پچھلا دور حکومت ون مین شو تھا اسلئے اس کو پیپلز پارٹی
کی حکومت کہنے سے بہتر ہے زرداری دور حکومت کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ زرداری
دور حکومت میں اخبارات ، نجی ٹی وی چینل، سوشل میڈیا پر، ڈرون
حملے،مہنگائی،کمیشن لینا،لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ،بے روزگاری،ڈو مور،سب اچھا
ہے ،آپ کی نظر میں،کرپشن،جھوٹ،غیر ملکی دورے،یہ ترامیم وہ ترامیم،سیاست
دانوں کی بے حسی،بد عنوانی،حکومت کی نا اہلی،تاریخ کی بدترین اور ناکام
حکومت،لوڈ شیڈنگ گیس پانی بھی میسر نہیں،اس حکومت سے مشرف کی حکومت بہتر
تھی، اس طرح کہ موضوعات پر مذاکرات،اور مناظرے ہوا کرتے تھے ، بے بس اور
غیریب عوام کی اس وقت یہ امید تھی کہ زرداری کی حکومت ختم ہو جائے تو بہتری
آجائے گی، یہ باتیں بھی ٹاک شو کا حصہ ہوتیں تھیں کہ ملک تباہی کے دہانے پر
کھڑا ہے ،فرینڈلی اپوزیشن ہے،سب نے مک مکا کیا ہوا ہے،اوراسی طرح کی بے
شمار فضولیات پر بحث کرتے کرتے پانچ سال گزر گئے اور پھر میڈیا نے یہ شور
بھی مچایا کہ جمہوریت کی کامیابی ہے اب ہم لوگ بڑے میچور ہو چکے ہیں،
جمہوریت اگے منتقل ہو گئی ،وہ وقت بھی آگیا جس کو تبدیلی کا نام دیا گیا
عوام نے ہمیشہ کی طرح جی بھر کہ خواب دیکھے پیپلز پارٹی کا تو بسترا گول ہو
گیا ،پیچھے رہ گے تحریک انصاف اور (ن) لیگ۔ تحریک انصاف پاکستان کی مقبول
اور بڑی جماعت بن کر سامنے آئی بڑے بڑے سروے ہوئے سب نے اسی کو مقبول قرار
دیا مگر وہ عوام جو پینسٹھ سالوں سے بکتی آئی ہو، جس کی رگ رگ میں غلامی کا
خون گردش کر رہا ہو، جو چچا، تایا، ماما، برادری، علاقے کی سیاست کو اپنی
دانش مندی سمجھتی ہو ،وہ عوام جو آٹے دال روٹی کے چکر میں اپنا ایمان تک
بیچ دیتی ہو، اس عوام کو خریدنا یا اس کو اپنی مرضی سے چلانا کوئی مشکل کام
نہیں، یہاں پر سچ بولنے والا ذلیل اور جھوٹ بولنے والا تخت شاہی پر برجمان
ہو وہاں پر کیا سروے تو کیا مقبولیت سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے ۔زرداری دور
حکومت ختم ہوا الیکشن کا وقت آیا حسب روایات عوام نے ایک بار پھر وہی کچھ
کیا جو وہ اس ملک کے وجود میں آنے کے بعد کرتے آئیں ہیں سب یہی کہہ رہے تھے
کہ اب میاں برادران عوام کے ہمدرد ہونگے اب کی بار وہ ملک کے وفادار ہونگے
،اب وہ غلامی کا طوق گلے میں نہیں ڈالے گے ،اس دفعہ وہ کشکول توڑے گے،اب
ملک میں عوام راج کرے گی ایسی ہی کچھ غلط فہمیوں نے عوام کو ایک بار پھر
(ن) لیگ کو بھاری مینڈیٹ دے کر اپنے پاوں میں خود کلہا ڑی ماری۔نئی حکومت
بن گی ابھی ماضی کی زخموں کا درد بھی ختم نہیں ہوا تھا ابھی زرداری دور
حکومت کے ظلم و ستم سے عوام سنبھل نہیں پائی تھی کہ وہ تمام باتیں جو ماضی
میں ہو رہی تھیں ،وہی مناظرے ،وہی ٹاک شو ،وہی رونا دھونا قصے کہانیاں سب
نہ صرف دہرایا جا رہا ہے بلکہ اس میں مذید اضافہ کر دیا کہ کون شہید ہے ؟
کون مردہ ہے؟ڈرون ،ملکی سلامتی کے لئے بہتر ہیں ،نیٹو سپلائی بند کرنے سے
امریکہ ہمارا رزق بند کر دے گا،وغیرہ وغیرہ پر عوام کی توجہ لگا کرحکمران
اپنی آنیا، جا نیا میں مصروف ہیں،مہنگائی کے ہوش روبا اضافے نے ایک عام
آدمی کہ منہ سے وہ نوالہ بھی چھین لیا جو زرداری دور میں مشکل سے ملتا
تھا،موجودہ حکومت نے غلامی اور امریکہ نوازی کے وہ ریکارڈ بھی توڑ دیے جو
سابقہ حکمرانوں نے قائم کئے تھے۔ وہی عوام وہی لوگ جنہوں نے بڑے ارمان دل
میں بسا کے موجودہ حکومت کے سیات دانوں کو کامیاب کیا آج وہ مکھی کی طرح
یہاں بیٹھتے ہیں ہاتھ ملتے ہیں۔مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی
کھیت۔اپنے ہاتھوں سے اپنے پاوں کاٹنے والی قوم پر اگر کسی بھی طرح کا عذاب
آجائے تو وہ کسی سے شکوہ کرنے کے قابل نہیں ہوتی بلکہ وہ سزا اس کا حق اور
مقدر بن جاتا ہے ،اس لئے اس وقت عوام مہنگائی ،دہشت گردی،اور نا اہلی اور
حکمرانوں کی بدترین بے حسی کے رونے رونے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانک کر
دیکھیں کہ اس کا قصور وار کون ہے ،آج اگر موجودہ حکومت کچھ بھی کہتی ہے یا
وہ کرتی ہے وہ سب ٹھیک ہے، کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اس سے پہلے بھی اس ملک
کو لوٹ چکے ہیں عوام کو اپنی خواہشات پوری کرنے پر قربان کر چکے ہیں یہ نشہ
ان کی نس نس میں بس چکا ہے اپنی ذات کے علاوہ باقی سب جوتی کی نوک پر۔وہ
لوگ جو آج بھی کوڑی دو کوڑی کے بدلے میں اپنی عزت غیرت کا سودہ کرتے ہیں جو
ان حکمرانوں کے گن گاتے ہیں ،جو ماضی کی طرح یہی کہتے ہیں کہ سب اچھا ہے ان
سے عوام ایک ہی سوال پوچھتی ہے کہ کہاں گئے وہ دعوے کہ ہم ڈرون مار گرائیں
گے،ہم کشکول توڑ دیں گئے ،ہم امریکہ کی برابری پر بات کریں گے ورنہ نہیں
کریں گے،کہاں گئیں وہ بڑکیں کہ ہم ملک کو خود کفیل بنائیں گے ہم عوام کو
غیرت ،عزت دیں گے،ملک سے کرپشن کا خاتمہ کریں گے ،عوام کو انصاف دلائیں گے
ملک میں میرٹ کا بول بالا ہوگا ،روزگار ہوگا، ترقی ہو گی کہاں گیا وہ سب
کچھ ؟؟،آج ڈرون کی حمایت کیوں؟ نیٹو سپلائی رکنے پر تنقید کیوں؟ موجودہ
حکومت جواب دے کونسا امریکہ ،کونسی دوستی یہ سب تو ماضی میں بھی ہوتا رہا
ہے اور اس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے ،کون سی خود مختاری،کون سی
سورینٹی،یہ سب ڈرامے ہیں یہ سب عوام کو بے وقوف بنانے کے ڈھونگ ہیں ،سچ یہی
ہے ہم غلام حکمرانوں کی غلام عوام ہیں۔ ہمارے حکمران اور ان کی عوام غلاموں
کی طرح خواب تو دیکھ سکتے ہیں مگر غلامی کی زنجیریں نہیں توڑ سکتے کیوں کہ
غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے کشکول کی نہیں، غیرت کی ضرورت ہوتی ہے ،عوام
کو بھوک سے ڈرانے کے بجائے ان کو خود انحصاری کا سبق دیا جاتا ہے،قومیں
بڑکیں مارنے سے نہیں بلکہ دیانت داری کے ساتھ ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہو کر
عوام کو غلامی کے چنگل سے نکالنے کے لئے عملی کام کرنا ہوتا ہے۔اپنی
تجوریاں نہیں بھری جاتی ہے بلکہ وہ عوام جن کے ووٹوں سے ان کو کرسی اور جن
کے ٹیکسوں سے ان کو تنخوائیں ملتی ہیں ان کے فلاح و بہودکے کام کئے جاتے
ہیں،کشکول کی اہمیت نہیں بلکہ خود انحصاری کے ساتھ جینا سیکھایا جاتا ہے۔
مگر یہ کام زندہ قوموں کے زندہ لیڈروں کا ہے مردہ ضمیر وں کا نہیں۔ |