یا تخت کشمیر بھی مسلم لیگ ن کی قیادت کے سپرد کرنا چاہتے ہیں لیکن سیاسی ماہرین اس وقت مسلم لیگ ن آزادکشمیر کی اعلیٰ قیادت کے اندر پائی جانے والی شدید ترین بے چینی کو مستقبل قریب میں جلد ہی ایک نئے پنڈورہ باکس کے کھلنے کے اعلان سے تعبیر کر رہے ہیں یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سابق وزیراعظم آذادکشمیر کی طرف سے ماضی قریب میں تحریک عدم اعتماد جب پیش کی گئی تو 32ارکان قانون اسمبلی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے لیے اکٹھے ہوچکے تھے اور مسلم لیگ ن آزادکشمیر کی قیادت راجہ فاروق حیدر خان سابق وزیراعظم ،شاہ غلام قادر سابق سپیکر اور چوہدری طارق فاروق ڈپٹی اپوزیشن لیڈر نے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو یقین دلایاتھا کہ چاہے کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت انہیں تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے سے روکے لیکن وہ ہرحالت میں موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی کرپٹ حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے ان کا ساتھ دیں گے بعض دوستوں اور صحافتی حلقوں نے یہاں تک جملہ نقل کیا کہ سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان اپنی چھاتی پر ہاتھ مار کر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو یہ کہا کہ ’’یہ ایک راجپوت کاوعدہ ہے کہ وہ ہر حال میں آپ کاساتھ دے گا ‘‘سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری متعدد بار مسلم لیگ ن آزادکشمیر کی قیادت سے یہ کہتے رہے کہ بے شک میاں شہباز شریف ،راجہ ظفرالحق ،صدیق الفاروق اور خرم دستگیر سمیت مسلم لیگ ن کے دیگر مرکزی راہنما تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرچکے ہیں لیکن جب تک وزیراعظم پاکستان اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نوازشریف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اثباتی اشارہ نہیں دیتے تب تک تحریک عدم اعتماد پیش نہ کی جائے لیکن جب ’’ راجپوتی وعدہ ‘‘ کیا گیا تو بیرسٹر سلطان محمود چوہدری مطمئن ہوگئے اور تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی اس وقت صاف دکھائی دے رہاتھا کہ حکومت کے پاس صرف 17ارکان اسمبلی باقی رہ گئے ہیں اور بقیہ 32ارکان اسمبلی چوہدری عبدالمجید کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے پر اکٹھے ہوچکے ہیں صحافتی زرائع نے اس حوالے سے معلومات دیتے ہوئے بتایا کہ راتوں رات وفاقی وزیر اطلاعا ت پرویز رشید سے قربت رکھنے والے دو با اثر صحافیوں کے ذریعے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف تک تمام صورتحال کچھ اس انداز میں پہنچائی کہ جس کا لب لباب یہ تھا کہ میاں محمد نوا ز شریف وزیراعظم پاکستان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ آزادکشمیر جیسے ایک چھوٹے علاقے میں ’’ سیاسی پوائنٹ سکورنگ ‘‘ یا ’’ تخت الٹنے ‘‘ جیسی حرکت کر کے اپنے دامن پر دھبا لگوانے کی غلطی کریں ۔پرویز رشید چونکہ سیاسی جلاوطنی کے دوران میاں محمد نواز شریف کا کھل کر ساتھ دیتے رہے اور ان کے لندن آفس سمیت دیگر معاملات کو بھی دیکھتے رہے اس لیے میاں محمد نواز شریف ان کی رائے کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں آخری مرحلے پر وزیر اطلاعات پرویز رشید ہی نے قومی میڈیا پر اعلان کیا کہ میاں محمد نواز شریف نے مسلم لیگ ن آزادکشمیر کو سختی سے یہ ہدایت کی ہے کہ بیرسٹر سلطان محمود اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد میں ہر گز حصہ نہ لیں اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے انتہائی سپاٹ انداز میں یہ دبنگ اعلان بھی کیا کہ میاں محمد نواز شریف کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے کسی رکن اسمبلی نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی اس اعلان نے مسلم لیگ ن آزادکشمیر کی قیادت پر سکتہ طاری کر دیا اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے ساتھیوں نے آخری وقت میں چوبیس گھنٹے قبل تحریک عدم اعتماد واپس لے لی ۔بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سابق وزیراعظم آزادکشمیر کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا کہ جب تک وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سربراہ مسلم لیگ ن تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے حوالے سے اپنی رضا مندی نہ دیں تب تک ’’ بلی کو تھیلے ‘‘ سے باہر نہ نکالا جائے لیکن ’’ راجپوتی وعدے ‘‘ اور ’’چھاتی ٹھونک حمایت ‘‘ کے جھانسے میں آ کر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو وہ سبکی برداشت کرنا پڑی جس کا وہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے او ر اس پر مزید ظلم یہ ہوا کہ آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر اسلام آباد میں پاکستان کی تمام سیاسی و عسکری قیادت کے سامنے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے آزادکشمیر کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے یہ الفاظ ادا کر دیئے کہ ’’ آزادکشمیر میں کوئی صاحب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے اور مجھے ان صاحب کا نام بھی نہیں معلوم کہ جو اپنے آپ کو آئندہ وزیراعظم بھی نامزد کر بیٹھے تھے ہم نے سیاسی مفاہمت اور دوسری سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کو ترجیح دی اور بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی طرح آزادکشمیر میں بھی سیاسی رواداری کی اعلیٰ ترین مثال قائم کر دی ہے ‘‘ ۔سلسلہ یہیں پر نہ رکا جب وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کے اپنے حلقہ انتخاب چکسواری ایل اے ٹو میں رئیل سٹیٹ کنگ او ر ان کے سیاسی حریف چوہدری محمد انور نے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے اعزاز میں ایک تاریخی جلسہ منعقد کیا تو اس وقت چوہدری عبدالمجید کی حالت دیکھنے کے لائق تھی چکسواری کے مقام پر منعقدہ اس جلسے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے لیے وہ زبان استعمال کی گئی کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے اگرچہ وہ خود ایسی زبان اکثر اوقات استعمال کرتے رہتے ہیں جو شائستگی کے زمرے میں نہیں آتی اور ان کی اس ’’ بد تہذیبی اور نازیبا گفتگو ‘‘ کا نشانہ اکثر اوقات ان کی اپنی کیبنٹ کے وزراء ،اعلیٰ افسران ،بیوروکریٹس اور گزشتہ کچھ عرصہ سے صحافتی حلقے بھی بنتے رہتے ہیں اور یہاں تک بات سامنے آئی ہے کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیاد ت اور محترمہ فریال تالپور جو آزادکشمیر کے سیاسی امور کی سربراہ ہیں ان تک تحریک عدم اعتماد کے دوران مستعفی ہونے والے وزراء نے کھلے انداز میں یہ شکایت بھی پہنچائی تھی کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید عام گفتگو میں غصے میں آ جاتے ہیں اور اس غصے کے دوران وہ وزراء اور اعلیٰ بیو رو کریسی کے افسران کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں جس پر محترمہ فریال تالپور نے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو شدید ترین سرزنش بھی کی تھی چکسواری کے جلسے نے جہاں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے پایہ اقتدار کو ہلا کر رکھ دیا تھا اسی موقع پر اسلام آباد میں او آئی سی کے نمائندگان کی ایک کانفرنس منعقد ہو رہی تھی اور اس کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنے خطاب میں چوہدری عبدالمجید کو اپنا بڑا بھائی قرار دیتے ہوئے انہیں ’’ میرا وزیراعظم ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا اس پر مسلم لیگ ن آزادکشمیر کی تمام اعلیٰ قیادت جیسے سکتے میں آ گئی اور پیرا نہ سالی کے باوجود سالار جمہوریت سابق صدر و وزیراعظم آزادکشمیر سردار سکندر حیات خان نے مسلم لیگ ن کے مرکزی چیئرمین راجہ ظفرالحق کی موجودگی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو ’’ وارننگ نما احتجاج ‘‘ ریکارڈ کرواتے ہوئے شدید ترین الفاظ میں مجاور حکومت کی کرپشن کی مذمت کی ۔
قارئین یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور ان کے پانچ پیاروں کے خلاف جو چارج شیٹ تیار کی گئی ہے اس میں ’’ پانچ ارب روپے مالیت کا کلک اینڈ کلک سکینڈل ،دو ارب روپے کا جناح ماڈل ٹاؤن سکینڈل ،میڈیکل کالجز سکینڈل ‘‘ سمیت دیگر سکینڈلز شامل ہیں ۔اس حوالے سے مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے سربراہ اور سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان ،مسلم کانفرنس کے صدر و سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان ،چوہدری طارق فاروق ڈپٹی اپوزیشن لیڈر ،شاہ غلام قادر اور تمام سیاسی قیادت متفق ہے کہ آزادکشمیر میں چوہدری عبدالمجید کی حکومت نے گزشتہ اڑھائی سال کے عرصے میں اربوں روپے کی کرپشن کی ہے او رمیگا پراجیکٹس کے نام پر در حقیقت میگا کرپشن کے منصوبے بنائے گئے ہیں اس حوالے سے مسلم کانفرنس کے صدر و سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان کا بیان بھی انتہائی دلچسپ ہے جس میں انہوں نے میاں محمد نواز شریف کی طر ف سے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو اپنا وزیراعظم قرار دینے کو ’’ چوروں کو کلین چٹ‘‘ جاری کرنے کے مترادف قرار دیا اور اس کے شدید ترین مذمت کی یہاں ہم سردار عتیق احمد خان کے اس طعنے کا تذکرہ بھی کرتے چلیں جس میں انہوں نے کھلے انداز میں مسلم لیگ ن آزادکشمیر کی قیادت کو اس طریقے سے بے توقیر کرنے پر دوبارہ مسلم کانفرنس میں واپسی کی دعوت دی ہے آزادکشمیر میں اس وقت سیاسی صورتحال انتہائی پیچیدہ دکھائی دے رہی ہے اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید خود پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کا جواب دینے سے قاصر دکھائی دے رہے ہیں اور ان کے اپنے حلقے میں اس وقت رئیل سٹیٹ کنگ چوہدری انور ان کے طاقت ور ترین حریف بن کر ابھرے ہیں اور انہوں نے اپنے فرزند چوہدری ظفر انور کو آئندہ الیکشن میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے مقابلے میں کھڑا کرنے کا اعلان کیا ہے یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید گزشتہ دنوں اپنے آبائی علاقے چکسواری آئے تو اہلیان علاقہ نے انہیں ملنے کی زحمت تک گوارہ نہ کی اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اپنے حلقے کے مختلف لوگوں کو فون کر کے انہیں اپنے استقبال یا ملاقات کی درخواست کرتے رہے ۔

قارئین یہ سب صورتحال اس نوعیت کی ہے کہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے مسلم لیگ ن آزادکشمیر کو انتہائی مشکل صورتحال میں بیچ منجدھار تنہا کھڑا کر دیا ہے اور چوہدری عبدالمجید کو اپنا وزیراعظم قرار دے کر مسلم لیگ ن آزادکشمیر میں شدید ترین احتجاجی صورتحال پیدا کر دی ہے آنے والے چند دنوں میں سیاسی ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں کہ ان ہاؤس تبدیلی کا عمل دوبارہ شروع ہو گا اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اس عمل میں دوبارہ اہم ترین کردار ادا کریں گے ۔بقول غالب یہاں ہم یہ کہتے چلیں

حُسن ،غمزے کی کشاکش سے چُھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد
منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہُوئی معزولی انداز و ادا میرے بعد
شمع بجھتی ہے تو اس میں دھواں اُٹھتا ہے
شعلہ عشق سیہ پوش ہُوا میرے بعد
خُوں ہے دل خاک میں احوالِ بُتاں پر یعنی
اُن کے ناخن ہُوئے محتاجِ حنا میرے بعد
درخورِ عرض نہیں ،جو ہرے داد کو ،جا
نگہِ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد
ہے جنون ،اہل جنون کے لیے آغوش و داع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جُدا میرے بعد
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگنِ عشق
ہے مکر ر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد
غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی
کہ کرے تعزیت ِ مہر و وفا میرے بعد
آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد

قارئین یہاں پر ہم کچھ تذکرہ مقبوضہ کشمیر کی لہو لہو وادی کا بھی کرتے چلیں راقم کے دوست اور صحافت میں ہمارے استاد گرامی سینئر صحافی راجہ حبیب اﷲ خان رواں ہفتے مقبوضہ کشمیر کے پندرہ روزہ دورے کے بعد میرپور واپس آئے اور ’’ یادوں کی ایک بارات ‘‘انہوں نے ہمارے ساتھ شیئر کی ۔راجہ حبیب اﷲ خان نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کے ہر شہر سے شہیدوں کی باراتوں نے کشمیر کی آزادی کا پیغام پوری دنیا کو دیدیا ہے سری نگر سے لے کر بارہ مولہ تک اور جموں سے لے کر سوپور تک مقبوضہ کشمیر کا چپہ چپہ شہیدوں کے خون سے رنگین ہے میں نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا ہے کہ لاکھوں بھارتی فوجی بھی نہتے کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو سرد کرنے سے قاصر ہیں سرینگر میں تو صورتحال یہاں تک دیکھنے میں آتی ہے کہ کشمیری نوجوان پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے لال چوک میں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور فلک شگاف نعرے بلند ہوتے ہیں پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الا اﷲ ، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ ۔ بھارت اس وقت تحریک آزادی کشمیر کے ہاتھوں بری طرح تنگ ہے اور لاکھوں کشمیری شہداء نے بھارتی فوجی قوت کو اپنے جذبہ ایمانی سے شکست دیدی ہے راجہ حبیب اﷲ خان نے کہاکہ جموں سے لے کر سرینگر تک مقبوضہ کشمیر میں 22کے قریب اضلاع میں ہر طرف بھارت نے اگرچہ کشمیریوں کو آزادی کے نعرے سے دستبردار کرنے کے لئے زبردست ترقیاتی کام کروائے ہیں اور کشمیریوں کو مال ودولت سے خریدنے کی کوشش کی ہے لیکن ڈیڑھ کروڑ کے قریب کشمیری آزادی کے علاوہ کسی بھی آپشن پر غور کرنے کے لئے رضا مند نہیں ہیں راجہ حبیب اﷲ خان نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر کے پندرہ روزہ تفصیلی دورے کے دوران میں نے انتہائی قریب سے کشمیریوں کی نفسیات اور بھارتی مظالم کے نتائج جاننے کی کوشش کی ہے اور میں یہ بات فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ کشمیری پاکستان سے محبت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں اور بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ماضی میں بھی بڑی سے بڑی قربانیاں دیتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ہر طرح کی قربانی دینے کاعزم رکھتے ہیں۔ایف ایم 93میرپور ریڈویو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے راجہ حبیب اﷲ خان نے کہاکہ اس وقت بھارت خونی لکیر لائن آف کنٹرول کو 198کلو میٹر طویل مستقل دیوار کے ذریعے مستقل حد بندی کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر مستقل دیوار کی تعمیر کے خلاف شدید ترین نفرت اور ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے بھارت کشمیری آزادی پسندوں سے اس حد تک خائف ہے کہ اس نے مقبوضہ کشمیر کو ایک جیل میں تبدیل کر رکھا ہے عالمی برادری کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر اسے ایک ذمہ دار ملک کی طرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے پر مجبور کرے راجہ حبیب اﷲ خان نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیری پاکستان اور آزاد کشمیر سے آنے والے مہمانوں سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں اور ان کی عقیدت ومحبت کایہ عالم ہے کہ پاکستان سے آنے والی کسی بھی اچھی خبر کا سب سے پہلے جشن مقبوضہ کشمیر میں منایا جاتا ہے راجہ حبیب اﷲ خان نے کہاکہ پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور دفتر خارجہ کو اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز میں ادا کرنا ہونگی اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کسی طرح عالمی برادری کو باور کرایا جائے کہ کشمیری ایک قوم ہیں اور انہیں اپنی آزادی کاکیس پوری دنیا کے سامنے خود پیش کرنے کاموقع دیا جائے راجہ حبیب اﷲ خان نے کہاکہ میرے لئے انتہائی اعزاز کی بات ہے کہ کئی نسلیں گزر جانے کے بعد میں نے اپنے آباؤ اجداد کے وطن کو 1846کے بعد آج 2013ء میں خود جا کر دیکھا میں تمام پاکستانی اور کشمیری ہم وطنوں سے گزار ش کرتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم بہن بھائیوں کو ہمیشہ یاد رکھیں اور ماضی کی طرح آج اور آئندہ بھی کشمیر کی آزادی کے لئے تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر عملی جدوجہد جاری رکھیں

قارئین!آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ کہا جاتا ہے اور یہاں غازی ملت سردار ابراہیم خان مرحوم، عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم، کے۔ ایچ خورشید ایڈووکیٹ مرحوم، پروفیسر خان زمان مرزا مرحوم، مجاہداول سردار عبدالقیوم خان ،سابق چیف جسٹس عبدالمجید ملک، سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان، سابق وزیراعظم ممتاز حسین راٹھور مرحوم سمیت دیگر قدآور سیاسی علمی وادبی قومی شخصیات تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے اپنا اپنا کردار ادا کرتی رہیں اب بقول ناقدین مجاور وزیراعظم آزادکشمیر اور بقول ان کے حامیوں ’’چور بھی کہے چور چور ‘‘ پر اپوزیشن ٹولے کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اقتدار کی چاہت اور سیاست کے بے رحم کھیل میں وہ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک بھارتی فوجی جنگ کے بعد دوسرے فوجیوں کو اپنی بہادری کے قصے سنا رہاتھا اس نے کہا
’’میں جنگ کے دنوں میں اپنی محبوبہ کو روزانہ خط لکھتا تھا ‘‘
باقی فوجیوں نے تجسس سے پوچھا
’’پھر کیا ہوا ‘‘
فوجی نے مایوسی سے جواب دیا
’’ہونا کیاتھا جب محاذ جنگ سے واپس آیا تو وہ لڑکی پوسٹ مین سے شادی کرچکی تھی ‘‘

قارئین یوں لگتا ہے کہ چوہدری عبدالمجید کے خلاف چار ج شیٹ لے جانے والے پوسٹ مینوں نے میاں محمد نوازشریف کی رشتہ داری چوہدری عبدالمجیدسے کروا دی ہے اﷲ مسلم لیگ ن آزادکشمیر اور پوری کشمیری قوم کے حال پر رحم فرمائے

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374212 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More