12 دسمبر کی شام پاکستانی عوام و سول سوسائٹی
کے لیے بہت مشکل گھڑی ہو گی کیونکہ اس دن کا سورج اپنی روشنی کے ساتھ
پاکستان میں انصاف فراہم کرنے والی سب سے طاقت ور آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے خاموش کر دے گا۔13 دسمبر کی صبح نیا چیف جسٹس ہو گا ، کیسا ہو گا ، یہ
تو وقت بتاے گا ، مگر ایک بات طے ہے کہ جناب افتخار چوہدری جیسا چیف جسٹس
ماضی میں پاکستان کو میسر ہوتا تو آج پورے پاکستان میں انصاف کا بول بالا
ہوتا ،عزت مآب چیف جسٹس نے جس طرح پاکستان کی لاغر کمزور عدلیہ میں جان
ڈالی تاریخ میں یہ سب سنہری حروف میں لکھا جاے گا، اﷲ کرے پاکستان میں
انصاف کا بول بالا قائم ہو ،مگر سچ پوچھیں تو مجھے چیف جسٹس کے بعد اُمید
ہی ہے اور کچھ بھی نہیں!
2005 میں افتخار چوہدری کی بطور چیف جسٹس تعیناتی سے پہلے کبھی کسی نے سوچا
بھی نہ تھا کہ پاکستان میں حکمرانوں اور ا سسٹبلشمنٹ کے علاوہ طاقت کا کوئی
اور مرکز بھی کبھی پیدا ہو گا ،حکمرانوں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی تھی دل
کھول کہ لوٹ لو ، کچھ بھی نہیں ہو گا انکا موٹو تھا، کچھ یہ ہی حال پاکستان
کی طاقتور اسٹبلسمنٹ کا تھا ، جو کچھ مرضی کر لیں کسی کی جرات نہ تھی کہ ان
سے پوچھ لیا جاے کہ بھائی یہ کیا کر رہے ہو،جسکو چاہوغائب کر دو، جسکو
چاہوبیچ جس ملک کے ہاتھ بیچ دو، پاکستان میں ان مقتدر حلقوں کو کوئی روک
ٹوک نہ تھی،اسی سوچ کے ساتھ مشرف نے افتخار چوہدری کو فارغ کیا ، مگر
افتخار چوہدری نے وہ کام کر دکھایا جسکو سوچ کر بڑے بڑوں کی پینٹ گیلی ہو
جاتی ہے،چیف جسٹس افتخار چوہدری کی پکار پر پہلی بار سول سوسائٹی اور عوام
نے بھرپور لیبک کہا، اسکے بعد تاریخ نے دیکھا کیسے بڑے بڑے بُرج اُلٹ گے
عوام نے سپریم کورٹ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا، یہ الگ بات ہے کہ ریاست
کے باقی سب ستون آج تک عدلیہ کی اس آزادی کو ہضم نہیں کر سکے ،اور وقتا
فوقتا سپریم کورٹ کے راستے میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں اور اب تک انکا یہ ہی
وطیرہ ہے،یہ سب ادارے سوموٹو ایکشن سے بہت پریشان ہے اور اسی کوشش میں ہیں
کہ کسی طرح اسکو ختم کیا جاسکے خصوصا سول سروس میں موجود بابو حضرات اسکو
اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور وہ کھل کر اسکا اظہار بھی کرتے
ہیں،اور کریں بھی کیوں نہ ، کیونکہ اسکی موجودگی میں وہ کھل کر حکمرانوں کی
جی حضوری کر کے وہ فوائد نہیں حاصل کر پا رہے جسکے وہ نسل در نسل عادی
ہیں،12 دسمبر پر ان سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں کہ کب چیف صاحب سپریم کورٹ سے
جائیں اور انکو کھل کر جی حضوری کر کے فوائد حاصل کرنا کا موقع مل سکے، چیف
جسٹس افتخار چوہدری صاحب کو بھی اپنی سپریم کورٹ سے فراغت کے بعد سوچنا ہو
گا کہ وہ خاموشی سے گھر بیٹھیں گے یا عدلیہ کی آزادی کے بعد نظام کی آزادی
کے لیے کچھ کریں گے، اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری
پاکستان کے سب سے ایماندار جج ہیں اور اگر افتخار محمد چوہدری جیسی شخصیت
پاکستان میں نظام کی آزادی کے لیے عوام کے سامنے ایک اور صدا بلند کریں تو
پاکستان کی ساری سول سوساٹئی اور عوام انکے ساتھ ہوں گے ِ
ُکیونکہ پاکستان کے عوام اس وقت کرپٹ سیاست دانوں اور کرپٹ بیوروکریسی کے
ہاتھوں یرغمال ہیں گوکہ ایک دو شخصیات اس نظام کو بدلنے کہ لیے جدوجہد میں
مصروف ہیں-
اگر سارے کرپٹ لوگ اپنے اپنے مفادات کے لیے اکھٹے ہو سکتے ہیں تو صاف شفاف
پس منظر والے محنتی اور جہد مسلسل پر یقین رکھنے والے ملکر انکے خلاف علم
بغاوت نہیں کر سکتے ؟عوام حقیقی طو ر کرپٹ سیاسی فیملیوں سے سے بے زار ہو
چکے ہیں چاہے وہ تخت لاہور والے ہو ں یا نام نہاد لاڑکانہ گروپ، چاہے وہ
کوئی پرمٹ لینے والا مافیا ہو یا گاندھیوں کے پیروکار، یا لند ن سے بوریاں
بھیجنے والے بابا جی ،انکا کھیل ختم ہو نا چاہیے اور اس کے لیے ایماندار
لوگوں کو اکھٹا ہو نا ہو گا ، اگر ایک بار ایماندار پس منظر والے چند لوگ
اکھٹے ہوگے تو حالات بدلتے دیر نہیں لگتی-
ہاں ایک بات ہے اس کے لیے وہ جرات چاہیے جو چیف جسٹس صاحب نے مشرف کے سامنے
دکھائی تھی ، تو کیا قوم کے لیے ، مُلک کے لیے ، غریبوں کی سسکتی زندگیوں
کے لیے-
مزدور وں کسانوں محنت کشوں کے لیے کوئی ایک شخص افتخار محمد چوہدری کی طرح
حرف انکار کی صدا بلند نہیں کر سکتا ،اگر کوئی کر سکتا ہے تو ٹھیک نہیں تو
وہ دن دور نہیں جب عوام ایک بار پھر آواز دیں گے ، ہو سکتا ہے اس بار وہ
شخصیت افتخار محمد چوہدری کی ہی ہو، کیونکہ اگر کوئی نظام کو بدلنے کی جرات
نہ کر سکے تو پھر لوگ اُسی کو آواز دیں گے جو کم از کم آواز بلند تو کر
سکتا ہے ، اور چیف صاحب 12 دسمبر کے بعد ان شخصیات میں شامل ہوں گے ،
دیکھیں اور انتظار کریں کب وہ وقت آتا ہے- |