طارق ملک ! ایک اور حرف انکار

یاد کریں منظر تقریباََ یہی تھا لیکن اس وقت استعفیٰ مانگنے والے وردی پوش تھے۔آمریت تھی اور مشرف کو اس شخص کے فیصلوں سے خطرہ تھا۔ساتھیوں کو حکم ملا کہ اس شخص سے جان چھڑائی جائے۔آمر کے ساتھیوں نے اپنی سی کر لی لیکن وہ بھی اپنی طرز کا ایک ہی تھا۔اس کے حرف انکار سے ملک میں طوفان آ گیا۔ایمرجنسی لگ گئی اور سارے منصف اپنے بچوں سمیت اپنے اپنے گھروں میں قید کر دئیے گئے۔یہ قید آزادی تھی دراصل اس ظلم اور جبر سے جس میں قوم پچھلے کئی سالوں سے گرفتار تھی۔بنچ اور بار کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔کالے کوٹ والے کالے بوٹوں کے مقابل آ گئے اور کالی سڑکیں وکیلوں کے خون سے سرخ ہونے لگیں۔کیمرہ رنگوں کا عاشق ہوتا ہے کہ اس کا کاروبار ہی رنگوں سے عبارت ہے۔ خون کی یہ لالی پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے کیمرہ مینوں کو بھی میدانِ کارزار میں کھینچ لائی۔ان کے ساتھ رپورٹر بھی۔جنگ میں کون دیکھتا ہے کہ یہ وکیل ہے یا صحافی۔ڈنڈہ تو بس ڈنڈہ ہوتا ہے۔جب ان رپورٹرز کا اپنا دکھ بھی ان کی رپورٹنگ میں در آیا تو سول سوسائٹی کے نام سے بھی چند لوگ اس معاملے میں شامل ہو گئے۔لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ حکومت کی تبدیلی سے جج آزاد تو ہو گئے لیکن نئے حکمرانوں کو بھی آزاد جج وارا نہیں کھاتے تھے۔ڈوگر کورٹس جو کہ آمرانہ دور کی یادگار تھیں چلتی رہیں۔مولوی مدن کی سی اس تحریک میں اسی وقت آئی جب پاکستان کے عوام نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کی۔لوگ لاہور سے چل کے ابھی گوجرانوالہ ہی پہنچے تھے کہ مدت سے معزول جج بحال کر دئیے گئے۔

عوامی طاقت سے بات منوانے کے مظاہرے پہلے بھی پاکستان میں ہوتے رہے لیکن یہ شاید ملکی سطح پہ اپنی بات منوانے کے لئے پہلا باقاعدہ مظاہرہ تھا۔جس میں سیاسی و مذہبی پارٹیاں ،سول سوسائٹی،میڈیا ،سوشل میڈیا مزدور کسان اور عام عوام شامل تھے۔آج کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عوامی طاقت سے نہ نیٹو سپلائی رک سکتی ہے نہ ٖرون حملے روکے جا سکتے ہیں۔ یہ حکمرانوں کی زبان ہے۔مشرف کے دور میں بی بی نے افتخار چوہدری کے گھر کے سامنے کھڑے ہو کے کہا تھا کہ یہ میرا چیف جسٹس ہے اور ان کے گھر پہ جھنڈا میں خود اپنے ہاتھوں سے لگاؤں گی لیکن بی بی کے وارث حکمران ہوئے تو انہوں نے یہ جھنڈا اس وقت تک نہیں لگایا جب تک عوام نے اس جھنڈے سے ڈنڈہ نکال کے اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیا۔حکمران ایسے ہی کیا کرتے ہیں اقتدار میں ہوں تو ان کی ترجیحات وہ نہیں رہتیں جو اقتدار سے باہر ہو ں تو ہر وقت ان کی زبان پہ ہوتی ہیں۔اﷲ کریم کا شکر ہے کہ اب اس ملک میں اعلیٰ عدلیہ ابھی تک آزاد ہے۔یہ آزادی جاگتے عوام کی مرہونِ منت ہے جوڈیشل ایکٹو ازم کا بھی اس میں تھوڑا بہت حصہ ہو گا لیکن موجودہ حکومت جو ہر فیصلے پہ بس انگلیاں دانتوں تلے داب لیتی ہے تو یہ دراصل عدلیہ کے لئے عوام کی سپورٹ کا وہ جن ہے جسے حکومت نے کبھی خود جگایا تھا۔

خدا جانے حکمران سبق کیوں نہیں سیکھتے۔کیا یہ اتنے نا اہل ہیں کہ نئی غلطیاں بھی ایجاد نہیں کر سکتے ۔چیف جسٹس کے ساتھ اس زمانے کے حکمرانوں نے جو سلوک کیا تھا وہی آج کے حکمران نادرہ کے چئیرمین طارق ملک کے ساتھ کرنا چاہتے تھے۔شنید ہے کہ طارق ملک کی پرورش رزق حلال سے ہوئی ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ رزق حلال دھونس دھاندلی اور دھمکی کم ہی برداشت کرتا ہے۔فتح محمد ملک کے ہونہار صاحبزادے نے کسی بھی غلط کام سے کسی بھی صورت انکار کر دیا اور یوں رات دو بجے ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوا اور طارق ملک چئیرمین نادرہ سے سابق چیئرمین بنا دئیے گئے۔کراچی سے ایک صاحب کو بلا کے قائم مقام چیئرمین بھی بنا دیا گیا۔رات کو تو خیر کیا کی جاتا۔ صبح عدالتیں کھلیں تو طارق ملک کا وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہو گیا۔بابر ستار صاحب تو ماشاء اﷲ نامی گرامی وکیل ہیں کوئی ٹرینی بھی یہ کیس لے کے کسی بھی عدالت چلا جاتا تو فیصلہ یہی ہوتا کہ یہ برطرفی بلا جواز اور قانون سے تجاوز ہے۔طارق ملک صاحب کی برطرفی کا نوٹیفیکیشن کالعدم ہو گیا اور اسی طرح بریگیڈیر زاہد کی تقرری کا بھی۔

حکومت نے بہت چالاکی کے ساتھ طارق ملک کو نادرہ اور دھاندلی کے معاملات سے غیر متعلق کرنے کی کوشش کی ہے ۔اب جو بھی رپورٹ نادرہ سے آئیگی اسے ذاتی دشمنی کا شاخسانہ قرار دے کر متنازعہ قرار دے دیا جائے گا۔سمندر میں رہ کے مگر مچھ سے بیر۔ملک صاحب کو زچ کرنے کا سلسلہ تو ویسے ہی اس دن سے جاری ہے جب سے انہوں نے کراچی کے بعد لاہور کے کچھ حلقوں میں مشکوک ووٹوں کی نشاندہی کی تھی۔آج ایک نامی گرامی وزیر اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فرما رہے تھے چار کی جگہ چار سو حلقوں کے ووٹوں کا تجزیہ کروا لیں ساٹھ سے ستر فیصد ووٹ جعلی ملیں گے کہ مقنا طیسی سیاہی جو استعمال نہیں ہوئی۔کوئی ان سے پوچھے کہ مقناطیسی سیاہی کا استعمال اگر الیکشن کروانے کے لئے ضروری ہے تو وہ استعمال کیوں نہیں ہوئی اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔قوم کے ساتھ پھر اتنا بڑا دھوکہ کس نے کیا۔کیا کہیں کسی نے کسی سے پوچھا۔اگر نہیں تو پھر یہ الیکشن صاف اور شفاف کیونکر ہو گئے۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر کسی حلقے میں ووٹر نہ ملیں تو دوسرے حلقے سے ووٹر لا کر ان سے ووٹ ڈلوا لئے جائیں گے۔کوئی جواب نہیں دیتا۔

طارق ملک زچ کر دیا جائے گا۔اسے جانا ہی ہو گا اور اگر یہ شخص اس ادارے سے چلا گیا تو آئندہ ایک لمبی مدت تک صاف اور شفاف کا خواب صرف خواب ہی بن کے رہ جائے گا۔آمریت کا صرف وردی ہی کے ساتھ خاص ہے۔کیا ہر وہ حکمران جو قانون کو پس پشت ڈال کے اپنی مرضی عوام پہ مسلط کرنا چاہے آمر نہیں ہوتا۔فوجی آمریت کے خلاف نعرے مارنے والے کیا اب طارق ملک کی مدد کو بھی آئیں گے۔کیا کالے کوٹ، سول سوسائٹی ،کیا میڈیا اور کیا وہ عوام جن کی مرضی ہر بار چرا لی جاتی ہے؟
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291958 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More