تحریر: علی عمران شاہین
مستنصر حسین تارڑ سے کون پاکستانی واقف نہیں ۔ہم تو بچپن سے ہی ان کے’ ساتھ
ساتھ‘ رہے اور چا چا جی کی باتیں زمانہ گزرنے کے بعد بھی آج تک یا د آتی
ہیں۔اردو اور پنجابی ادب کے وہ بے تاج بادشاہ ہیں ،جس کا کوئی اقرار کرے نہ
کرے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اس سب کے ساتھ مجھے ایک بات پر بہت حیرت ہے
کہ وہ سابق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کے اس قدر مخالف کیوں ہیں؟چند دن
پہلے کے اخبار میں ان کا کالم بعنوان’’جب ضیا ء الحق کو شہید قرار دیا گیا‘‘
پڑھا اور ایک بڑی تقریب میں ان کی تقریر بھی سنی۔دونوں ہی جگہ موصوف جنرل
ضیاء الحق پر خوب برسے ۔میں خود تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم اور ادنیٰ
سالکھاری ہوں۔سو اس حیثیت سے میں اکثر اس کھوج میں رہتا ہوں کہ مجھے کہیں
سے جنرل ضیاء الحق کا کوئی ایک آدھا ایسا چھوٹا موٹا جرم یا گناہ کبھی مل
ہی جائے کہ جس کی بنا پر بہت سے یار لوگ ان پر دن رات تبرا اور دشنام طرازی
کرتے ہیں۔افسوس کہ جناب تارڑ صاحب نے بھی دیگر لوگوں کی طرح نہ تو اپنے
کالم میں اور نہ ہی اپنی تقریر میں جنرل ضیاء الحق کا کوئی ایسا جرم گنوایا
کہ جس کی پاداش میں وہ اس قدر ان پرسیخ پا رہتے ہیں۔میں یہ سطریں لکھتے
ہوئے بھی مسلسل سوچ رہا ہوں کہ میں ان کی کس بات کا جواب دوں،کیوں کہ انہوں
نے بھی کوئی دلیل تو دی نہیں۔سومیں جناب تارڑ صاحب سے یہ پوچھ سکتا ہوں کہ
جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور اقتدار میں وہ کتنا عرصہ شاہی قلعے میں
پابند سلاسل رہے؟ان کی کتنی کتابوں پر پابندی لگی ؟یا انہیں کتنے کوڑے مارے
گئے؟موصوف تو خود تسلیم کر رہے ہیں کہ جب جنرل صاحب کے طیارے کو حادثہ پیش
آیا تو وہ اس زمانے میں پی ٹی وی پردن رات کام کر رہے تھے اور اس بات کے تو
کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اس زمانے میں پاکستان میں یہی ایک چینل ہو تا
تھااور یہ اس وقت سے لے کر آج تک سو فیصد مکمل سرکاری ادارہ ہے۔لوگ پی ٹی
وی کے رات نو بجے کے مشہو ر عالم خبر نامہ کو ـ’’حکومت نامہ ‘‘ آخر کیوں
کہا کرتے تھے؟اور پی ٹی وی پر کوئی ایسا چہرہ نظر آجائے کہ جو اندر باہر سے
صدر مملکت کیخلاف ہو ،کیا یہی کبھی سوچا بھی جا سکتا تھا؟اگر جنرل ضیاء
الحق اس قدر ظالم اور غاصب شخصیت تھی تو پھر انہی کی حکومت کی جاری و طے
کردہ پالیسی کے مطابق وہ برسہا برس پی ٹی وی پر کیوں پروگرام کرتے ،انہی سے
تنخواہ لیتے ،عزت و شہرت کماتے اور مراعات لیتے رہے ۔جو الفاظ وہ جنرل ضیاء
الحق کے بارے میں آج استعمال کرتے نظر آتے ہیں وہ انہوں نے ٹی وی پر آکر
کبھی ادا کیوں نہ کئے تھے؟اگر ضیاء الحق غاصب و جابر تھے تو انہوں نے اس
زمانے میں سرکاری چینل پی ٹی وی کو اپنا کیرئیر اور اپنا اوڑھنا بچھونا
بنانے کے بجائے کلمہ حق کہہ کر افضل جہا د کیوں نہ کیا تھا؟آج کا ایک عجیب
مسئلہ یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو جنرل ضیاء الحق کے چڑھتے سورج کو دیکھ کر دن
رات ان کی چوکھٹ پر پڑے، ان سے عزت و اقتدار پانے کے لئے بے قرار رہتے اور
اپنا سب کچھ فدا کرتے نظر آتے تھے،ان کے اس فانی دنیا سے رخصت ہونے کے بعد
جب یقین کر چکے ہیں کہ اب انہیں جنرل ضیاء الحق سے کچھ نہیں مل سکتا تو ان
کی ’غیرت‘ جا گ اٹھی ہے اور ان میں بیشتر آج انہی راہوں پر کھڑے ہیں کہ
جہاں سے دوبارہ حکومت و اقتدار کی روشنی نظر آتی ہے۔ اس لئے سیاست کے میدان
میں اقتدار کی خاطراپنے ایمانسمیت سب کچھ قربان کرنے والوں سے تو کچھ گلا
نہیں ،کیوں کہ یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے ۔تاریخ میں ہمیشہ سے یہی کچھ
ہوتا آیا ہے۔ضیاء الحق کو تو چھوڑیئے ،جنرل پرویز مشرف ابھی زندہ
ہیں۔امریکہ اور یورپ ان کے آج بھی دلداہ اور انہیں بچانے کے لئیبڑی حد تک
سرگرم ہیں لیکن اس کے باوجودوہی لوگ جو صرف چھ سات سال پہلے اسی ملک میں،
اسی سرزمین پر ان کے نام کا ــ’’کلمہ‘‘ پڑھ کر سوتے اور جاگتے تھے، آج ان
کے نام سے یوں انجان ہو چکے ہیں کہ جیسے جانتے ہی نہیں، پہچانتے بھی
نہیں۔تارڑ صاحب نے فرمایا کہ ’’جنرل ضیاء الحق کی قبر آج ویران ہے ،بے شک
ان کا جنازہ بہت بڑا تھا لیکن یہ اس وجہ سے تھا کہ وہ اس وقت مسند اقتدار
پر فائز تھے‘‘
تارڑ صاحب ! ہم آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اتنے بڑے جنازے صرف برسر
اقتدارحکمرانوں کے ہی ہوتے ہیں؟دینی تحریکوں سے وابستہ افراد اور مذہبی
رہنمابلکہ ان کے عام کارکن تک جب فوت ہوتے ہیں، خواہ کسی بھی فرقے یا مسلک
سے ہوں، کبھی ان کے جنازوں میں جا کر دیکھا کریں کہ لوگوں کی ان سے کیسی
وابستگی ہو تی ہے اور لوگ کس طرح ان کے جنازوں میں شریک ہو تے ہیں۔یہ
لوگکبھی اقتدار کے ایوانوں میں نہیں پہنچتے لیکن لوگوں دلوں پر ان کی
حکمرانی ان کے سفر آخرت سے بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔
کسی کی قبر ویران ہونے سے اس کا نام نہیں مٹ جاتا ۔تاریخ کی لاتعداد نامور
و نیک ترین ہستیوں کی قبروں کے نام و نشان کا بھی کسی کے علم میں نہیں ،تو
کیا وہ اس دنیا سے مٹ گئے؟ ہر گز نہیں۔جنرل ضیاء الحق کا نام کل بھی زندہ
تھا ،آج بھی زندہ ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔اس کی سب سے بڑی دلیل تو آپ کا
ہی ان کا اس قدر نام لینا اورغصے کا اظہا ر کرنا بھی ہے۔پاکستانمیں کتنے
لوگوں نے حکومت کی ،ان میں کس حکمران کا نام آج بھی سب سے زیادہ لیا جاتا
ہے اور کس کے کاموں،کارناموں اور فیصلوں پر مٹی ڈالنے اور انہیں فنا کرنے
کے لئے کتنے لوگ گزشتہ پچیس سال سے سر دیواروں سے ٹکرا رہے اور اس دنیا سے
اٹھتے جا رہے ہیں لیکن بات بنتی نہیں ہے ۔آخر کیوں؟لگ بھگ ہر روز کے
اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ میں ضیا ء الحق کا تذکرہ ہوتا ہی ہے اور ان
کے اقدامات کو مٹانے کے لئے ساری دنیا مل کر ہمارے حکمرانوں کے ذریعے تگ و
دو میں مصروف ہے لیکن بات نہیں بن پا رہی ۔اس ملک میں تو ضیاء الحق سے کہیں
زیادہ طاقتور فوجی حکمران آئے ،لمبی حکومتیں کیں ۔آخر ان کا تذکرہ کہیں
کیوں نہیں ہوتا؟اس کا مطلب ہے کہ قبریں ویران یا آباد ہونے سے فرق نہیں
پڑتا ۔نظریات و افکار اور کارنامے ہی زندہ رہتے ہیں اور جنرل ضیاء الحق
انہی کی وجہ سے زندہ ہیں۔ان کے بیٹے اعجاز الحق نے اس بار انتخابات میں
کامیابی حاصل کی۔یہی نہیں ان کے دو ساتھی ایم پی اے بن کر پنجاب اسمبلی
پہنچے تو کس کے نام پر انہوں نے الیکشن لڑا تھا؟شریف برادران کے مخالفین
اول روزسے ان کے خلاف سب بڑا ہتھیار یہی استعمال کرتے ہیں ناں کہ وہ جنرل
ضیاء الحق کی پیداوار اور باقیات ہیں اور اس سے کوئی اور تو کیا شریف
برادران بھی انکار کبھی نہیں کرتے اور کر بھی نہیں سکتے۔کیا اس وجہ سے
انہیں عوام پاکستان نے مسترد کیا یا منتخب۔اسی سوال کے جواب سے یہ سارا
مسئلہ حل ہو جائے گا۔
پاکستان کے عوام کیا چاہتے ،کیا سوچتے اور کیا پسند کرتے ہیں؟ اس کا اندازہ
کرنا ہو تو آج کے دنوں میں ملالہ یوسف زئی اس کی بہترین مثال ہے۔ساری دنیا
اورساری دنیا کا میڈیا اور ان سب سے بڑھ کر پاکستانی حکومت،سیاسی
پارٹیاں،ہمارا ملکی میڈیا اور تمام بارسوخ لوگ ایک ہو کر ملالہ کے حق میں
ہمہ وقت قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ایک سال سے سارا جہاں مل کر اس کوشش میں مصروف
ہے کہ ملالہ پاکستانی قوم کی تن تنہا اور متفقہ اور بلا شرکت غیرے ہیرو
تسلیم کر لی جائے ۔اس نے وزیر اعظم بننے کی خواہش کا اظہا ر ویسے ہی نہیں
کیا ۔لیکن ساری پاکستانی قوم نے ملالہ کو اس سب کے باوجود مکمل طور پر
مسترد کر دیا ہے۔ اسی لئیہم تو جناب تارڑ صاحب کی خدمتمیں قرآن کریم کی یہ
آیت ہی رکھیں گے تاکہ وہ اس معاملے میں صحیح فیصلہ فرما سکیں کیونکہ میری
معلومات کے مطابق تارڑ صاحب ایک اچھے مسلمان بھی ہیں۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اﷲ کی خاطر خوب قائم رہنے والے بن جاؤاور کسی قوم
کی دشمنی تمھیں ہر گز اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو۔عدل
کرو،یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اﷲ سے ڈرو۔بے شک اﷲ اس سے پوری طرح با
خبر ہے جو تم کرتے ہو۔(المائدہ:8) |