عقل اور قسمت-بہت زبردست کہانی ضرور پڑھے

ایک بار عقل اور بخت کی آپس میں تکرار ہوگئی۔ عقل نے کہا ’’میں طاقتور ہوں‘‘ بخت نے کہا ’’میں زبردست ہوں‘‘ آخر انہوں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ کسی آدمی کے ذریعے اپنا زور آزماتے ہیں ۔ خودبخود پتہ چل جائے گا کہ کون طاقتور ہے۔ ایک چرواہا کسی بڑے زمیندار کی بکریاں چراتا تھا۔ رات دن بکریوں کے ساتھ رہتا تھا اس کی ساری عادتیں بکریوں جیسی ہوگئی تھیں وہ پانی بھی بکریوں کی طرح اوندھا ہو کر پیتا تھا اور کھانا بھی انہی کی طرح کھاتا تھا۔اس ملک کے بادشاہ کی بیٹی بہت خوبصورت اور دلکش تھی اسے شہزادی کی شادی کرنی تھی۔ آس پاس کے سارے ملکوں کے بادشاہ شہزادی سے شادی کرنے کے خواہش مند تھے۔ بادشاہ نے سوچا اگر کسی ایک ملک کے شہزادے یا بادشاہ سے اس کی شادی کروں گا تو دوسرے ملکوں کے حکمران ناراض ہوجائیں گے۔ ہمارا مقصد تو نیک کام ہے کسی سے لڑائی جھگڑا کرنا نہیں کیوں نہ ایسی چال چلی جائے کہ ’’لعل بھی مل جائے اور محبت بھی رہ جائے‘‘ سو اس نے وزیر سے مشورہ کرنے کے بعد ملک بھرمیں اعلان کرادیا کہ ’’فلاں دن فلاں میدان میں گڑوی گھمائی جائے گی اور جس شخص پر گڑوی ٹھہرے گی اسی سے شہزادی کی شادی کی جائے گی۔ عقل اور بخت چرواہا کے ساتھ ساتھ اس میدان میں پہنچے۔ بخت نے عقل سے کہا ’’اب میرا کمال دیکھو میں چرواہے کا ساتھی بن رہا ہوں پھر مان لینا کہ کون طاقتور ہے۔ عقل نے کہا ’’دیکھا جائے گا تم اپنا کام دکھائو‘‘ میدان میں جب سب جمع ہوگئے تو بادشاہ نے گڑوی گھمانے کا حکم دیا۔ گڑوی گھومتی ہوئی سیدھی چرواہے کے سامنے آکر رُکی جس کا منہ سر مٹی مٹی تھا کپڑے پھٹے پرانے تھے۔ دوسرے ملکوں کے بادشاہ اور شہزادے حیران تھے کہ اتنی حسین و جمیل شہزادی کی شادی اس غریب سے ہوگی ۔ خود بادشاہ بھی حیران و پریشان تھا۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ گڑوی دوبارہ گھمائی جائے۔ گڑوی دوبارہ گھمائی گئی اور خدا کی قدرت سے وہ پھر چرواہے کے سامنے آکر رُکی۔ بادشاہ نے تقدیر کا فیصلہ سمجھ کراسے اپنا دامادقبول کرلیا۔ چرواہے کو غسل کے بعد بہترین کپڑے پہنائے گئے اور بنا سنوارکے اسے بادشاہ کے پاس لایاگیا اور بادشاہ نے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردی۔ نکاح کے بعد چرواہے کو کھانا ملا جو اس نے اپنی عادت کے مطابق بکریوں کی طرح اُلٹا لیٹ کر کھایا، تمام لوگ اسے حیران ہو کر دیکھتے رہے۔ کھانے کے بعد کنیزیں اسے شہزادی کے پاس چھوڑ آئیں وہ وہاں بھی چرواہوں والی آوازیں دیتا رہا۔ بچاری شہزادی کو بہت دُکھ ہوا وہ اُداس اور خاموش بیٹھی اس کی سب حرکتیں دیکھتی رہی۔پھر اس نتیجے پر پہنچی کہ چرواہے میں ذرہ برابر بھی عقل نہیں ہے۔ کیوں نہ اس سے تین سوال پوچھوں اگر غلط جواب دے گا تو اسے پھانسی چڑھوا دوں گی اور میری جا ن آزاد ہوجائے گی یہ سوچ کر اس بے چاری شہزادی نے چرواہے سے کہا ’’تم سے سوال پوچھتی ہوں اگر تم نے درست جواب دیئے تو ٹھیک ، ورنہ تم کو پھانسی کی سزا ملے گی۔‘‘ چرواہے نے بلاسوچے سمجھے شہزادی کی بات تسلیم کرلی۔ شہزادی نے پوچھا’’بتائو ۔۔۔ پیٹ کس کا اچھا ہے۔ پانی کس کا اچھا ہے ، پھول کون سا اچھا ہے۔۔۔؟ چرواہے نے کہا ’’پیٹ مچھلی کا اچھا، پانی لکڑی کا اچھا، پھول گوبھی کا اچھا۔‘‘ چرواہے کے اُلٹے جواب سن کر شہزادی غصے سے آگ بگولا ہوگئی اور فی الفور وزیر کو بلا کر حکم دیا کہ ’’اس بے وقوف کو لے جاکر پھانسی پر چڑھادو۔‘‘ عقل او ربخت دونوں یہ تماشا دیکھ رہے تھے کہ اب یہ مرے گا ۔ عقل نے بخت سے کہا ’’تم نے اس کے ساتھ بھلائی کی کہ اس کی شادی شہزادی سے کرائی۔۔ مگر ایسا بخت کس کام کا کہ شادی کی رات ہی اسے پھانسی چڑھا دیا جائے۔۔ اب ہمت کرو اور اس کی مدد کرو۔‘‘ بخت نے کہا ’’میری جتنی طاقت تھی وہ میں نے دکھادی اب یہ جانے اور اس کا مقدر‘‘ اس پر عقل نے کہا کہ ’’میں اس کی جان بچا کر دکھاتی ہوں۔۔ اب تم میرا ہنر دیکھو‘‘ یہ کہہ کر عقل چرواہے کے دماغ میں جاکر بیٹھ گئی اور چرواہا یکدم ہوش و حواس میں آگیا اس نے وزیر سے پوچھا’’آپ مجھے کہاں لے جارہے ہیں‘‘ وزیر نے اسے شہزادی کے حکم سمیت ساری بات بتائی، جس پر چرواہے نے سوچاکہ اگر اب ہمت نہ کی اور عقل سے کام نہ لیا تو مارا جائوں گا۔ کیوں نہ کسی طریقے سے جان بچائی جائے، اس نے وزیر سے کہا ’’محترم وزیر ! شہزادی کا حکم سر آنکھوں پر مگر مرنے سے پہلے مجھے ایک بار بادشاہ سے ملوادو! پھر تم مجھے خوشی سے پھانسی چڑھا دینا۔‘‘ وزیر نے اس کی بات مان لی اور اسے بادشاہ کے حضور پیش کردیا۔بادشاہ نے پوچھا’’۔۔۔ کیا بات ہے۔۔۔ کیسے آنا ہوا‘‘ چرواہے نے کہا ’’بادشاہ سلامت! آپ نے اپنی خوشی سے شہزادی سے میری شادی کرائی ہے اور شادی کی رات ہی کسی کو پھانسی چڑھانا کہاں کا انصاف ہے‘‘بادشاہ نے جواب طلب نظروں سے وزیر کو دیکھا۔وزیرنے سر جھکا کر کہا ’’بادشاہ سلامت آپ ہمیشہ سلامت رہیں ۔ شہزادی صاحبہ کا حکم ہے کہ یہ احمق ہے اسی لیے اسے پھانسی چڑھایا جائے۔ بادشاہ نے شہزادی کو طلب کیا اور اس سے واقعہ پوچھا۔ شہزادی نے بادشاہ کو بتایا’’قبلہ حضور!ہم نے شرط رکھی اور اس نے میرے سوالوں کے درست جواب نہیں دیئے اس لیے ہم نے پھانسی کا حکم دیا۔‘‘ بادشاہ نے حکم دیا کہ ’’وہ سوال ہمارے سامنے پوچھے جائیں اگر درست جواب دے تو ٹھیک ۔۔۔ ورنہ اسے پھانسی چڑھادینا۔‘‘ شہزادی نے پہلا سوال کیا ’’پیٹ کس کا اچھا ہے؟ چرواہے نے کہا ’’پیٹ دھرتی کا اچھا ہے جس میں سب کچھ سماجاتا ہے‘‘ شہزادی نے دوسرا سوال کیا ’’پانی کس کا اچھا ہے‘‘ چرواہے نے کہا ’’پانی بارش کا اچھا ہے جس پر سانس لینے والی ساری مخلوق کی زندگی کا انحصار ہے۔‘‘ شہزادی نے تیسرا سوال کیا ’’پھول کس کا اچھا ہے‘‘ چرواہے نے جواب دیا ’’کپاس کا پھول سب سے اچھا ہے جوساری مخلوق کا تن ڈھانپتا ہے۔‘‘ یہ جواب سن کر بادشاہ نے کہا ’’بیٹی یہ سب باتیں تو عقل مندوں کی ہیں ۔ شہزادی نے شرمندہ ہو کر اپنے شوہر سے معافی مانگی اور پھر وہ خوش گوار زندگی گزارنے لگے۔ یہ دیکھ کر بخت نے عقل سے کہا ’’اے عقل۔۔ تم بلاشبہ مجھ سے طاقتور ہو میں کچھ بھی نہیں ہوں‘‘ وہ دونوں راضی خوشی اچھے دوستوں کی طرح ساتھ ساتھ رہنے لگے ٭٭٭٭

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 274427 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More