آج مرکزی اور صوبائی حکومتیں
اکثر مسلمانوں کی پسماندگی پر آنسو بہاتی ہیں ،لیکن انکے یہ گھڑیالی آنسو
ایک مکر اور فریب سے زیادہ کچھ نہیں ۔جب الیکشن قریب آتا ہے تو بے چارے
مسلمانوں کی حالت سدھارنے کے لیے کمیٹیاں بنتی ہیں ،وعدے ہوتے ہیں، اعلانات
ہوتے ہیں ،کانفرنسیں اور سیمیناریں ہوتی ہیں مگر عمل کبھی نہیں ہوتا ۔ہاں
ایک بات پر سبھی متحد نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کو جیلوں میں ڈال کر ان پر
آتنک وادی کا لیبل لگادیا جاے اور ان کے جو نوجوان پڑھ لکھ کر ہمارے برابر
ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ان کا پر کتر دیا جاے تاکہ یہ کبھی ہماری برابری
کرنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکیں ۔اور اگر انھوں نے اپنی محنت ومشقت سے کچھ
حاصل کرلیا ہے ،انکی تجارت کامیاب ہونے لگی ہے ،انکے مکانات قابل دید ہوگیے
ہیں، انکی دکانوں پر رونق آگئی ہے تو چند منٹوں میں فسادات کراکر ان کو
ہمیشہ کے لئے معذور کر دیا جائے ،اور انھیں زندہ رہتے ہوے بھی مردوں سا کر
دیا جاے،ان کے گھر ،ہوں مگر وہ اس میں جانے کی ہمت نہ جٹا سکیں،ان کے کھیت
کھلیان ہوں مگر اسے دوبارہ شاداب کرنے کی جرأت نہ کر سکیں ۔آپ کو حیرت ہوگی
کہ آ ج جیلوں میں مسلمانوں کا فیصد انکی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ
ہے،ہم جس ملک میں اپنے آپ کو اقلیت کہتے ہیں ،وہاں کی جیلوں میں ہم اکثریت
میں ہیں ۔
جی ہاں ! مسلمان اگر دوچار لاکھ لے کر اپنا مکان ،دوکان حتی کہ اپنی بہن
بیٹیوں کی عصمت دری کو بھی بھلا سکتا ہے تواس کے ساتھ ایسا کرنے میں کیا
جاتا ہے اسے دوچار لاکھ کی کوڑی دے کر خاموش کر دیا جاے گااورجب الیکشن آے
گا تو انھیں قاتلوں،اور فسادیوں کے لئے ہمارے ہی بھائی بڑی بڑی ٹوپیاں لگا
کرووٹ مانگنے آئیں گے اور ہمارا مسلمان بھائی تو حاتم طائی سے بھی بڑا سخی
ہے وہ گجرات فساد کو معاف کر سکتا ہے ،بابری مسجد کا سانحہ بھول سکتا ہے
،توحالیہ دنوں میںواقع ہوے مظفر نگر جیسے سو سے زائد فسادات تو اسکی نظر
میں ایک ذرئہ ناچیز سے بھی کمتر ہیں ۔
میں صرف مسلمانوں سے اتنی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ کیا انکے بیدار ہونے کا
وقت ابھی قریب نہیں آیا۔خدارا اب بھی وقت ہے ہوش کے
ناخن لیں ورنہ ؎ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں |