ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں ہرن
اور ہرنی کا ایک جوڑا رہتا تھا اور ان کا ایک بہت ہی پیارا بچہ بھی تھا
اوریہ تینوں خوش وخرم زندگی بسر کررہے تھے ۔ایک دن وہ اپنے آنگن میں اکٹھے
گھاس چر رہے ہوتے ہیں کہ اچانک ان کی نظر تیندوے پر پڑتی ہے جوکہیں سے
نمودار ہوا تھا اورخون آشام نگاہوں سے ان کی جانب دیکھتے ہوئے گزر رہا ہے
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے ۔تیندوے کے چلے جانے
پریہ تینوں دوبارہ گھاس چرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔فراغت کے بعد ہرن اور
ہرنی کا جوڑا سستانے کیلئے وہیں لیٹ جاتا ہےاوربچہ اپنی مستی میں مگن اچھل
کود میں مصروف ہوجاتا ہے ۔جب ہرن کے جوڑے کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ دیکھتے
ہیں کہ ان کابچہ لاپتہ ہوچکا ہے،اسی پریشانی میں دونوں بچے کی تلاش کیلئے
تمام جنگل چھان مارتے ہیں مگر کہیں کوئی پتہ نہیں چل پاتا۔دونوں کا شک
تیندوے پر جاتا ہے کہ ان کے بچے کو تیندوااٹھا لے گیاہوگا۔ دونوں اس کیلئے
جنگل کے تمام جانوروں سے رابطہ کرتے ہیں جس پر تیندوے کے ڈر سےجانوروں کی
جانب سےکوئی بھی ان کی مدد کرنے کی بجائے صرف ہمدردی کا اظہار کرکے چھپ
سادھ لیتے ہیں۔آخر کار تنگ آکر پریشانی کے عالم میں دونوں جنگل کے بادشاہ
شیر سے اپنی شکایت کیلئے رجوع کرتے ہیں جس پر شیر تمام جنگل کے جانوروں کو
اس مسئلے کے حل کیلئے اگلی صبح پرانے برگد کے نیچے جمع ہونے کا حکم دیتے
ہیں۔اگلی صبح جنگل کے تمام جانور برگد کے نیچے جمع ہوتے ہیں اور شیر ہرن سے
بات کا آغاز کرتے ہوئے پوچھتا ہے کہ ہرن صاحب ہم آپ کے غم میں برابرکے
شریک ہیں۔ یہ بتائیں کہ آپ کا بچہ کہاں سے لاپتہ ہوا اور اسے لے جانے والا
کون تھا؟
ہرن شیر کا سوال سن کر پہلے تو تعجب سے شیر کو تکتا ہے ۔۔۔کچھ لمحوں کی
خاموشی کے بعد ہرن جواب دیتے ہوئے کہتاہے کہ اے جنگل کے حاکم میں تو سمجھتا
تھا کہ آپ جنگل کے والی و وارث ہیں اور آپ کو جنگل کے تمام حالات اور
واقعات کی پوری طرح خبر ہوگی ۔لیکن میری قسمت پھر بھی میں آپ کو بتاتا
چلوں کہ میرابچہ میرے اپنے ہی آنگن سے لاپتہ ہوا ۔اورمجھے پورا یقین ہے کہ
میرے بچہ کو تیندوا اٹھا لے گیا ہے۔۔۔۔شیر نے ہرن کی بات سننے کے بعد ایک
لمبی سانس لیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ تیندوامیرے خاندان سے ہے
اور آپ میرے سامنے ہی میرے خاندان کے رکن پر الزام لگارہے ہیں؟
ہرنی شیر کی بات پر جواب دیتے ہوئے کہتی ہےکہ جناب والا ہم جانتے ہیں
تیندوا آپ ہی کے خاندان کا ہے لیکن کیا بحیثیت منصف آپ کو یہ زیب دے گا
کہ آپ مجرم کو جانتے ہوئے بھی سزا نہ دے سکیں خواہ وہ مجرم آپ کا اپنا ہی
کیوں نہ ہو؟
شیر ہرنی کی جانب سے جواب پاکر مجلس برخاست کرتے ہوئےحکم صادرکرتا ہے کہ
جنگل کے تمام معزز جانور ہاتھی کی سربراہی میں ایک پنچایت بلائیں اور اس
معاملے کی چھان بین کریں اورجب تمام جانور اس بات پر متفق ہوجائیں کہ ہرنی
کے بچے کو اٹھانے والا تیندوا ہی تھا تو اس معاملے کو آگے بڑھایا جاسکتاہے
۔
شیر کے حکم پر ہاتھی اگلے ہی دن معزز جانوروں کی پنچایت بلالیتاہے ۔پنچایت
جب جمع ہوتی ہے تو ہاتھی تمام معززین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہرن کے
بچے کی گمشدگی صرف ان کا مسئلہ نہیں یہ تمام جنگل کا مسئلہ ہے اس پرہمیں مل
بیٹھ کربات کرنا ہوگی اوراس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔۔
ہاتھی کی بات سن کر زرافہ کہتا ہےکہ پہلے تو ہمیں یہ پتہ لگانا ہوگا کہ ہرن
کا بچہ جہاں کھیل رہا تھا وہاں کوئی انسان تو نہیں آیا ایسے نہ ہو کہ
انسان ہی شکار کی غرض سے بچے کو اٹھالے گئے ہوں؟
زرافہ کی بات سن کر پوری پنچایت اس کی ہاں میں ہاں ملاتی ہے ۔اس موقع پر
زیبرا بھی موقع کو غنیمت جان کر اپنا حصہ ملاتے ہوئے کہتا ہےکہ ان انسانوں
نے تو ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے ۔۔ان کی آبادی میں روز بروز اضافے نے
جنگل کے رقبے کو بھی چھوٹا کردیا ہے اب تو وہ ہمارے پانی پر بھی قبضہ کررہے
ہیں۔۔۔ہمیں انسانوں سے لڑنا ہوگا اسی میں ہماری بھلائی ہے۔۔۔زیبرے کی بات
سن کر جنگلی بیل لال پیلا ہوجاتا ہے ایسا لگتاہے کہ جیسے اس کے تن من میں
آگ لگ گئی ہو۔۔۔غصے بھرے لہجے میںزیبرے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بڑے
آئے انسانوں کو دوش دینے والے ۔۔۔۔۔پانی پرتو تم نے قبضہ کر رکھا ہے ،تمہارے
خاندان کے جھنڈ کے جھنڈ ندی پر ایسابرا جمان ہوتے ہیں جیسے یہ ندی نہ ہو
تمہارے باپ دادا کی جاگیر ہو ۔اور تمام میل کچیل اپنی ندی میں ہی نکال دیتے
ہیں اورہمارے خاندان والوں کو گدلا پانی پینے کو ملتا ہے ۔۔۔جنگلی بیل کی
بات پر زیبرا اور بیل میں زبانی جنگ چھڑ جاتی ہے جو متعدد مغلظات کے بعد
پنچایت کے اختتام پر ختم ہوتی ہے ۔۔۔پنچایت کے اختتام پر ہاتھی تمام
جانوروں کو دوسرے دن دوبارہ طلب کرنے کا حکم دیتا ہے ۔۔
دوسرے دن زیبرا ور جنگلی بیل دونوں ہی پنچایت میں غیر حاضر ہوتے ہیں ۔۔۔ہاتھی
کے پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں گروہ ندی کنارے پانی پینے گئے ہوئے
ہیں اور خوش باش ہیں۔۔۔۔ہاتھی یہ بات سن کر پنچایت برخاست کرتے ہوئےاگلی
صبح شیر کے ڈیرے پر پرانے برگد کے نیچے دوبارہ پنچایت طلب کرنے کا فیصلہ
سنا تا ہے ۔
اگلی صبح تمام جانور پرانے برگد کے نیچے دوبارہ جمع ہوتے ہیں جہاں شیراور
تیندواپہلے سے ہی وہیں موجود ہوتے ہیں۔۔۔شیر پنچایت کی تفصیلات بتانے کیلئے
ہاتھی کو آگے آنے کا حکم دیتے ہیں ۔۔۔جس پر ہاتھی مختصراً بتاتا ہے کہ
جنگل کے تمام جانور اس بات پر متفق ہیں کہ تمام مسائل کی جڑ انسان ہیں۔شیر
ہاتھی کی بات سن کر بڑا خوش ہوتا ہے ۔اور اس پر سب کی رائے طلب کرتا ہے کہ
انسانوں کے مقابلے کیلئے کیا کیا جائے ؟ اس موقع پر ہاتھی کہتا ہے کہ
انسانوں سے مقابلہ کرنے سے پہلے ہمیں جنگل میں ہونے والے تمام نقصانات کی
تفصیل اکٹھی کرنا ہوگی ۔اس بات پر شیر الو کوحکم دیتے ہیں کہ تمام نقصانات
کی تفصیل کل تک یہاں ہمیں مل جانی چاہیئے؟
ہرن اور ہرنی اس موقع پر بے بسی کی تصویر بنے کھڑے اپنے پیارے کو یاد
کررہےہوتے ہیں اور اپنے بچے کی راہ دیکھتے ہیں ۔۔
اگلے دن دوبارہ تمام جانورپرانےبرگد تلے جمع ہوتے ہیں اور الو صاحب شیر کے
سامنے نقصانات کی ایک لمبی فہرست بتاتے ہوئے کہنا شروع کرتے ہیں کہ آج سے
ہزاروں سال پہلے اس پورے جنگل پر ہمارا راج تھا ۔۔جس کے بعد انسانوں کی
آبادی نے آہستہ آہستہ اس جنگل پر قبضہ شروع کیا ۔سب سے پہلے انسانوں نے
ہمارے سینکڑوں درخت کاٹے ۔اور لکڑیاں اپنے ساتھ لے اڑے اور جنگل کے آدھے
سے زیادہ رقبے پراپنا ایک شہر بسا لیا اور کئی درخت ان کے کوڑا کرکٹ کی وجہ
سے بے موت مرگئے۔اور دوسری جانب ہماری پہاڑ والی ندی پر بھی انسانوں نے
قبضہ کرلیا جس کے باعث تمام جانوروں کو میدان والی ندی پر پانی پینا پڑ رہا
ہے ۔۔
الو کی تفصیلات سننے پر شیر حیران رہ جاتا ہے اور ایک بہت ہی مختصر فیصلہ
سناکرمقدمہ ختم کردیتا ہے کہ انسانوں سے لکڑیوں اور پانی کا حساب لیا جائے
۔
شیر کافیصلہ سن کر ہرن اور ہرنی مایوس نگاہوں سے شیر کی جانب دیکھتے ہوئے
سوال کرتے ہیں کہ اے جنگل کے بادشاہ ہمارے بچے کا کیا ہوگا۔
تو شیر سرفخر سےبلند کرتے ہوئے جواب دیتا ہے کہ ہماری بادشاہی میں کسی سے
نا انصافی نہیں ہوگی لکڑیوں اور پانی کا حساب ملتے ہی تمام جانور خوشی سے
زندگی گذارنے لگیں گے۔
ہرن دوبارہ استدعا کرتا ہے کہ ہمارا بچہ۔۔۔۔۔۔
شیر ہرن کی بات کاٹتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم اپنا فیصلہ سنا چکے۔ |