نقاش کاظمی ’’چاندنی اور سمندر‘‘ سے ’’رُخِ سیلاب تک‘‘

چاندنی اور سمندر‘ نقاش کاظمی کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ کلام میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی دونوں اصناف سخن میں شاعر نے فکر و فن کا جادو جگایا ہے اور جو توقعات ایک ابھرتے ہوئے خوش فکر شاعر سے وابستہ ہوسکتی ہیں وہ کافی حد تک پوری ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر ابو الخیر کشفی نے چاندنی اور سمندر کے حوالے سے ایک جگہ لکھا ہے کہ چاندنی علم کا اشارہ ہے اور سمندر زندگی کا لیکن میرا تاثر یہ ہے کہ چاندنی نقاش کاظمی کی افتادِ طبع کا استعارہ ہے اور سمندر زمانی و مکانی مدو جزر کی علامت‘ حالات ‘ واقعات‘ واردات اور سانحات خواہ کیسے بھی ہوں ان سب کا تجزیہ ہم اپنی فعال داخلیت کے پیمانے سے کرتے ہیں۔ نقاش کاظمی کی ذہنی تربیت اور ان کی افتادِ طبع کو عصری آگہی کے سانچے میں ڈھالنے کا عمل ۱۹۴۷ء سے اب تک کے ان حالات کا ثمرہ ہے جو تضادات و فسادات اور سیاسی و معاشرتی ناہمواریوں سے عبارت رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ چاندنی اور سمندر کا ایک رشتہ یوں بھی ہے کہ چاند جیسے جیسے ہلال کی منزل سے بدر کامل کے مرحلے تک آتا ہے۔ اس کی چاندنی سمندر کی موجوں میں ارتعاش پیدا کرنے کی محرک بنتی ہے۔ خصوصاً چودھویں کے چاند کی جانب تو سمندر اس طرح ہمکتا ہے کہ کہیں کہیں اس کی موجیں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
نقاش کاظمی کی افتادِ طبع علم و ادب اور شعور و آگہی کے اجالوں سے بہرہ ور ہوتی ہوئی چودھویں کی چاندنی کا روپ دھار چکی ہے۔ اس لئے زمانی و مکانی حقائق کے سمندر کا ہیجانی تموج اس کے ذہنی افق پر اس طرح منعکس ہوتا رہا کہ خود اس کی داخلیت میں ایسی ہیجانی کیفیت رونما ہوئیں کہ جنہوں نے شعر و ادب کی تخلیقی سطح پر کبھی کسی نظم کی صورت اختیار کی اور کبھی کسی غزل کی سج دھج میں نمودار ہوئیں۔
مجھے فیض صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ’’نقاش کاظمی کی شاعری کو سن کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فنکار کی عظمت و بزرگی اس کے سن و سال سے نہیں بلکہ اس کے فکر و فن سے ہے ان کی شاعری میں دوسروں کی انگلی پکڑ کر چلنے والی بات نہیں۔‘‘
ممکن ہے یہ خود اعتمادی و خودروی نقاش کاظمی کی شاعری میں کشفی صاحب کے بقول ’’واضح جانبداری اور کمٹ منٹ‘‘ کا شاعر ہونے سے پیدا ہوئی ہو تا ہم ان کی اپنی آواز کے منفرد لہجے اور واضح نظریئے کے باوجود میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ شاعری بنیادی طور پر شاعری ہوتی ہے۔ کسی نظریئے کسی کمٹمنٹ‘ کسی فلسفے اور کسی جانبداری کو شاعری کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
نقاش کاظمی نے اگر صرف ایسی نظمیں تخلیق کی ہوتیں جو کچھ دنوں کے بعد باسی ہوجائیں اور ان کی تاثریت کوئی دیر پا اثر نہ چھوڑتی تو ان کے حصے میں کمٹ منٹ اور نظریہ تو رہ جاتا شاعر ی دم توڑ جاتی مگر ایسا نہیں ہوا ۱۹۶۸ء سے اب تک کی نظمیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ انہوں نے فن شاعری کے آداب اور قواعد رسمیہ کاخیال رکھتے ہوئے متعلقہ موضوع کو تخلیقی گرفت میں لیا ہے مثال کے طور پر ’’چاندنی اور سمندر‘‘ کی پہلی نظم نذر جامعہ کے عنوان پر اس طرح شروع ہوتی ہے ؎
علم و دانش کے خزینوں کا سمندر لکھوں
تیری عظمت کے تقدس کے میں دفتر لکھوں
جامعہ میں تجھے نسلوں کا مقدر لکھوں
علم و دانش کے خزینوں کا سمندر اور نسلوں کا مقدر جیسے مرکبات لفظی یہ باور کرانے کے لئے کافی ہیں کہ ان کے ذہن میں لفظیات کا وہ تصور موجود ہے جو شاعری میں زبان و بیان کی لطافتوں کا مظہر ہوتا ہے۔
زبان کی موزونیت‘ مناسب شعری ہئیت (Proper form)اور موضوع کی مناسبت سے حسیاتی و فکری نفس مضمون وہ اہم عناصر ہیں جو شاعری کو وقیع بناتے ہیں۔
نقاش کاظمی نے ان بنیادی عناصر کی شاعرانہ ترتیب و تزئین سے اپنی نظموں میں وہ صوتی و معنوی حسن پیدا کیا ہے جو چودھویں کی چاندنی اور سمندر کے مدو جزر کی کیفیت میں ہوتا ہے۔
یہ مختصر سا جائزہ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ان تمام نظموں کے محاسن شعری پر سیر حاصل تبصرہ کر سکوں جو متنوع موضوعات پر دل آویز بھی ہیں اور فکر انگیز بھی۔
ناخنِ گل‘ سردشتِ وفا‘ شہر شکست‘ شکستِ حوصلہ ٔشب‘ وقت کی آواز‘ چمکیلے موسموں کا آخری منظر‘ ایک فلسطینی بچے کی فریاد اور چراغ تلے جیسی شاندار نظمیں کہنے والا شاعر یہ کہے کہ ایک دنیا دم توڑ رہی ہے دوسری جنم لے رہی ہے اور ہم دونوں کے درمیان حیران و پریشان کھڑے ہیں۔ ہمیں اس کی حیرانی و پریشانی سے اتنا سروکار نہیں جتنا اس بات سے ہے کہ جب اس نے ٹیلی فون اور بجلی کے سر کٹ کی جھنجھناہٹ میں گھرے ہوئے ذہن کو شاعری کے ذوق و شوق سے بھی ہمکنار کر رکھا ہے اور جو منظومات اب تک اس نے تخلیق کی ہیں ‘ آیا وہ ہماری شاعری میں کسی روشن امکان کی نشاندہی کرتی ہیں یا نہیں۔ مجھے تو اس سوال کا جواب اثبات میں ملا ہے اور میں وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ’’رخِ سیلاب‘‘ کے منظر عام پر آنے سے پہلے نقاش کاظمی کے پاس تازہ بتازہ نظموں کا ایسا خوبصورت ذخیرہ ہوگا جو اس کی شاعری کے نقش ثانی کو یقیناً فکر و فن کے جدید اور جدید ترین تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکے۔ ہمارے شاعروں میں کم ہی شاعر ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے نظم اور غزل دونوں اصناف شاعری کو ایک ہی سی تخلیقی لگن سے برتا ہو عموماً شعری مجموعوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جن شاعروں نے نظمیں بڑی اچھی لکھیں وہ غزل کے میدان میں اپنے جھنڈے نہ گاڑ سکے اور جو غزل گوئی میں کمال کو پہنچے وہ اچھی نظمیں لکھنے میں ناکام رہے مگرنقاش کاظمی کی نظموں میں جو بانکپن ہے وہ غزلوں کی صورت میں بھی اپنی انفرادیت اور طرح داری کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ مثال کے طور پر مختلف غزلوں سے اخذ کئے ہوئے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ ؎
شیشے لہولہان پڑے ہیں جو فرش پر
کھڑکی پہ کوئی مار کے پتھر چلا گیا
ٹھہرا تھا آکے ایک مسافر کبھی یہاں
پھر شہرِ تن کو آگ لگا کے چلا گیا

اب تو منزل پہ پہنچ کر یہ ہوا ہے احساس
ساتھ ہوتا نہیں ہر ساتھ میں چلنے والا

جب اپنے پائوں میں زنجیر پڑ گئی ہے تو پھر
چلا تو جاتا نہیں گرد ہی اڑانے دے
مقتلِ جاں میں آتو گئے ہم لیکن اب اس سوچ میں ہیں
کون سخن آغاز کرے گا پہلے تیر انداز کہ دل

سورج کی تیز دھوپ سے شاید اماں ملے
رکتی ہے غم کی دھوپ کہیں سائبان سے

عریاں ہوئی جو دھوپ چٹخنے لگے بدن
بارش کے بعد جیسے پرانی عمارتیں

غم فراق میں آنکھیں تو ریزہ ریزہ ہوئیں
جو آنسو شیشہ بنے ٹوٹ کر بکھر نہ سکے

صبح تک اک نئے عزم سے گایا جائے
کوئی نغمہ شبِ تاریک میں بیداری کا
ایک معقول غزل گو کے لئے عہد ِحاضر میں جو رموز و علائم عصری آگہی اور جدید حسیت کے ساختہ و پرداختہ ہوسکتے ہیں۔ نقاش کاظمی نے انہیں اپنی غزلوں میں بڑے سلیقے سے برتا ہے۔ رمزیت‘ اشاریت‘ جامعیت‘ نشتریت‘ دروں بینی اور مجموعی طور پر ایمائیت کا التزام‘ غزل گوئی کی جمالیاتی قدروں کو اجاگر کرنے میں کیا کردار ادا کرتا ہے اس پر کچھ کہنا سردست ضروری نہیں۔ ہاں نقاش صاحب کی غزلوں کو دیکھ کر یہ ضرور کہہ سکتا ہوں انہوں نے اس محبوب صنفِ سخن کی تہذیب رسمِ عاشقی کا لحاظ رکھتے ہوئے جدت طرازی کا حق ادا کیا ہے اور فکری و فنی پختگی کے وسیع تر امکانات کی جانب ان کا سفر ہرن پر گھاس لادنے والا سفر نہیں ہے بلکہ اس سفر کی رفتار میں موجیں مارتے ہوئے بحر ذخار میں چاندنی کی چہل قدمی کا سماں ہے۔ نقاش کاظمی نے اپنے کلام کو ایسے معائب سے پاک رکھا ہے جنہیں کچھ مخصوص قسم کے جدید اور جدید ترین شعراء نے جدت پسندی کا معیار سمجھا ہوا ہے۔
(ماہنامہ ادبی ڈائجسٹ مارچ اپریل۱۹۸۵ء)

ڈاکٹراسلم فرّخی
نقاش کاظمی۔ فن و شخصیت
پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوںتو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جگ بیت گئے حالانکہ بہت وقت نہیںگزرا صرف اکیس برس پہلے کی بات ہے ایک تعلیمی سال ختم ہوا ۔ نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوا کہ پہلے یہی دستور تھا ۔ اچھے دن تھے ۔ تعلیمی سال وقت پر یعنی سال کے سال ختم ہوتے تھے ۔ اور سال بہ سال شروع ہوتے تھے بہت سے طالب علم ایم اے کے امتحان میں کامیاب ہو کررخصت ہوگئے۔ ان کی جگہ بہت سے نئے طالب علم شعبے میں آپہنچے اس زمانے میں روزنامہ جنگ کراچی میں طالب علموں کا ایک صفحہ شائع ہوتاتھا اس صفحے پر دو نظمیں پہلو بہ پہلو شائع ہوئیں ایک جامعہ سے رخصت کے موضوع پر رنج و ملال میں ڈوبی ہوئی نظم ‘ دوسری جامعہ سے وابستگی اور تعلق استوار ہونے پر عزم حوصلے اور کچھ کر گزرنے کے جذبے کی عکاس خوبصورت اور پر اثر نظم ۔ یہ دوسری نظم بڑی معنی خیز اور نوجوان ذہن کے ولولوں سے لبریز تھی اسی دن یا دو ایک دن کے بعد کی بات ہے ۔ کلاس میں طالب علموںکے نام لکھ رہاتھا ۔ طالب علم باری باری کھڑے ہو کر اپنے نام لکھواتے تھے ایک صاحب کھڑے ہوئے ‘ لمبا قد‘ دہرا بدن‘ کھلتا ہوا رنگ ‘تیز اور دل میں جھانکنے والی روشن آنکھیں‘ کشادہ پیشانی ‘چہرے پر شگفتگی ‘ وضع وقطع میں وقار اور سنبھلتی ہوئی کیفیت۔عام طالب علمانہ انداز سے الگ تھلگ۔ دھیمے لہجے میں نام بتایا۔ میں نے کہا یہ تو آپ کا تخلص ہے۔ رجسٹر میں تخلص نہیں نام لکھا جائے گا ۔ نام بتایا اس کے بعدمیں نے کہا کیا آپ نے اس پر غور کیا کہ جنگ میں شائع ہونے والی آپ کی نظم جامعہ کراچی کی تاریخ کا حصہ بن جائے گی‘ کیونکہ یہ انفرادی امنگوں کے اظہار کے ساتھ ساتھ اجتماعی شعور کی ترجمان بھی ہے ۔ آپ کا طرزِ احساس حصول علم کے لیے نکلنے والوںکی اجتماعی سوچ کا آئینہ دار ہے ۔ مسکرا کر چپ ہوگئے ۔ یہ طالب علم تھے نقاش کاظمی۔جو اس وقت ایک خوش گو شاعر کی حیثیت سے معروف ہیں اور ماشاء اللہ ایک منفرد اور صاحب ِ طرز شاعر کی حیثیت سے امتیاز اور اعتبار کے حامل ہوگئے ہیں۔
امتیاز اور اعتبار تو نقاش کو اس وقت بھی حاصل تھا جب وہ طالب علم تھے ۔ وہ اپنے طالب علمی کے زمانے میں بھی لیے دیے رہتے تھے ۔ میں نے انہیں طالب علموں کے جس مجمعے میں بھی دیکھا پر وقار انداز ہی میں دیکھا ۔شائستہ لہجہ ‘ دھیمی گفتگو ‘ بڑوں کا ادب ‘چھوٹوں کا لحاظ یہ ساری باتیں نقاش کی شخصیت کا حصہ ہیں ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی کسی تعلیمی الجھن کے سلسلے میں میرے پاس آتے ۔ بیٹھتے ‘بات کرتے ‘ اپنے مسئلے کو شرح و بست کے ساتھ پیش کرتے ۔ گفتگو میں نہ عاجزی طار ی کرتے نہ کسی قسم کی گھگھیاہٹ ہوتی جو عام طور پر طلبہ میں پائی جاتی ہے ۔ اور جب اس کا مسئلہ حل ہوجاتا تو بڑے پر وقار انداز میں ممنونیت کا اظہار کرتے ہوئے چپ چاپ چلے جاتے ۔
نقاش ایک علمی گھرانے کے فرد ہیں ان کے والدِ ماجد ذی علم بزرگ تھے ۔ علم اور فروغ علم سے گہری دلچسپی رکھتے تھے مگر میری فہمائش کے باوجود نقاش نے ان کے مضامین کی اشاعت کی طرف خاص توجہ نہ دی کیونکہ وہ بذات خود آہستہ آہستہ ایک مصروف اور اہم ادبی شخصیت بن گئے ہیں۔لیکن میرا خیال ہے کہ اپنی ساری مصروفیتوں کے باوجود انسان کو اپنی جڑوں سے علیحدہ نہیں ہونا چاہیے اور پھر دوسری بات یہ ہے کہ اگر نقاش کے والدِ ماجد کا علمی و ادبی کام شائع ہوگا تو اس کی روشنی میں نقاش کے تنقید نگاروں کو ان کے ذہن کی تفہیم میں آسانی ہوگی۔
نقاش انسان اور فنکاردونوں حیثیتوں میں نہایت مقبول ہیں ۔ تقریبوں‘ جلسوں ‘ ادبی نشستوں اور مشاعروں میں لوگ انہیں بڑے شوق اور احترام سے بلاتے ہیں ۔ا ن کے اعزاز میں بھی منفردتقریبیں منعقد ہوچکی ہیں ۔ مجھے ایک تقریب یاد ہے جو میٹروپول ہوٹل یا انٹرکانٹینٹل میں ہوئی تھی بڑی پر اثر تقریب تھی ۔ فیض صاحب تشریف فرماتھے ۔ نقاش نے بڑی متانت سے اپنا کلام سنایا ۔ فیض صاحب نے بھی اظہارِ خیال کیاتھا ۔ یہ ایک بزرگ فنکار کی جانب سے ایک خورد کی حوصلہ ا فزائی اور اس کی بھر پور صلاحیت کا سخن ورانہ اعتراف تھا ۔نقاش کو اچھی تقریبیں منعقد کرنے کا فن بھی آتاہے ۔ بڑی ستھری اور عمدہ تقریبات کرتے ہیں ان تقریبوں میں ان کی شادی بھی شامل ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ ولیمہ بڑے منفرد اور اچھے انداز میں ہواتھا ۔ یونیورسٹی کے بے شمار اساتذہ موجود تھے ۔ شعرا اور فنکار تھے ‘ دانشور اور ادیب تھے ‘ بڑی ستھری تقریب تھی ہم لوگوں نے بڑی دلجمعی سے گفتگو بھی کی ۔ ناظم زیدی نے( افسوس کہ اب بیماری نے انہیں نقشِ دیوار بنادیا ہے) اپنے تیز اور خوبصورت فقروں سے شرکاء میں شگفتگی کی ایک لہر پیدا کردی تھی۔ کھانا بھی کھایا اور نقاش کی ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لیے دعا بھی کی ۔ شاید یہ دعا قبول بھی ہوئی کیونکہ نقاش کا گھر ایک مثالی گھر ہے اور اس کی ایک بیٹی غیر معمولی فنکارانہ صلاحیتوں کی حامل ہے کم عمر کے باوجود مصوری میں انفرادی انداز رکھتی ہے ۔ اسے رنگوں کے بر محل استعمال کا بڑا سلیقہ ہے ۔ اس کی نظمیں کامیاب مستقبل کی نشاندہی کرتی ہیں
نقاش ایک ایسے محکمے سے تعلق رکھتے ہیں جو کسی کی بھی نہیں سنتا ۔ مگر وہ غیر معمولی سعادت مند اور بزرگوں کا احترام کرنے والے انسان ہیں میں نے ان سے جب بھی کسی کام کے لیے کہا اور یہ کام بالعموم بے تکے ہی ہوتے مگر انہوں نے اپنی سعادت مندی اور نیک نیتی کی وجہ سے کبھی کسی کام سے انکار نہیں کیا۔ سارے اُلٹے سیدھے کام خوشی خوشی کرتے ہیں میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ان کے دوست احباب جاننے والے جن کا حلقہ بہت وسیع ہے ان سے طرح طرح کے کاموں کی فرمائش کرتے رہتے ہیں۔ اور وہ خندہ پیشانی کے ساتھ ہر شخص کا کام کرتے ہیں ۔ کاموں میں الجھے رہنے کا نتیجہ بالعموم خرابی صحت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے کیونکہ قدرت اپنے اصولوں کی نفی برداشت نہیں کرتی۔
انہیں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پرا لیکن نوجوان اور باہمت ہیں لہذا بیماری کے حملے کو خاموشی سے برداشت کرگئے مگر اب بھی احتیاط سے دور بھاگتے ہیں۔
نقاش میں بڑی وضعداری ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے درمیان تعلقات کی جو سطح نقاش کی طالب علمی کے زمانے میں قائم ہوئی تھی وہ پوری طرح برقرار ہے ۔ اس میں میری کوشش سے زیادہ نقاش کی سعی کا دخل ہے۔زمانہ بڑا ظالم ہے ۔ ہر چیز کو توڑتا پھوڑتا چلا جاتا ہے۔ کوئی رعایت نہیں کرتا مگر زمانہ اچھوں کی اچھائی پر اثر انداز نہیں ہوتا ۔ ان گنہگار آنکھوں نے ایسے بہت سے طالب علم بھی دیکھے ہیں جو طالب علمی کے زمانے میں قربت کا دم بھرتے رہتے تھے لیکن تعلیم سے فارغ ہو نے کے بعد اتفاقاً اگر کہیں ملے تو اول تو پہچان ہی کر نہیں دیا اور اگر ہزار تکلف سے پہچانے تو پرسشِ حالات ایسے سرپرستانہ انداز سے کی کہ علم ‘ ادب اور زندگی سب پر لعنت بھیجنے کو جی چاہا۔ نقاش کا رویہ ہے کہ وہ پہلے بھی ہمارے قریب تھے اور شاید اب زیادہ قریب ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میں جب یونیورسٹی سے گلشن اقبال منتقل ہوا تو چونکہ نقاش کے سایہ عاطفت میں آگیا تھا لہذا وہ ایک شام غریب خانے پر آئے ۔ مجھے حیرت بھی ہوئی ۔ خوشی بھی ہوئی کہ وہ خالی ہاتھ نہیں آئے تھے۔ مٹھائی بھی ساتھ تھی۔ بظاہر یہ بات معمولی ہے لیکن اس سے نقاش کی وضعداری ‘ خاندانی تناظر اور بزرگوں کے احترام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ انسان بڑی باتوں سے یقینا پرکھا جاتا ہے لیکن چھوٹی چھوٹی باتیں بھی انسانی عظمت کو اجاگر کرنے میں کم نہیں ہوتیں۔
نقاش بڑے مصروف انسان ہیں۔ٹیلی فون کے محکمے میں افسر ہیں۔ ان دنوں تو خیر وہ روزانہ شام کو آرٹس کونسل میں نظر آتے ہیں مگر اس سے پہلے ان کا ہاتھ آنا بڑا مشکل تھا ۔دفتر میں فون کیجیے تو یہ میٹنگ وہ میٹنگ۔ یہ مصروفیت ۔ا بھی ڈی ای کے پاس ہیں۔ا بھی بھاگے بھاگے جی ایم کے دفتر چلے جارہے ہیں۔ میں نے انہیں پکڑنے کا بڑا معقول طریقہ دریافت کرلیا ہے ۔ یہ آپ کو بتائے دیتا ہوں ۔ تیر بہدف ہے ۔ صبح آٹھ بجے گھر پر فون کرلیجیے۔ نقاش ضرور ملیں گے۔ اور اگر نہیں ملے تو اس دن کسی نہ کسی وقت ان کا ٹیلی فون آپ کو ڈھونڈتا ہوا آپہنچے گا ۔
صاحبو! دنیا کا قاعدہ یہ ہے کہ کوئی کسی کو بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا مگر باپ اور استاد کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ بیٹا اور شاگرد ان سے بڑھ جائے کہ اس بڑھ جانے میں ان کی ناموری ہے میں نقاش کو دیکھتا ہوں ان کا کلام پڑھتا ہوں ( کلام کے بارے میں میں نے اظہار خیال نہیں کیا ۔ یہ فریضہ برادرم احمد ہمدانی بطریق احسن انجام دیں گے) میں تو جب نقاش کا کلام پڑھتا ہوں تو میرا خون بڑھ جاتا ہے ۔ دل میں ایک امنگ پیدا ہوتی ہے بے اختیار دعا نکلتی ہے
رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا
آئیے آپ بھی اس دعا میں میرے شریک ہوجائیے۔
 

محمد جاوید خان غوری
About the Author: محمد جاوید خان غوری Read More Articles by محمد جاوید خان غوری: 8 Articles with 6745 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.