کہا جاتا ہے کہ کوئی قوم اس وقت برباد نہیں ہوتی جب ان
میں جاہل لوگ زندہ ہوتے ہیں بلکہ کوئی بھی قوم اس وقت برباد ہوتی ہے جب اس
قوم کے اچھے لوگ خاموش ہو جاتے ہیں جھوٹے اور مکار لوگوں کی بات کا کیا
جواب دیا جاسکتا ہے کبھی ضمیر کا سودا کیا نہ کبھی ایسا ممکن ہو پائے گا اب
اس بات کی کس کو فرصت کے سیاسی بے روزگار کی ہر جھوٹی دلیل پر بحث کی جائے
پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی اور مثبت تبدیلی اس وقت آ ئی جب ایک سابق
ٹیسٹ کرکٹر نے اپنی پارٹی بنا کر سیاست میں قدم رکھنے کا اعلان کیا پہلے
پہل تو اس کی پارٹی کو تانگہ پارٹی اور اس کی پالیسیوں کو ون مین شو کہا
جاتا رہا وقت ہمیشہ اچھا منصف ہوتا ہے اور ہمیشہ ٹھیک فیصلہ کرتا ہے آج وہ
سابق کر کٹر پاکستان کی قومی اسمبلی میں 36نشستیں لے کر بیٹھا ہے کوئی کچھ
بھی اتنی نشستیں جیتنا اس قدر بھی آسان نہیں جس طرح اخباری سیاست دان کہتے
پھرتے ہیں خیبر پختون خواہ میں اس کی حکومت قاہم ہے آئندہ اس پارٹی کی
سیاسی اہمیت کیا ہو گی یا کیا نہیں اس کا تو خدا بہتر جانے لیکن جہاں تک
میرا خیال ہے مقبولیت کے فروغ یا اس کی کمی کا دار و مدار اب خیبر پختوں
کواہ کی گورنمٹ پر ہے اگر انہوں نے وہاں کچھ ڈلیور کیا تو کل کو کپتان مثال
پیش کر سکے گا ورنہ کچھ بھی نہیں خبر ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے سابق
امیدوار معروف بزنس مین قاضی محمد اسرائیل نے تحریک انصاف میں شمولیت کا
اعلان کر دیا قاضی محمد اسرائیل صاحب کا تعلق چونکہ آزاد کشمیر کے پسماندہ
ضلع نیلم ویلی سے ہے حکومتی نمائندے کی کارکردگی کا بھی لگ پتا جانا ہے
لیکن اب تک اطمینان بخش نہیں رہے اپوزیشن راہنما ء شاہ غلام قادر صاحب تو
ان کے چاہنے والے کا یہ موقف بلکل درست ہے کہ ان کا میڈیا ٹرائیل کرنے کے
بجائے عدالتی فیصلے پر انحصار کیا جائے چونکہ ابھی تک عدالتی فیصلہ خود
نہیں پرا جا سکا اس لیے اخبار کی خبر کو بنیا د بنا کر بحث کر لا ھاصل بات
اس لیے اس بحث کو کسی اور دن کے لیے چھوڑ دیتے ہیں وقت شمولیت ان کا کہنا
تھا کہ عمران کان کے ویژن سے متفق ہو کر تحریک انساف میں شمولیت کا فیصلہ
کیا آزاد کشمیر میں چونکہ عام انتخابات میں ابھی وقت ہے لیکن حکومتی موقف
کے مطابق بلدیاتی انتخابات اپریل میں کرائے جانے ہیں پی ٹی آئی کے زرائع کے
مطابق پارٹی نے آئندہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے تو
محنت درکار ہو گی سخت محنت پاکستان کی سیاست اور آزاد کشمیر کی سیاست میں
کافی فرق ہے پاکستان میں لوگوں تک پارٹی کا پیغام پہنچانا آزاد کشمیر کی
نسبت کافی آسان ہے حقیقت ہے اور اٹل حقیقت سیاسی قائدین کچھ بھی کہیں قاضی
اسرائیل نے وہ فیصلہ کر دیا جس کی آزاد کشمیر اور بلخصوص نیلم ویلی کے
لوگوں کی خوائش تھی میڈیا میں تنقید کا نشانہ بنایا جائے یا کچھ اور کیا
جائے وہ ناکام ہوئے اور مکمل ناکام قاضی صاحب نے ان کو کورا جواب دے دیا
تھا ان کے لیے کسی صورت قابل برداشت نہیں ہو گا کہ وہ تحریک انصاف میں شامل
ہو گے نیٹو سپلائی روکنے کا منصوبہ بلکل درست تھا اور ہے بھی میڈیا میں
کیچڑ اچھالا جا رہا ہے تو حرج نہیں عوامی مقبولیت سے محروم لوگوں کو اب
سیاسی زندگی کے بچاو کے لیے میڈیا کا سہارا لینا ہے اور میڈیا مین ان رہنے
کے لیے ان کے پاس سوائے اس بات کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ عمران خان پر تنقید
کریں مولانا فضل الرحمان صاحب کی شان میں کچھ کہا تو گستاخی ہو جائے گی اس
لیے خان صاحب کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینے
الیکڑانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف کمپین ایک تو لاحاصل مشق ہے
اور دوسرا ان کی مقبولیت کا مفت میں سامان کرنے والی بات جانتا ہوں اور بڑی
گہرائی سے اس بات کا علم رکھتا ہوں کہ آج آزاد کشمیر میں تحریک انساف کے
کارکنوں کو ان سوالات کا سامنا ہے جو آج سے چند سال قبل پاکستان میں تھا
کئی لوگوں کو کہتے سنا اور دیکھا کہ عمران کان کشمیر مخالف ہے اس کی کشمیر
پر کوئی پالیسی نہیں حالانک حقیقت یہ ہے کہ میر پو ر آزاد کشمیر جلسے میں
عمران کان اعلان کر چکا ہے کہ کشمیر کشمیر یوں کا ہے ہم کشمیریوں کے حق خود
آرادیت کی حمایت کرتے ہیں اور آزا د کشمیر کی عوام کے فیصلے اسلام آباد میں
نہیں بلکے آزا د کشمیر میں ہونے چاہیے اس سے واضع کشمیر پالیسی تا حال کوئی
بیان نہیں کر پایا لیکن عقل کے اندھے اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کر یں گے
کیوں کے ان کے دل پر مہریں ثبت ہو چکی ہیں قاضی ساحب کی شمولیت بارش کا
پہلا قطرہ ضرور مگر اب اس بات کا زمہ داران کو خیال ہونا چاہیے کہ بہت سارے
ہونگے جو تحریک انساف میں شمولیت کے لیے پر تول رہے ہوں گے قاضی اسرائیل کے
شمولیت باعث فخر سہی مگر ایسا نہ ہو کہ وہی لوگ جنہوں نے پچھلے 60سال کرپشن
کی سیاسی جماعتوں سے مفادات حاصل کیے اب وہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے
تحریک انصاف کا حصہ بن جایں ایک بڑے تعداد میں پڑھے لکھے اور نیک شہرت
سیاست دان بھی تحریک انصاف میں شمو لیت اختیار کر سکتے ہیں سچ کو جھوٹ کبھی
لکھا نہ کبھی ایسا ممکن ہو پائے گا تحریک انصاف آزا د کشمیر کو بھی خود
احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا اور یا پارٹی کو کشمیر میں منظم کرنے کے لیے
سب سے اہم کردار ہو گا قاضی اسرائیل صاحب کی PTIمیں شمولیت کی خبر سنی تو
نیلم ویلی کا شہری ہونے کے ناطے ایک شہر یاد آیا کہ
منظر بدل گے پس منظر بدل گے
حالات میرے شہر کے یکسربدل گے |