لو وہ بھی کہہ رہے ہیں

پرفیسر مظہر

حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا ’’جو خوش اخلاق ہو اُس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں ایک گھر کا میں ضامن ہوں ‘‘۔لیکن ہمارے ہاں تو بڑھک بازی اور بد اخلاقی نے اذہان و قلوب کو ایسے مسخر کیا ہے کہ اب ہر کوئی اِن کا اسیر نظر آتا ہے ۔اینکر اور لکھاری اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں اور سیاستدان اپنا سیاسی قد اونچا کرنے کے جنوں میں اخلاقیات کو بھلا کر بڑھکوں کے سہارے زندہ ہیں ۔ہمارے ایک بزعمِ خویش رہبر جو1992ء سے مفقود الخبر تو نہیں البتہ مفرور ضرور ہیں ، گاہے بگاہے گرجتے برستے رہتے ہیں ۔برطانوی شہری محترم الطاف حسین اکثر ’’ڈرامے‘‘ کرتے رہتے ہیں ۔سلطان راہی مرحوم کی طرح بڑھکیں ، کبھی استعفیٰ دینے کی دھمکیاں تو کبھی لہک لہک کر گانے جیسے ڈرامے اُن کی شخصیت کا حصہ بن چکے ہیں ٍ۔اب کی بار اُنہوں نے فرمایا ہے ’’ جماعت اسلامی پر پابندی لگائی جائے ‘‘۔اُن کا حکم سَر آنکھوں پر لیکن اِس پابندی کے حقدار تو وہ خوداور اُن کی جماعت ہے جس کا وطیرہ ہی دھونس ، دھاندلی ہے ۔جس کاباقاعدہ عسکری ونگ اور عقوبت خانے ہیں جس نے ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کو رواج دیا، جس کے ’’جناح پور‘‘ جیسے منصوبے منظرِ عام پر آئے اور جس نے روشنیوں کے شہرِ قائد کو نحوستوں کے بحرِ عمیق میں دھکیل دیا ۔اُنہوں نے فرمایا’’ جماعت اسلامی کے کارکن فوج پر حملے کر رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی غیر ملکی عناصر کے ذریعے ملک توڑنا چاہتی ہے ‘‘۔ تا حال تو جماعت اسلامی پر افواجِ پاکستان پر کسی حملے کا کوئی ثبوت موجود ہے نہ غیر ملکی عناصر کے ساتھ رابطے کا اور جماعت پر توفوج کی ’’بی ٹیم‘‘ ہونے کا الزام ہمیشہ لگتا رہا اور اب بھی لگتاہے البتہ یہ محترم الطاف حسین صاحب ہی تھے جنہوں نے ہندوستان میں بیٹھ کر فرمایا کہ ہندوستان کی تقسیم نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن آج وہ سینہ تان کر یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان مہاجروں کی قربانیوں سے معرضِ وجود میں آیا ۔وہ کہتے ہیں کہ اسلامی جمیعت طلباء دہشت گردوں کا ٹولہ ہے جسے گرفتار کرنے والا کوئی نہیں جبکہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو چُن چُن کے گرفتار کیا جا رہا ہے ۔عرض ہے کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی جمیعت دشمنی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے جس کی بنا پر آئے روزکوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا ہوتا رہتا ہے۔ پوری یونیورسٹی کو ’’شادی ہالوں‘‘ میں بدل کے رکھ دینے والے انتہائی نا اہل منتظم وائس چانسلرچونکہ خود تو حالات کو سنبھالنے سے ہمیشہ قاصر رہتے ہیں اس لیے پولیس کو طلب کرنے کے بہانے تراشتے رہتے ہیں ۔ یونیورسٹی کی حالتِ زار پر تو کوئی توجہ نہیں دیتا البتہ وائس چانسلر کی مدتِ ملازمت میں توسیع پہ توسیع ہوتی چلی جا رہی ہے ۔محترم الطاف حسین صاحب کی خدمت میں اطلاعاََ عرض ہے کہ ہنگامہ کرنے والے طلباء گرفتار بھی ہوتے ہیں اور جماعتِ اسلامی اُن سے لا تعلقی کا بَرملا اظہار بھی کرتی ہے جبکہ دوسری طرف کراچی میں آپریشن کے دوران جتنے دہشت گرد گرفتار ہوتے ہیں اُن کی غالب اکثریت کا تعلق ایم۔کیو۔ایم سے ہی نکلتا ہے اور ایم۔کیو۔ایم بھی اُنہیں اپنے کارکن ہی قرار دیتی ہے ۔محترم الطاف حسین کہتے ہیں کہ حکومت اور ایجنسیاں مہاجروں کے خلاف اقدامات ختم کر دے ۔ حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ کراچی میں آپریشن سے پہلے یہ طے کیا گیا تھا کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ کی زیرِ نگرانی اِس آپریشن کی باقاعدہ مانیٹرنگ کی جائے گی تاکہ کسی کے ساتھ زیادتی کا احتمال باقی نہ رہے۔یہ سب کچھ طے کرتے وقت ایم۔کیو۔ایم سمیت سبھی دینی اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ یہ مانیٹرنگ اب بھی کی جا رہی ہے اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد ہر وقت وزیرِ اعلیٰ سندھ اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں ۔ اطلاعاََ عرض ہے کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ وہی ذاتِ شریف ہیں جن کے ساتھ ایم۔کیو۔ایم پانچ سال تک حکومت کے مزے لوٹتی رہی اور ڈاکٹر عشرت العباد تو ہیں ہی اُن کے اپنے ۔اِس کے باوجود بھی اگر ایم۔کیو۔ایم مطمئن نہیں تو پھر ۔۔۔۔۔۔

محترم الطاف حسین نے حسبِ سابق بڑھک بازی سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ’’ہمیں کمزور نہ سمجھا جائے اگر ہمارے کارکنوں کو جنوں آ گیا تو رینجرز اور پولیس بھی گھروں سے باہر نہیں نکل سکے گی ‘‘۔یہ تو خیر سبھی جانتے ہیں کہ گھروں کا سامان بیچ کر اسلحہ خریدنے کا قائدِ تحریک کا تین عشرے پہلے والا فرمان تا حال برقرار ہے اور ایم۔کیو۔ایم کا عسکری ونگ پہلے سے کہیں زیاد ہ مضبوط اور جدید ترین اسلحے سے لیس ہے لیکن اِس کے باوجود بھی محترم الطاف حسین شایدکسی غلط فہمی میں مبتلاء ہیں ۔اُنہیں پتہ ہونا چاہیے کہ حکومت تا حال مصلحت سے کام لے رہی ہے وگرنہ ٹارگٹ کلرز ، بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کو چیونٹی کی طرح مسل کے رکھ دینا رینجرز اور پولیس کے لیے سرے سے کوئی مسلہ ہی نہیں ۔ویسے تو محترم الطاف حسین کو چاہیے تھاکہ وہ پاکستان میں آ کرخود تفتیش کرلیتے لیکن اگر وہ اتنے دلیر ہوتے تو1992ء میں پاکستان میں رہ کر حالات کا مقابلہ کرتے ، رات کے اندھیرے میں فرار نہ ہوتے ۔بیس سال سے زائد عرصہ گزر چکا ، قائدِ تحریک کی خودساختہ جلا وطنی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی جبکہ دوسری طرف جماعت اسلامی کے کوئی چھوٹے سے چھوٹے رہنما نے بھی کبھی ملک سے فرار ہونے کا سوچا تک نہیں ۔وہ جیلیں بھگتتے اورتشدد سہتے ہیں لیکن ڈٹ کھڑے رہتے ہیں ۔میں جماعت اسلامی کا ترجمان تو نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جماعت کا دامن کرپشن سے پاک ہے جس کا اعتراف اُس کے بد ترین دشمن بھی کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ کونسا ایسا الزام ہے جو ایم۔کیو۔ایم پر دھرا نہیں جاتا ۔اِس کے باوجود بھی محترم الطاف حسین صاحب فرماتے ہیں کہ جماعتِ اسلامی پر پابندی لگا کر ایم۔کیو۔ایم کو شتر بے مہار چھوڑ دیا جائے ۔میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے دل ، روشنیوں کے شہر کراچی کو امن کا گہوارہ بنانا ہے تو اُس کا واحد حل یہ ہے کہ فوری طور پر ایم۔کیو۔ایم کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ جتنے افراد طالبان کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں ، کم و بیش اُتنے ہی سابقہ مہاجر قومی موومنٹ اور موجودہ متحدہ قومی موومنٹ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔

محترم الطاف حسین نے فرمایا ہے ’’اگر مہاجر میرے ہاتھ سے نکل گئے تو فوج بھی کنٹرول نہیں کر سکے گی ‘‘۔عوام کو یوں بھڑکانا اور اُنہیں تصادم کی راہ دکھانا یقیناََ ملک و قوم سے غداری کے زمرے میں آتا ہے ۔الطاف حسین صاحب نے اپنی تقاریر میں جو انداز اختیار کر رکھا ہے اُس پر یقیناََ آرٹیکل چھ لاگو ہوتا ہے۔اگر حکومتِ وقت کسی مصلحت کے تحت ایسا کرنے سے گریزاں ہے تو شہرِ قائد کی رونقیں بحال کرنے کی خاطر کم از کم الطاف حسین صاحب کے آڈیو ، وڈیو خطاب پر پابندی ہی عائدکر دے ۔اگر حکمران اتنا کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتے تو پھر لکھ کے رکھ لیجیے کہ کراچی کی رونقیں کبھی بحال نہیں ہونگی ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643448 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More