ڈرون حملوں کا مسئلہ پوری پاکستانی قوم اور ملک کی آزادی،
خودمختاری، سلامتی اور عزت و وقار کا مسئلہ ہے۔ اس کا تعلق اقوام متحدہ کے
چارٹر، بین الاقوامی قانون اور پاکستان کے دستور سے ہے جن کی ان کے ذریعے
دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور عالمی انسانی قانون
سے اس کا قریبی تعلق ہے۔ یہ ملک میں دہشت گردی کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے اور
پورے پورے علاقے کے امن و امان اور لاکھوں انسانوں کی زندگی کے سُکھ اور
چین سے اس کا تعلق ہے۔ لیکن حکومت اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں
بُری طرح ناکام رہی ہے۔ ڈرون حملے امریکی استعمار کا ایک شرم ناک ہتھیار
ہیں جسے انتقام اور شبہے کی بنیاد پر انسانوں کے قتل کے لیے استعمال کیا جا
رہا ہے۔ اب عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے ایوانوں میں، یورپین پارلیمنٹ میں
اور خود امریکا میں صرف دانش وروں اور قانون سے متعلق حلقوں ہی میں نہیں
خود امریکی کانگرس کی کمیٹیوں کی سطح پر بھی اس پر تنقید ہورہی ہے لیکن
ہماری حکومت کا رویہ ناقابلِ فہم ہی نہیں قابلِ مذمت ہے۔
ڈرون حملے کم از کم مندرجہ ذیل بنیادوں پر ناقابلِ برداشت ہیں:
۱۔ یہ پاکستان کی علاقائی حاکمیت اور خودمختاری پر حملہ ہیں۔ پاکستان کسی
بین الاقوامی وارزون کا حصہ نہیں اور اس کی فضائی اور زمینی سرحدات کو جو
بھی پامال کرے اور بے دردی سے پامال کرتا رہے وہ ہمارے خلاف جنگی اقدام کا
مرتکب ہورہا ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ دستور پاکستان کی سرزمین، اس کی
سرحدات اور پاکستان کے شہریوں کے جان و مال اور عزت کی محافظت کی ضمانت
دیتا ہے۔ امریکا اس کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور پاکستان اور اس کے ذمہ دار
ادارے پاکستان کے دستور، اس کی سرحدات، اس کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری
کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
۲۔ امریکا کے یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، بین
الاقوامی انسانی قانون، اور خود امریکا کے دستور کی خلاف ورزی ہے۔ سلامتی
کونسل نے امریکا کو پاکستان کی سرزمین پر کارروائی کرنے کا کوئی اختیار
نہیں دیا، حتیٰ کہ امریکی کانگرس میں بھی یہ سوال اُٹھا دیا گیا ہے کہ
کانگرس تک سے خفیہ رکھ کر امریکی سی آئی اے اور انتظامیہ جو اقدام کر رہی
ہے وہ امریکی دستور کے خلاف ہے۔
۳۔ عالمی طور پر مسلّمہ تصورِ انصاف اور قانونی پراسس کی کھلی کھلی خلاف
ورزی کی جارہی ہے جس نے پورے ’فوجداری عدل‘ کے نظام کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
ماوراے عدالت قتل اور متعین کرد ہ قتل و غارت خواہ افراد کریں یا حکومتیں،
جرم ہیں اور اگر ان کا ارتکاب بین الاقوامی سطح پر کیا جائے تو یہ جنگی
جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، جیساکہ خود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے
رپورٹیر نے بار بار کہا ہے اور اکتوبر ۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں صاف اور سخت الفاظ میں اس کا
اعادہ کیا ہے۔
۴۔غیرمتحارب شہریوں بشمول خواتین، بچے اور بوڑھے انسانوں کا قتل، کسی
عدالتی عمل کے بغیر، اگر بڑے پیمانے پر ہو تو نسل کشی شمار کیا جاتا ہے جو
انسانیت کے خلاف ایک عظیم جرم ہے۔ امریکا کی اس جنگ میں ڈرون کے بے محابا
استعمال سے ایک امریکی تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہلاک کیے جانے والوں
میں متعین طور پر دہشت گردوں اور ان کے رہنماؤں کی تعداد بمشکل ۳فی صد ہے،
جب کہ ۹۷ فی صد کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں کہ ان کا کوئی تعلق کسی بھی
درجے میں کسی دہشت گرد گروپ سے تھا۔ امریکی حکومت نے اپنے ناجائزاقدام پر
پردہ ڈالنے کے لیے متحارب کی ایک نئی تعریف وضع کی ہے، یعنی متحارب وہ نہیں
جو عملاً کسی جنگ یا دہشت گردی میں ملوث ہو بلکہ اس علاقے میں جسے امریکا
جنگ کا علاقہ سمجھتا ہے، ہر وہ مرد جو ۱۶ سے ۶۰سال کی عمر میں ہو دہشت گرد
تصور کیا جائے گا۔ اس تعریف کو دنیا میں کسی نے قبول نہیں کیا اور نہ اسے
قبول ہی کیا جاسکتا ہے کہ اگر اس کا دائرہ اس طرح وسیع کیا جائے تو پھر
دنیا کا کوئی بھی مرد کسی نہ کسی کے ڈرون کا نشانہ بننے کا مستحق ٹھیرتا ہے۔
امریکا کے اپنے تحقیقی اداروں کی اب چھے سے زیادہ رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں
اور جو مبنی ہیں ان ٹوٹی پھوٹی معلومات پر جو میسر ہیں، اور ان کا حاصل یہ
ہے کہ ڈرون حملوں سے ہلاک ہونے والے تین سے چار ہزار افراد میں سے ۴۰۰ سے
۹۰۰ تک کو معلوم طور پر سویلین قرار دیا جارہا ہے اور ان میں عورتوں اور
بچوں کی تعداد ۳۰۰ سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔
۵۔پھر ایک اور انسانی پہلو یہ ہے کہ ڈرون صرف لوگوں کو متعین طور پر ہی
نشانہ نہیں بناتے بلکہ پوری پوری آبادیوں پر گھنٹوں پرواز کرنے اور فضا کو
اپنی مکروہ آواز سے پراگندا کرتے ہیں اور اس طرح ان علاقوں میں بسنے والے
تمام لوگوں پر مسلسل خوف کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں، اور تمام آبادی میں
خصوصیت سے بچوں اور عورتوں میں ذہنی امراض کا سبب بن رہے ہیں۔ اس طرح یہ
ایک اور انداز میں نسل کشی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔
گویا عالمی قانون، ملک کا دستور، عالمی انسانی قانون، اور انسانی معاشرے کے
بنیادی آداب، ہر پہلو سے ڈرون حملے ناجائزاور اس ملک اور اس کے باسیوں کے
خلاف اقدامِ جنگ اور کھلے کھلے ظلم کا ارتکاب ہیں۔ ان کے لیے جواز فراہم
کرنا ذہنی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی دلیل ہے۔
۶۔یکم نومبر کو جو ڈرون حملہ ہوا ہے اس نے ایک نئے پہلو کا اضافہ کردیا ہے،
یعنی امن کے مذاکرات اور سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش ہے |