عام آدمی کوعام آدمی پارٹی کی شکل میں بہترمتبادل مل گیا

باسمہ تعالیٰ

انقلاب توآناہی تھا،لیکن ایساانقلاب آئے گایہ کسی نے نہیں سوچاتھاکہ ایک ایسی نوزائیدہ سیاسی پارٹی جس کی جانب سیاسی مہارتھیوں نے پوری نظراٹھاکردیکھنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی اس پارٹی اوراس پارٹی کے سربراہ نے وہ کمال کردکھایاجس کی کسی کوتوقع ہی نہیں تھی،عام آدمی پارٹی عام آدمی کی آوازلے کراٹھی اورآندھی اوربجلی بن کر اس طرح گری کہ کانگریس کے برسوں کے بسے بسائے شیش محل کے پرخچے اڑاکررکھ دیے اورکانگریس کھڑی تماشہ ہی دیکھتی رہ گئی،یایوں یہ کہہ لیں کہ شیش محل کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی سونامی میں کانگریس کے ہوش وحواس بھی اڑگئے۔

حالیہ چاراسمبلی انتخابات کے نتائج آچکے ہیں،اورسیاسی منظرنامہ بھی صاف ہوچکاہے،جہاں ایک طرف بی جے پی اپنی سابقہ حکومت مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ کوبچانے میں کامیاب رہی ہے وہیں اس نے راجستھان کودوبارہ کانگریس سے حاصل کیاہے،ان ریاستوں میں مدھیہ پردیش اورراجستھان میں کانگریس چاروں خانے چت ہوگئی ہے مگر چھتیس گڑھ میں اپنی عزت بچانے میں کامیاب رہی ہے، اگرکانگریس کوسب سے زیادہ فضیحت کاسامناکرناپڑاہے تووہ قومی راجدھانی دہلی میں،یہاں عام آدمی پارٹی کی سونامی میں کانگریس اس طرح بہی کہ اس کی مقبول لیڈراوردہلی کی ترقی کی شناخت کہی جانے والی مضبوط ارادوں کی مالک وزیراعلیٰ شیلادکشت بھی اپنی سیٹ بچانے میں ناکام رہی اوراسے اس شخص نے شکست دی جس کے بارے میں خودشیلادکشت نے بڑی شان بے نیازی اوربالکل بے اعتنائی سے کہاتھاکہ یہ ’’آپ‘‘کون ہے؟ کیایہ کوئی سیاسی جماعت ہے؟ اور اسی ’’آپ‘‘نے شیلادکشت اینڈپارٹی کوایسی پٹخنی دی کہ اپنی روایتی سیٹ کوبھی بچانے میں ناکام رہی اورکافی بڑے فرق سے شکست کامنھ دیکھناپڑا،اوراس کے ساتھ ہی کانگریس دہلی میں صرف آٹھ نشستوں پرسمٹ کررہ گئی ،اگردیکھاجائے توکانگریس کی عزت بچانے میں بھی سب سے بڑااورموثرکردارمسلم ووٹ اورمسلم امیدواروں نے ہی اداکیاہے کہ کانگریس کی کل کامیاب نشست میں پچاس فیصدکامیاب امیدوارمسلم ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنی سیٹ کوبچانے میں کامیاب رہے بلکہ انہوں نے اپنی جیت سے یہ بھی ثابت کردکھایاکہ اگرامیدوارصاف ستھری شبیہ کاہواوراس نے اپنے علاقہ کے لیے ترقیاتی کام کیے ہوں توکامیابی کے لیے پارٹی کوئی معنی نہیں رکھتی جس طرح کہ مٹیامحل اسمبلی حلقہ سے شعیب اقبال کی کامیابی سے بھی یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوتی ہے۔کیوں کہ عین انتخاب سے چنددن قبل ہی شعیب اقبال نے جنتادل یومیں شمولیت اختیارکی تھی اوردہلی میں جنتادل یوکی کوئی زمین بھی نہیں ہے اس کے باوجودشعیب اقبال کی کامیابی اس بات کی غمازہے کہ عوام کے لیے پارٹی کی کوئی حیثیت نہیں ہے اگرامیدوارنیک اور ایماندارہو،ترقیاتی کام کیے ہوں تواس بنیادپروہ عوام کے ووٹ کاحقدارہے۔

حالیہ انتخابات کے نتائج نے جہاں ایک طرف کانگریس کی امیدوں پرپانی پھیردیاہے وہیں یہ بات بھی ثابت کردیاہے کہ اب بھی عام آدمی بہترمتبادل کی تلاش میں ہے،جس طرح دہلی میں عام آدمی کوعام آدمی پارٹی کی شکل میں بہترمتبادل ملاجس نے عام آدمی کی آوازاٹھائی اورعام آدمی کے مسائل کی بنیادوں پرانتحاب لڑی اگراسی طرح دیگرتین ریاستوں راجستھان،مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں بھی عام آدمی کے سامنے کوئی بہترمتبادل ہوتاتوشایدکانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کوبھی اپنابوریابسترسمیٹنے پرمجبورہونا پڑتا، دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ دہلی میں جوکانگریس کوشکست ملی ہے اوربی جے پی کی فتح ہوئی ہے اس میں ایک بات ذہن ودل میں بیٹھالیں کہ کانگریس کوتواپنی غلط پالیسیوں اورعام آدمی کے عام مسائل سے چشم پوشی کے ساتھ مہنگائی اورمسلم مسائل کونظراندازکرنے کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے ،لیکن بی جے پی کی فتح میں مودی کی کوئی جادوگری نہیں ہے،بلکہ یہ وہی ووٹ ہیں جوکانگریس کی مخالفت کی بناپرکسی تیسرے متبادل نہ ہونے کی وجہ سے چاروناچاربی جے پی کی جھولی میں جاگرے،لیکن جس طرح بی جے پی خیمہ اسے مودی کی مقبولیت اورجادوگری سے تعبیرکررہاہے تویہ اس کی خام خیالی نہیں ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بنداسکیم ہے جسے وہ ۲۰۱۴ء کے لیے استعمال کرناچاہ رہی ہے،وہ یہ ڈھنڈوراپیٹ کر عوام کویہ باورکراناچاہ رہی ہے کہ عوام کانگریس کے یووراج کومستردکرکے بی جے پی کے نیروکوپسندکرنے لگی ہے جس کاثبوت ہے کہ جن جن ریاستوں میں انتخابات میں کامیابی ملی ہے ان تمام ریاستوں میں مودی نے زبردست ریلیاں کرکے امیدواروں کے حق میں عوام کی حمایت حاصل کی،اگرایساہوتاتواسے دہلی میں واضح اکثریت ملنی چاہیے تھی،چھتیس گڑھ جہاں اس کی حکومت تھی اوراس نے ترقیات کے ڈھیرسارے دعوے کیے تھے وہاں بھی کانگریس کاصفایاہوناچاہیے تھالیکن ایسانہیں ہواجس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کامیابی میں مودی فیکٹرکاکوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ بہترمتبادل نہ ہونے کی وجہ سے عوام کانگریس کی غلط اورعوام دشمن پالیسیوں سے عاجزآکرچاروناچاربی جے پی کوووٹ کرنے پر مجبورہوگئی ،بس اتنی سی بات ہے،اس بنیادپریہ مفروضہ نہیں قائم کیاجاسکتاکہ ۲۰۱۴ء کاانتخاب بی جے پی کے حق میں ہوگا،کیوں کہ ۲۰۰۹ء میں بھی ایساہی کچھ ہواتھاکہ ۲۰۰۸ء کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کامیاب ہوئی تھی لیکن ۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میں اسے شکست فاش کامزہ چکھناپڑا،دراصل یہ ساراکھیل بہترتیسرے متبادل کے تلاش کاہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعدسے ایک طویل عرصہ تک کانگریس نے مرکزی حکومت کی باگ ڈورسنبھالی،یہ وہ دورتھاجب کہ کانگریس کے آزادی میں اہم رول ہونے کی وجہ سے عوام کی پہلی پسندتھی،مسلمانوں کابڑاطبقہ کانگریس کے ساتھ تھا،بڑی آسانی کے ساتھ انتخابات جیت کرتقریباچالیس سالوں تک بلاشرکت غیرے ملک کے سیاہ وسپیدکی مالک بنی رہی،اتنے دنوں تک بلاروک ٹوک حکومت کرنے کی وجہ سے کانگریس کادماغ ساتویں آسمان پرچلاگیا،اس نے نیچے جھک کریہ دیکھنے کی کبھی زحمت ہی گوارہ نہیں کی کہ ایک عام آدمی کے کیامسائل ہیں؟وہ کیاچاہتاہے؟وہ کن مسائل سے پریشان ہے؟اوران مسائل کاحل کیاہے؟کبھی بھی اس پرغورکرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اسے یہ غرورہوگیاکہ عوام کوکانگریس کی ضرورت ہے کانگریس کوعوام کی کوئی ضرورت نہیں ہے،اسے یہ اچھی طرح معلوم تھاکہ عوام بالخصوص مسلمانوں کے سامنے کوئی متبادل نہیں ہے اسے جھک مارکر ہمیں ووٹ کرناہی ہوگااوریہی ہوتارہا،لیکن آخرکب تک ایساہوتا،پھرایمرجنسی کازمانہ آیاجس میں مشہورسماجوادی تحریک کے لیڈرجئے پرکاش نارائن نے کانگریس کو آنکھیں دکھائیں،ان کی تحریک کامیاب ہوئی اورکانگریس کواقتدارسے بے دخل کیاگیا،لیکن یہ زیادہ دن نہیں چلاپھردرمیان میں یکے بعددیگرے کئی حکومتیں بنیں،پھرکانگریس کی واپسی ہوئی ،پھرایساہواکہ ملک کے چندشرپسندعناصرنے مل کرمسجداورمندرکے نام پرملک میں فرقہ پرستی کوہوادی اور۲؍ممبروالی پارٹی ایک دن ۱۸۰؍ممبروں کے ساتھ ایوان میں داخل ہوگئی اوراس نے بھی کچھ سالوں تک عوام کوبے وقوف بنایا،لیکن آخرکب تک اسے بھی عوام نے باہرکاراستہ دکھایا،ایک بارپھرسے عوام جوبی جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی کی ڈسی ہوئی تھی اس نے پھرسے کانگریس اوراس کی ہم خیال جماعتوں کوحکومت کاموقع دیا،شروع شروع میں توسب کوایسالگاکہ ہاں حکومت عام عوام کے ساتھ مسلمانوں کے لیے بھی ایماندارانہ ذہنیت کے ساتھ کچھ کرنے کاارادہ رکھتی ہے لہٰذاپھردوبارہ اسے موقع دیاگیا،لیکن وہی ہواجس کاپہلے سے ڈرتھاکہ آہستہ آہستہ اس کی پالیسیاں عوام کے سامنے کھلتی چلی گئی ،اورساتھ ہی مسلم دشمنی بھی آشکاراہوگئی،کبھی دہشت گردی کے نام پرمسلم نوجوانوں کی بے جاگرفتاری،کبھی انکاؤنٹراورکبھی یہ الزام لگاناکہ مسلم نوجوان آئی ایس آئی کے رابطہ میں ہیں،اس کے علاوہ کمرتوڑمہنگائی،حکومت کی بدعنوانی اوراتنی سنگین بدعنوانی کہ جس میں حکومت کے مکھیاکادفتربھی شک کے گھیرے میں،یہ وہ اہم اورسلگتے ہوئے مسائل تھے جس نے عوام کوبہترمتبادل کے تلاش کرنے پرمجبورکیااورعوام کووہ متبادل عام آدمی پارٹی کی شکل میں دہلی میں مل گیااوربالآخرعام آدمی نے عام آدمی کی آوازبننے والی عام آدمی پارٹی کی جھولی میں اپنی حمایت ڈال دی جس کانتیجہ یہ ہواکہ عام آدمی پارٹی نے وہ شاندارکامیابی درج کی جوتاریخ کے صفحات پرسنہرے حرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہے۔عام آدمی پارٹی کوعام آدمی کی حمایت کابھرم رکھناہوگااوراسے وہ کام کرنے ہوں گے جس کااس نے انتخابات کے دوران عام آدمی سے وعدہ کیاہے،اورجس طرح عام آدمی کے کنوینر کجریوال نے گذشتہ سالوں سے مہنگائی اوربدعنوانی کے خلاف آوازاٹھارکھی ہے اب بجائے اس کے کہ یہ آوازاقتدارکے نشہ میں دھیمی پڑے بلکہ اس میں مزیدتیزی آنی چاہیے تبھی عام آدمی کاعام آدمی پارٹی پربھروسہ قائم رہ سکے گا،اسی کے ساتھ ہم مسلمانوں کوسرجوڑکربیٹھناچاہیے اورغوروفکرکرناچاہیے کہ اب وہ زمانہ ختم ہوگیاکہ عوام جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے دعوؤں کی بنیادپرووٹ کرتی رہے گی ،اب عوام کوایک بہترمتبادل کی ضرورت ہے ،لہٰذاجس طرح کیجریوال نے عام آدمی پارٹی کی شکل میں عوام کوایک بہترمتبادل پیش کیا ہے ضرورت ہے کہ قومی سطح پرعوام کے لیے ایسے ہی ایک بہترمتبادل کاانتظام کیاجائے،تاکہ ملک کی امن پسندعوام اورمسلمان کانگریس اوربی جے پی سے یکساں دوری بناتے ہوئے اس بہترمتبادل کوووٹ کرے تبھی ایک بہتر،خوشحال اورفرقہ پرستی سے پاک امن پسندہندوستان کی تعمیرکاخواب پوراہوسکے گا۔٭٭٭

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50707 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More