ایرانی جوہری پروگرام کا مختصر تعارف

۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۱ء تک امریکہ کی کرسی صدارت پر براجمان رہنے والے آئزن ہاور (Eisenhower) نے ۱۹۵۷ء میں ایران کیساتھ "ایٹم برائے صلح" کے عنوان سے غیر فوجی ایٹمی مقاصد کیلیے باہمی تعاون کی ایک قرار داد پر دستخط کیے کہ جس کے تحت ایران تحقیقاتی مقاصد کیلیے چند کلوگرام افزودہ یورینیم امریکہ سے دریافت کرتا رہا اور یوں ایران کے ایٹمی سفر کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ۔ صرف چار سال کے بعد جوائنٹ چیفس آف اسٹاف امریکہ نے ایران میں ایٹمی ہتھیار نصب کرنے کی تجویز پیش کی کہ جو امریکی وزارت خارجہ نے مسترد کر دی ۔ ۱۹۶۸ء میں ایران نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے سمجھوتے این۔پی۔ٹی پر دستخط کر دئیے ۔ ۱۹۷۴ء میں ایران کے شہنشاہ نے ایرانی ایٹمی توانائی ایجنسی کے قیام کا اعلان کر دیا اور اسی سال جرمن اور فرانسیسی کمپنیوں کیساتھ بوشہر اور بندر عباس میں دو ایٹمی بجلی گھروں کی تنصیب کے معاہدے پر بھی دستخط ہو گئے ۔

۱۹۷۹ء میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے رد عمل میں امریکہ نے ایران کو افزودہ یورینیم کی فراہمی روک دی کہ جس کے بعد ایران میں ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کے منصوبے نامکمل رہ گئے لیکن ایران نے یورینیم کشف کرنے کا پروگرام جاری رکھا گیا ۔ دوسری جانب روس میں پوٹن کے برسر اقتدار آنے کے بعد ایران و روس تعلقات کا نیا دور شروع ہوا اور صدر پوٹن نے بوشہر کے نیمہ تمام ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے معاہدے پر دستخط کر دئیے کہ جس کے بعد ایران ۔ روس ایٹمی تعاون کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ۔

امریکہ اور اسرائیل ایران کے ایٹمی پروگرام سے بہت زیادہ ناخوش اور خائف تھے ۔ چنانچہ انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر پراپیگنڈہ مہم کیساتھ ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا اور مختلف قسم کی ظالمانہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں ۔ ایرانی مذاکراتی ٹیم نے موجودہ صدر ڈاکٹر حسن روحانی کی قیادت میں اعتماد کی فضا قائم کرنے اور اس زہریلے پروپیگنڈے کو بے اثر کرنے کی غرض سے ۲۳ فروری ۲۰۰۴ء میں بروکسل کے مقام پر ایک مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کیے کہ جس کی رو سے ایران نے مختصر عرصے کیلئے یورینیم افزودہ کرنے والے سینٹری فیوجز کی ساخت اور آزمائش کو روک دیا ۔ امریکہ و یورپ نے اپنا دباؤ برقرار رکھتے ہوئے ۱۴ نومبر ۲۰۰۴ء کو پیرس میں ایران کیساتھ ایک اور مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کیے کہ جس کے تحت ایران نے مختصر مدت کیلئے رضاکارانہ طور پر یورینیم کی افزودگی سے مربوط تمام فعالیتیں متوقف کر دیں کہ جس کے عوض یورپین مذاکرات کنندگان نے ایران کو پر امن مقاصد کے لیے افزودہ یورینیم فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی اور اسی طرح ایران کی عالمی تجارت پر عائد پابندیاں ہٹانے کا بھی وعدہ کیا ۔

ڈاکٹر احمدی نژاد کی حکومت کے پہلے برس میں ایران نے اعلان کیا کہ پیرس معاہدے کے تحت رضاکارانہ طور پر یورینیم کی افزودگی معلق کرنے کی مدت مکمل ہو چکی ہے کہ جس کے دوران ایران نے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کیا ہے لیکن یورپ و امریکہ نے اپنے وعدوں کی پاسداری نہ کرتے ہوئے طبی اور تحقیقاتی مقاصد کیلےن درکار افزودہ یورینیم فراہم نہیں کیا اسلیے جنوری ۲۰۰۶ء میں ایرانی سپریم لیڈر کی ہدایت پر حکومت نے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے معائنہ کاروں کی موجودگی میں UCF اصفہان کی فعالیت کا ایک مرتبہ پھر آغاز کر دیا لیکن اقوام متحدہ نے اسی سال مارچ میں ایران سے ایک ماہ کے اندر تمام ایٹمی سرگرمیاں معلق کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔

ایران ، اپنے ایٹمی سفر کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے اپریل ۲۰۰۶ء میں جوہری ایندھن کی سائیکلنگ آزمائشی بنیادوں پر کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ جس کے بعد جون ۲۰۰۶ء میں سلامتی کونسل نے ایران کے خلاف مذمتی قرارداد ۱۶۹۶ منظور کی کہ جس میں ایران سے یورینیم کی افزودگی معلق کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ اسی سال دسمبر میں اقوام متحدہ نے قرار داد نمبر ۱۷۳۷ منظور کی کہ جس میں ایران کی متعدد تجارتی ، مالیاتی ، صنعتی اور ایٹمی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور باقاعدہ طور پر ایران کی ایٹمی فعالیتوں کو خطے کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا گیا جبکہ تہران این۔پی۔ٹی کی شق نمبر چار کے تحت ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتا رہا اور ایٹمی فعالیت کے حوالے سے تبعیض آمیز رویے کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا ۔

8اپریل ۲۰۰۷ء کے سورج نے ایران کے افق پر ہمت ، ثابت قدمی اور عزم راسخ کی ایک تاریخی داستان رقم کر دی کہ جب سابق صدر محمود احمدی نژاد نے نہایت فخر کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ آج سے ہمارا پیارا وطن جوہری کلب میں شامل ہو گیا ہے اور ہم صنعتی پیمانے پر یورینیم پیدا کر سکتے ہیں کہ جس سے امریکہ میں کھلبلی مچ گئی ، اسرائیل کے صیہونی لرزہ براندام ہو گئے اور دنیا کی سپر طاقتوں کو ایک قوم کے عزم و ارادے نے شکست فاش سے دوچار کر دیا ۔

ایران جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال صرف توانائی کے شعبہ ہی میں نہیں کر رہا بلکہ ایرانی ماہرین اسےطبی اور تحقیقاتی امور میں بھی بروئے کار لا رہے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل تک ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کرنے کے ساتھ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کیلئے 90 سے 95 فیصد تک دوائیں بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے اور یہ امر قابل ذکر ہے کہ مندرجہ بالا مقاصد کیلئے ۲۰ فیصد افزودہ یورینیم درکار ہوتا ہے لیکن اس کی فراہمی کے حوالے سے امریکہ و یورپ نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا کہ جس کے رد عمل میں ایران نے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی زیر نگرانی قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے کا آغاز کیا اور یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں بھی کامیابی حاصل کی۔

اس وقت ایران صنعتی پیمانے پر یورینیم افزودہ کر رہا ہے اور اس کے پاس بیس ہزار کے لگ بھگ سینٹری فیوجز ہیں ۔ ایران میں نئی حکومت کے قیام کے بعد جنیوا میں مذاکرات کے دو دور ہوئے کہ جن میں ایران کو سب سے بڑی کامیابی یہ نصیب ہوئی ہے کہ یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے ایران کے حق کو تسلیم کر لیا گیا ہے ۔
ali hyder
About the Author: ali hyder Read More Articles by ali hyder: 7 Articles with 5562 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.