سمجھ نہیں آتاکہ اسے اپنی بدقستی
کہا جائے یا حکمرانوں کی بے وفائیاں ! کہ جسے اہل وطن مسیحا سمجھتے ہیں
۔وہی رہزن بن کر اہل وطن کو لوٹنے میں لگ جاتے ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت
نہیں گیارہ مئی دوہزار تیرہ کو ہونے والے الیکشن تک جائیں ۔کہ کس طرح میاں
نواز شریف صاحب اہل وطن کے ساتھ عہدوں پیمان میں مصروف تھے ۔کہ اگر میں
برسر اقتدار آگیا توسب مسائل حل ہوجایئنگے ۔ نہ تو پھر ہم امریکہ سے ڈکٹیثن
لیں گے، نہ ہندوستان کے ساتھ غیر ضروری دوستی کے پینگیں بڑھائینگے اور نہ
ہی پاکستان کے معاشی شہ رگ میں دہشت گردوں کو کوئی جائے پناہ ملی گی۔ الغرض
ایک سے ایک وعدہ اور ایک سے ایک حسین خواب تھے ۔جو میاں صاحب دکھارہے تھے۔
لیکن آفسوس اور صد آفسوس کہ میاں صاحب کے تمام وعدے صحرا میں سراب ثابت
ہوئے۔برسر اقتدار آنے اور وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد میاں صاحب بھی
پرویزمشرف اورسابقہ صدر آصف علی زرداری کے راستے پر ان سے دگنی رفتار سے
چلنے لگے ہیں۔مثلا اقتدار میں آنے سے پہلے میاں صاحب پاکستان کے حوالے سے
امریکی پالیسی اور ان کے ڈرون حملوں کے بڑے ناقد تھے ۔لیکن اقتدار کے مسند
پر بیٹھنے کے بعد میاں صاحب اب اپنے ہی کیئں ہوئے وعدوں کے برعکس اہل وطن
کو امریکہ سے ڈرانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔اقتدار میں آنے سے پہلے میاں
مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ایک ٹھوس اور دو ٹوک موقف رکھتے تھے۔ لیکن برسر
اقتدار آنے کے بعد میاں صاحب کی آنکھوں میں پاکستان کو انڈیا سے ملانے والی
سرحدیں کٹھکنے لگی ۔لہذا میاں صاحب لاہور میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں
دل کی بات کو زبان پر لائے اور فرمایا کہ انکی خواہش ہے کہ انڈیا اور
پاکستان کے مابین ویزہ سسٹم کو سرے سے ہی ختم کیا جائے۔واضح رہے کہ جس وقت
میاں صاحب ویزہ ختم کرنے کی بات کررہے تھے ۔ ٹھیک انہی دنوں میں ہندوستانی
حکام کنٹرول لائن پر غیر قانونی دیوار بنانے کی پلاننگ کرنے میں مصروف تھے۔
جہاں تک بات ہے کراچی کی تو اہل کراچی کے درد کا نہ توکل کسی نے مداوا کرنے
کی کوشش کی ۔اورنہ ہی موجودہ نواز حکومت نے ۔ بلکہ نوازحکومت بھی اپنے
پیشرو حکومت کی طرح اہل کراچی کے زخموں پر نمک پاشی کرنے مصروف ہیں ۔ اور
اس بات کا ندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ جہاں کل زرداری اور اس کے اتحادیوں
کے دور حکومت میں دس،پندرہ لاشیں روز گررہی تھیں ۔چند دن کے وقفے سے آج
نواز حکومت میں بھی روزانہ اتنی ہی لاشیں گررہی ہیں ۔یہاں ایک ممکنہ اعتراض
کا جواب بھی دیتا چلوں ،کہ اگر کوئی یہ کہے کہ امن وامان تو صوبائی مسئلہ
ہے ۔ پھر وفاق پر تنقید کیسے؟ تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امن وامان
صوبائی مسئلہ ہے لیکن کراچی والے اس حوالے سے خاصے بدقسمت ثابت ہوئے ہیں ۔
کہ گزشتہ دور حکومت میں صوبے میں جو پارٹیاں برسر اقتدار تھیں ۔ انہی
پارٹیوں سے منسلک دہشت گردوں نے اپنی اپنی سیاسی مفادات کے لیئے اہل کراچی
کا خون بے دریغ بہایا۔پھر جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو انہوں نے یعنی
مرکزی حکومت نے سندھ حکومت کو اعتماد میں لیکر کراچی میں اپریشن شروع کیا
۔اور اس کے بارے میں پل پل کی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی جانے لگی ۔ گوکہ
مرکزی حکومت اپریشن کے رفتار اور اسکے نتائج سے کافی مطمئن نظر آرہی ہے۔
لیکن حقائق بہر حال اس کے برعکس ہے ۔اور اس بارے میں کراچی کے صورتحال پر
گہری نظر رکھنے والوں نے اپریشن شروع ہوتے ہی کہا تھا ۔ کہ یہ دہشت گردوں
کے خلاف اپریشن نہیں بلکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہیں ۔
ان لوگو ں نے درست کہا تھا کہ یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے ، کیونکہ جتناقتل عام اس
سے پہلے والی حکومت کے دور میں تھا ۔اتنا ہی آج ہے ۔بلکہ موجودہ دور اس
لحاظ سے زیادہ باعث تشویش ہے کہ شہر کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے قانون نافذ
کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود معصوم لوگوں کا
قتل عام جاری ہے ۔ اور اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ روزتو پاکستانی
شہری اس شہر میں دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں
۔لیکن جو سانحہ منگل تین دسمبر کو اس شہر میں پیش آیا اس نے تو اہل وطن کو
جنجھوڑ کرکے رکھدیا ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ناظم آباد کے ایک مسجد کے
باہر دہشت گردوں کی فائرنگ سے جو چار افراد جاں بحق ہوئے تھے ان میں برادر
اسلامی ملک مراکش سے اہل خانہ کے ہمراہ تبلیغی دورے پر آئے ہوئے دومہمان
علماء کرام خطاب الدعلا اور عبدالمجید شامل تھے ۔دیگر دوجاں بحق افراد میں
ایک انکا مترجم قاری حنیف جبکہ ایک وہاں کا مقامی رہائشی سلمان بھی شامل
تھا ۔ سوال یہ ہے کہ تبلیغی جماعت جن کے نہ کوئی سیاسی مقاصد ہیں ،اور نہ
ہی وہ کسی کے مفاد کے خلاف کوئی کام کرتے ہیں ۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو اپنے
وقت اور اپنی پیسوں کی قربانی دیکر اﷲ پاک اور اس کر رسول حضرت محمدؐ کا
پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ لیکن انکے ارکان
کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اخر ان دو غیر ملکی مہمانوں کے قتل کے بعد مسلم دنیا
ہمیں کس نظر سے دیکھی گی ؟ کیا پیغام گیا ہوگا ان کے اپنے ملک اور ان کے
خاندانوں میں پاکستان اور اہل پاکستان کے بارے میں ۔ کسی نے سوچا ہے اس
بارے میں ،یا ہے کسی کو اس بارے میں کوئی فکر؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں
کیونکہ یہ امریکن یا یورپین شہری نہیں تھے ۔اور نہ ہی یہ سی آئی اے یا ایف
۔بی۔آئی کے مہمان تھے ۔کہ حکومت انکی خاطر مدارت کرتی۔ بلکہ وہ بیچارے تو
مسلمان اوراﷲ پاک کے مہمان تھے ۔اور اس ملک میں اﷲ پاک کے مہمانوں کو کون
پوچھتا ہے۔ ان غیرملکی مہمانوں کو امید ہے کہ اپنے اﷲ کے ہاں بہتر جگہ ملا
ہوگا۔ لیکن ایک سوال پاکستانی متعلقہ اداروں کے ذمہ داران اور وزیر اعظم
پاکستان سے یہ کہ اخر اس پیارے وطن اور باالخصوص شہر کراچی میں آپ کبھی امن
کے لیئے سنجیدہ ہوکر بھی کوشش کرینگے ۔ یا اہل وطن اور اہل شہر کے ساتھ
یونہی امن کے نام پر ٹوپی ڈرامہ ہوتا رہیگا۔۔؟ |