انسداد فرقہ وارانہ فساد بل

بی جے پی دو منہ کا سانپ ہے تو کانگریس بھی دوغلی ہے

فرقہ وارانہ فسادات، فرضی انکاؤنٹرس، غیرقانونی جاسوسی اور مسلسل جھوٹ بولنے کے ماہر نریندر دامودر مودی تک اگر مجھ جیسے عام اور کمزور شخص کی آواز پہونچے تو ان سے یہ دریافت کیا جانا چاہے کہ مہاشے جی! کیا واقعی آپ دو منہ والے سانپ ہیں اور آپ کی پارٹی دوغلوں کی پارٹی ہے؟ یہ سوال اس لئے پوچھا جانا چاہئے کہ نہ تو مودی (موذی پڑھئے) کے قول وعمل میں کوئی یکسانیت ہے اور نہ ہی بی جے کی جانب سے اختیار کئے جانے والے موقف پر پارٹی کے درمیان کوئی تال میل۔ معاملہ چاہے ہندوتو کا ہو، آرٹیکل 370کا ہو، مندر مسجد کا ہو یا پھر انسداد فرقہ وارانہ فساد بل کا ہو۔ ہر معاملے میں مودی الگ ڈفلی بجارہے ہیں تو پارٹی کی قیادت علاحدہ اچھل کود کررہی ہے ۔

تازہ ترین معاملہ انسداد فرقہ وارانہ فساد بل کا ہے ، جس کی اگر بی جے پی کی جانب سے اس لئے مخالف ہورہی ہے کہ اس میں فسادات کے لئے اکثریتی فرقے کو ذمہ دار قرار دئے جانے کی شق موجود ہے تو مودی وزیراعظم کو خط لکھ کر اس لئے اس بل کو منظور نہ کرنے کی سفارش کرتے ہیں یہ ان کی نظر میں یہ ملک کے لئے تباہ کن ہوگا۔مودی نے یہ خط گزشہ جمعرات یعنی کہ 5دسمبر2013کوتحریر کیا ہے ۔بی جے پی کی جانب مجوزہ انسداد فرقہ وارانہ بل کی مخالفت اور مودی کی جانب سے بل کو منظور نہ کئے جانے کا سفارشی خط اس بات کا غماز ہے کہ مودی اور بی جے پی میں پالیسی کے لحاظ سے نہ کوئی اتحاد ہے اور نہ ہی کوئی تال میل ، دونوں اپنے اپنے چہروں پر مکھوٹا ڈالے ہوئے ہیں اور دونوں ہی دو منہ کے ایسے سانپ ہیں کہ کب کس جانب سے ڈس لیں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ہفتے اسی کالم میں بی جے پی کے سابق صدر نتن گڈکری کی مسلم ہمدردی کا تذکرہ کیا گیا تھا جو 18؍نومبر2013کو دہلی میں اردو اخبارات کے مدیران سے ملاقات کے دوران ظاہر ہوا تھا ۔ اس ملاقات میں انہوں نے اپنے آپ کو اور اپنی پارٹی کو مسلمانوں کا سچا ہمدرد قرار دیا تھا۔ اس ملاقات کی رپورٹ میڈیا میں شائع ہونے کے بعد اندازہ یہ ہورہا تھا کہ مسلمانوں کے تعلق سے بی جے پی کے رویے میں کچھ حد تک تبدیلی آئی ہے اور وہ مسلمانوں کو تحفظ دینے کے معاملے میں جو آج مسلمانوں کا سب سے سنگین مسئلہ ہے ، کچھ ایسے اقدام کرنا چاہتی ہے جو کانگریس کی ’تسٹی کرن‘(بقول بی جے پی) کی پالیسی کے برخلاف کسی ٹھوس بنیاد پر مبنی ہوگا۔(یہ الگ بات ہے کہ اس ملاقات میں دہشت گردی کو براہِ راست مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی) مگر بی جے پی کے سابق صدر کے اس ہمدردی کے ناٹک کاسین ابھی ڈراپ بھی نہیں ہوا تھا کہ پھربی جے پی اپنے اصلی رنگ میں آگئی اور اپنی روایت کے مطابق انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل کی منظوری کی راہ میں رخنہ ڈالنے کی کچھ اس طرح کوشش شروع کی ہے کہ سانپ اور لاٹھی کی کہاوت سچ ثابت ہو۔ یعنی کہ اکثریتی فرقے کے لوگ گمراہ بھی ہوجائیں اور کانگریس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام بھی عائد ہوجائے ۔

نتن گڈکری کے ذریعے بی جے پی نے مسلمانوں کے ساتھ جس ہمدردی کا اظہار گزشتہ دنوں کیا تھا ، اس کے بین السطور سے ہی بات واضح ہورہی تھی کہ یہ ہاتھی کے دانت والا معاملہ ہے اور جس پر اسی کالم میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا تھا کہ بی جے پی کی ہمدردی کا یہ جو کٹورہ چھلک رہا ہے اس کے پسِ پشت دہلی سمیت دیگرریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہیں اور اس کے ذریعے مسلمانوں کے ووٹوں کو منتشر کرنے کی ایک کوشش کی گئی تھی۔ دوسری جانب ہندوستانی ہٹلروسلوبوڈن میلوسویچ نریندر مودی نے مسلمانوں کے تعلق سے ’ویژن ڈاکیومنٹ‘ تیار کرکے مسلمانوں کے تعلق سے اپنی پالیسی کو واضح کیا تھا اور ان کی اسرائیلی پی آر ایجنسی نے اس کے ذریعے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مودی اب موذی نہیں رہ گئے ہیں۔

بی جے پی اور مودی کی ’مسلم تسٹی کرن‘ کی یہ لہر جب پورے ملک میں چل رہی تھی اور کچھ جبہ ودستار واردو صحافت کے کچھ خودساختہ علمبردار جس وقت بی جے پی اور مودی کو اچھوت قرار نہ دیئے جانے کی مہم چلارہے تھے، اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ مسلمانوں کی حقیقی ہمدردری سے اس کا دور کا بھی علاقہ نہیں ہے۔ اب جبکہ پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس جاری ہے ، یہ اندازہ بالکل درست ثابت ہوگیا ہے کہ بی جے پی کی مسلم ہمدردی کے غبارے میں جو گیس بھرا گیا تھا وہ صرف انتخابات کے پیش نظر تھا۔پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس محض 15؍دنوں کے لئے بلایا گیا ہے اور اس اجلاس میں اس بات کی امید کی جارہی تھی کہ انسداد فرقہ وارانہ فساد کا مجوزہ قانون ٹیبل ہوگا۔ مگر بی جے پی کی سربراہی میں دیگر کچھ جماعتوں نے اوربی جے پی کے ممکنہ وزیراعظم مودی نے کچھ ایسا پانسا پھیکا ہے کہ ان کی مسلمانوں کی ہمدردی کا طوفان پانی کا بلبلہ ثابت ہوا اور ان کی دوغلی پالیسی جگ ظاہر ہوگئی ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ بی جے پی ملک میں ہوئے ہرفرقہ ورانہ فسادات کی ذمہ داری کانگریس پر ڈالتی رہی ہے اوراس کی وجہ کانگریس کی مسلم تسٹی کرن کی پالیسی بتاتی رہی ہے ۔ یعنی کہ کانگریس نے مسلمانوں کی منہ بھرائی کے ذریعے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرتی ہے جو فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر بی جے پی کے اس واویلے کو تھوڑی دیر کے لئے سچ بھی مان لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی اور بی جے پی کی ہمدردی کے اس حالیہ لہر کو کس خانے میں رکھا جائے گاجس کی تشہیر کے لئے کچھ مسلمانوں جیسے ناموں کو آگے لاکر مودی کو مسلمانوں کا ہمدرد بتانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔( میری مراد ظفر سریش والا سے ہے) ۔کیا یہ تسٹی کرن نہیں ہے کہ کانگریس کی فرقہ پرستی کو اجاگر کرنے کے بہانے مسلمانوں کی ہمدردی کا ڈھولک بجایا جائے۔ کیونکہ کانگریس کی مسلمانوں سے ہمدردی کی بنیاد جس طرح محض زبانی ہے ، اسی طرح بی جے پی بھی زبانی ہمدردی کا اظہار کرکے دہشت گردی اور فرقہ وارانہ فسادات کے اصل ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دے رہی ہے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ غیرضروری نہیں ہوگا کہ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ فسادات کے ضمن میں مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے معاملے میں کانگریس اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ کانگریس کی اس دوہری پالیسی سے اب ملک کا ہر ہوشمند شہری واقف ہوچکا ہے کہ یہ مسلمانوں کو فرقہ پرست جماعتوں کا خوف دلا کر صرف ان کے ووٹ ہتھیانے کی کوشش کرتی ہے۔ مسلمانوں کے وہ تمام مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں جس کا تذکرہ رنگناتھ مشرا کمیشن یا سچر کمیشن کی سفارشات میں کیا گیا ہے ۔ جبکہ اگر یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان مسائل میں آج بے انتہا اضافہ ہوچکا ہے اور آج دہشت گردی کی جس عفریت سے پورا ملک پریشان ہے ، اس کی تمام تر ذمہ داری مسلمانوں کے سر تھوپنے میں بھی کانگریس کی اسی ووٹ بینک کی پالیسی ہی کارفرما ہے۔

دہشت گردی کے معاملے میں کیا کانگریس کی یہ دوہری پالیسی نہیں ہے کہ ایک جانب اس کے وزرائے داخلہ علی اعلان بھگوادہشت گردی کی موجودگی کی بات کرتے ہیں اور بات جب اس کے خلاف کارروائی کی آتی ہے تو معذرت طلب کرلیتے ہیں۔ رہی بات انسداد فرقہ وارانہ فساد قانون کی ، تو اس کے ابھی تک التواء میں پڑے رہنے کے پسِ پشت بھی کانگریس کی دہری پالیسی ہی ہے۔کیا کوئی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ حکومت کوئی فیصلہ کرنا چاہے اور محض کچھ لوگوں کی مخالفت کی بناء پر وہ فیصلہ نہ کرسکے؟ ہے نا یہ بادیٔ العقل بات؟اگر کانگریس انسداد فرقہ وارانہ فساد قانون منظور کرنا چاہئے تو بھلا کون ہے اس کی مخالف کرنے والا؟

اس بات سے ہم سب واقف ہیں اور اس کا تذکرہ اس سے قبل بھی کیا جاچکا ہے کہ جب بھی سرکاریں کچھ کرنا چاہتی ہیں تو وہ فیصلے لیتی ہیں اور جب نہیں کرنا چاہتیں تو طرح طرح کے حیلے بہانے کرتی ہیں اور سب سے بڑا حیلہ اپوزیشن کی مخالفت کا واویلا ہوتا ہے۔آزادی کے 60سالوں میں حکومتی ایوانوں میں کئے گئے فیصلے اس بات کے گواہ ہیں کہ سرکاریں جب کچھ کرنے پر آمادہ ہوتی ہیں تو کسی قسم کی مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کے لئے ہر حربہ اور ہر طریقہ بروئے کار لاتی ہیں۔ اس کے لئے چاہے اپوزیشن سے سودے بازی کرنا ہو، مخالفین کے حصے بخیئے کرنا ہو، چاہے اپنی تجویز کے حق میں حمایت خریدنا ہو یا پھر مخالفین کو خاموش کرکے اپنی بلوں کو منظور کرانا ہو۔ کئی کئی معاملات میں تو وہ اپنی وجود کو بھی داؤ پر لگا دیتی ہیں اور ایک آدھ بار تو ایسا بھی ہوا ہے کہ سرکاروں نے ٹوٹنا تو منظور کرلیا لیکن جھکنا منظور نہیں کیا۔

لیکن یہ تمام معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا عام طور پر براہِ راست سروکار ہندوستانی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔ کانگریس اگر چاہتی تو انسداد فرقہ وارانہ فساد مخالف قانون کب کا منظور ہوچکا ہوتا ، مگر یہ اسی وقت ہوتا جب نیت میں کوئی کھوٹ نہ ہوتی۔ یہاں تو ملک کے مکمل سیاسی نظام کی بنیاد ہی کھوٹ پر ہے تو بھلا یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ حکومت اپنی مرضی اورپارٹی مفاد کو بالائے طاق رکھ انسداد فرقہ وارنہ فساد بل منظور کرالے گی۔حقیقت یہ ہے کہ کانگریس خود اس مجوزہ بل کو منظور کرنے یاکرانے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ برسوں سے التواء یہ بل حکومتی معیاد کے ختم ہونے کے قریب تک منظور نہیں ہوسکا ہے اور اب اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ یہ رواں پارلیمانی اجلاس میں منظور ہوسکے گا۔

پارلیمنٹ کے رواں سرمائی اجلاس میں ممکن تھا کہ انسداد فرقہ وارانہ فساد بل کو منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا۔ مگر اس بار بھی اس میں وہی میل میخ نکالی گئی ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے اس کی منظوری کی راہ میں حائل ہے۔ اس بل کے مخالفین اسے اکثریتی فرقہ کے مفادات کے منافی اور ریاست کے اختیارات میں مرکز کی بے جا مداخلت قرار دے رہے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ اس مجوزہ قانون سے ملک میں جاری فسادات کے سلسلے پر روک لگانے میں مدد ملے گی ، بی جے پی واس کی دیگر حمایتی پارٹیاں عوام کوگمراہ کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کو فائدہ پہونچانے والاقانون قرار دے رہی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس مجوزہ قانون کے ذریعے صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ ملک کی تمام اقلیتوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں پر روک لگے گی اورکشمیری پنڈت بھی اس سے مبرّا نہیں رہیں گے ۔

اب جبکہ بی جے پی ونریندر مودی نے اس کی بے بنیاد اور کھل کر مخالفت شروع کردی ہے تو کیا مرکزی حکومت کے لئے یہ ضروری نہیں ہوجاتا کہ ملک کو فرقہ وارانہ فسادات سے بچانے کے لئے یہ بل جلد از جلد منظور کیا جائے ؟ یہ اس لئے بھی ضرروی ہے کہ بی جے پی ومودی نیز اس کی دیگر حمایتی پارٹیاں کبھی نہیں چاہیں گی کہ ان کی سیاسی طاقت میں فساد کے ذریعے اضافے کے آمودہ طریقے پر روک لگے۔ اس لئے انسداد فرقہ وارانہ فساد کایہ قانون مسلمانوں کے لئے ہی نہیں، دیگر اقلیتوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ملک کی سلامتی کے لئے بے حد ضروری ہے اور اس کی منظوری واطلاق جمہوریت کے استحکام کے لئے ایک سنگِ میل ہوگا اور فرقہ پرستی کی تابوت میں آخری تو نہیں ، البتہ ایک کیل ضرور ثابت ہوگا۔لیکن بی جے پی نیز اس کی ہمنوائی کرنے والی دیگر سیاسی جماعتوں کی ایماء پر اگر اس بل سے ان شقوں کو خارج کرنے کے بعد اسے منظور کیا گیا جس پر انہیں اعتراض ہے تو یہ بل حقیقی معنوں میں کسی کام کا نہیں ہوگا ۔ نا یہ انسداد فساد میں معاون ہوگا اور نہ ہی فسادکے ذمہ داروں کو سزا ہی دلا سکے گا۔ البتہ یہ مسلمانوں پر کندھوں پر ایک اور بوجھ ہوگا کہ لو ہم نے تمہارے لئے یہ بھی کردیا۔ لعنت ہے ایسی سیاست پر۔

Aazam Shahab
About the Author: Aazam Shahab Read More Articles by Aazam Shahab: 7 Articles with 3951 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.