نئی دہلی کی ایک عدالت نے متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین
اور حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین اور سات دیگر کشمیریوں کو
اشتہاری ملزم قرار دے دیا ہے۔ بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے)
نے ایک خصوصی عدالت میں حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے 10 کشمیریوں کے
خلاف آئی پی سی کی دفعات 120Bاور 121Aکے علاوہ غیرقانونی سرگرمیوں کے
انسداد سے متعلق قانون کی دفعات 17،18،18A،18B،38،39اور40کے تحت چارج شیٹ
دائر کی ۔ چارج شیٹ کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے حزب المجاہدین کے چیف
کمانڈر سید صلاح الدین، ڈپٹی کمانڈر غلام نبی خان عرف عامر خان سمیت آٹھ
افرادکو اشتہاری ملزم قراردیا۔ این آئی اے کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں
الزام عائد کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر افیکٹیز ریلیف ٹرسٹ کی آڑ میں
پاکستان میں مقیم حزب المجاہدین کے شدت پسندوں نے مختلف راستوں سے بھارت
میں سرگرم کشمیریوں کو پیسے فراہم کئے۔ پی ٹی آئی کے مطابق این آئی اے پہلی
بار پاکستان کو ایک عدالتی استدعا بھیجے گی جس میں سید صلاح الدین کی
گرفتاری کا مطالبہ کیا جائے گا۔ این آئی اے کو حکومت کی جانب سے پاکستان کو
خط لکھنے کی اجازت مل گئی ہے جس میں حکام کو صلاح الدین اور 7 دیگر
کشمیریوں کو گرفتار کرنے کی درخواست کی جائیگی۔ بھارتی حکام کے مطابق سید
صلاح الدین نے 1989 سے پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ
بھارت میں سید صلاح الدین اور 7 دیگر کشمیریوں کو اشتہاری قرار دے کر
پاکستان کو یہ خط بھیجا جا رہا ہے۔ این آئی اے نے اپنی چارج شیٹ میں کہا ہے
کہ جموں و کشمیر افیکٹیر ریلیف ٹرسٹ کو وادی کشمیر میں 13 کروڑ روپے فراہم
کئے گئے ہیں اور اس تنظیم کو حزب المجاہدین ریاست میں عسکریت پسندوں کو
مالی معاونت فراہم کرتی ہے۔ ایجنسی کے مطابق دوران تحقیقات یہ پتہ چلا ہے
کہ حزب المجاہدین نے مختلف چینلز کے ذریعے فنڈ بھیجے ان میں حوالہ، بنکنگ
نیٹ ورک، سرحد کے آرپار تجارت شامل ہیں۔ این آئی اے کے مطابق محمد شفیع شاہ
عرف داؤد نے مبینہ طور پر 13 کروڑ روپے کی رقم اکٹھی کی اور اسے حزب
المجاہدین کی جانب سے عسکریت پسندوں میں تقسیم کیا گیا۔ چارج شیٹ میں صلاح
الدین کے علاوہ ان کے نائب غلام نبی خان عرف امیر خان، عمر فاروق شیرا عرف
محبوب الحق، منظور احمد ڈار عرف مسرور ڈار، ظفر حسین بھٹ عرف خورشید،
نذیراحمد ڈار عرف شبیر الہی، عبدالمجید صوفی عرف مجید بیساطی اور مبارک شاہ
شامل ہیں۔ این آئی اے نے حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے دو افراد محمد
شفیع شاہ عرف داؤد عرف ڈاکٹر اور طالب لالی عرف طالب حسین لالی عرف وسیم
عرف ابوعمر پر مجاہدین گروپوں کو فنڈز تقسیم کرنے کے الزام میں مقدمہ درج
کیا ہے۔ شفیع شاہ کو اکتوبر 2011ء میں سرینگر کے نواح سے گرفتار کرکے این
آئی اے کے حوالے کیا گیا تھا۔ طالب لالی کو بانڈی پورہ سے 4 ستمبر کو
گرفتار کرکے این آئی اے کے حوالے کیا گیا۔ شفیع شاہ پر 13 کروڑ روپے اکٹھے
کرکے تقسیم کرنے کا الزام ہے۔واضح رہے کہ بھارتی عدالت نے یہ فیصلہ 30
نومبر کو کیا ہے۔ بجائے اس کے کہ نئی دہلی حقیقت پسندی سے کام لے کر
کشمیرکے مسئلے کے حل کی اہمیت کو سمجھنے کے بعد سید صلاح الدین کو با معنیٰ
مزاکرات کی دعوت دیتی، وہ اہل کشمیر کو ڈرا دھمکا کر وقت گذاری سے کام لے
رہی ہے ۔"اگر یہ الزام کہ صلاح الدین اور ان کے ساتھی کشمیر میں تشدد کو
ہوا دینے کے لئے روپیہ پیسہ فراہم کر تے ہیں صحیح ہے، تو این آئی اے کو پھر
غلام حسن میر اور دیگر بھارت نواز سیاست دانوں کے خلاف بھی ویسے ہی مقدمہ
درج کرنا چاہئے جیسے کہ اس نے صلاح الدین اور ان کے ساتھیوں کے خلاف درج
کیا ہے ۔وی کے سنگھ کی طرف سے یہ انکشاف کہ غلام حسن میر اور کچھ دیگر
بھارت نوازسیاست دانوں نے 2010میں امن و امان کی بر ہمی کے لئے مرکزی
ایجنسیوں سے کروڑوں روپیہ وصول کیا ہے تو ان کا جرم کس طرح قابل معاف ہو
سکتا ہے ۔صلاح الدین کے طریقہ کار سے کسی کو بھی اختلاف رکھنے کا بھر پور
حق حاصل ہے لیکن جس مقصد کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا رکھا ہے
وہ کسی بھی طرح سے انصاف کے تقاضوں اور بین الاقوامی ضوابط سے متصادم نہیں
ہے ۔ہر کسی کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ صلاح الدین اور ان کے ساتھی جموں
و کشمیر کے شہری ہیں اور ان ہی لوگوں کی وجہ سے کشمیرکا مسئلہ بین الاقوامی
برادری کی نظروں میں آچکا ہے نیز یہ لوگ کشمیریوں کی قربانیوں کے حقیقی
وارث ہیں۔ اگر بھارت واقعی امن کا خواہاں ہے تو اس سے کسی تاخیر کے بغیر
صلاح الدین کوبا معنیٰ مزاکرات کی دعوت دینی چاہئے ۔ تحریک آزادی جہاں
سیاسی محاذ پر سرگرم ہے وہیں عسکری محاذ سے وابستہ جیالے اپنی زندگیاں
ہتھیلی پر رکھ کر اپنا آج ملت کے کل پر قربان کررہے ہیں۔ بھارت کو چاہئے کہ
وہ تنازعہ کشمیر سے متعلق عالمی سطح پر مسلمہ حقائق کو تسلیم کرکے جنوبی
ایشیائی خطے میں ایک اہم ملک ہونے کا ثبوت فراہم کرے مگر بد قسمتی سے نئی
دہلی کے حکمران اور پالیسی ساز صرف اور صرف اپنے سیاسی مفادات کی خاطر
اوراپنے ہی ملک کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی پالیسی پر کاربند ہیں ۔ حالانکہ
اس طرز عمل سے نہ تو تنازعہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت متاثر ہوسکتی ہے اور نہ
جموں کشمیر کے عوام کے دلوں سے جذبہ آزادی کو ختم کیا جاسکتا ہے البتہ امن
و استحکام کے قیام کو برابر خطرات لاحق رہیں گے۔ سید صلاح الدین احمد کو
دہشت گردی کے کھاتے میں ڈالنے کی بچگانہ کوشش سے اس حقیقت کا بھی پردہ فاش
ہوگیا ہے کہ بھارت امن،مذاکرات، حل اور اعتماد سازی کے بارے میں جو بیانات
دیتا آرہا ہے وہ نہ صرف ڈھکوسلہ بلکہ ایک ایسا جھوٹ ہیں جس پر اعتبار کرنا
کسی بھی صاحب عقل کیلئے ممکن نہیں ہے ۔ بھارت مسلسل کشمیری نوجوانوں کو بے
بنیاد کیسوں میں پھنساکر نئی دلی منتقل کرنے کی پالیسی پر اس لئے عمل پیرا
ہے تاکہ وہ یہاں جاری جد و جہد کو دہشت گردی کے خاتے میں ڈال سکے تاہم
عالمی اور خود بھارت کی مقامی سطحوں پر ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کو اس
بات کا اعتراف ہے کہ جموں کشمیر کے عوام کسی بھی ملک کیخلاف کوئی عناد نہیں
رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنا وہ سیاسی حق ڈھونڈ رہے ہیں جس کی پشت پر عالمی
ایوانوں کی پاس کردہ قراردادیں اور خود بھارتی وعدے ہیں۔ تنازعہ کشمیر کا
حل یہ نہیں کہ صلاح الدین کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششیں کی جائیں اور
سید صلاح لدین احمد یا دیگر کو اشتہاری مجرم قرار دیا جائے بلکہ اس کو صرف
حقائق تسلیم کرکے عوام کی مرضی کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے اس کیلئے جموں
کشمیر کے عوام اُس وقت تک محو جد و جہد رہیں گے جب تک کہ اُن کا مطالبہ
پورا نہیں کیا جاتا۔ |