جامعہ صمدیہ پھپھوند شریف میں گزشتہ سال 20 /اپریل 2013
ایک عظیم الشان لائبریری کا افتتاح ہوا، جس کا نام ’’تاج الفحول لائبریری
‘‘ قرار پایا ،لائبریری کی عمارت مکمل طور پر تیار ہے،لیکن کتابوں کی
فراہمی پورے طور پر نہیں نہیں ہو پائی ہے، کتابوں کے بجٹ کا تخمینہ 50لاکھ
ہے، جامعہ کے سر براہ اعلیٰ حضرت علامہ الحاج سید محمد انور میاں چشتی
کتابوں کی فراہمی کے لیے بجٹ کا انتظام فر مارہے ہیں۔
3/ دسمبر کو حضرت الحاج سید انور میاں صاحب قبلہ جامعہ تشریف لائے اور شیخ
الجامعہ حضرت مفتی انفاس الحسن صاحب قبلہ سے مشورے کے بعد طے پایا کہ بیروت
کی مطبوعات جو دیو بند کے مکتبے والوں نے شائع کی ہیں ،دیو بند جاکر لائی
جائیں، اسی طرح دہلی مبارک پور وغیرہ مقامات کا سفر کر کے حسب منشا کتا بیں
خریدی جائیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلےدیوبند کے سفرکا پروگرام بنا۔
3/ نومبر کی شام حضرت مفتی انفاس الحسن چشتی شیخ الحدیث جامعہ صمدیہ ،
مولانا غلام جیلانی مصباحی، مولانا احکام علی چشتی مصباحی اور راقم محمد
ساجد رضا مصباحی کا چہار نفری قافلہ جامعہ صمدیہ سے روانہ ہوا، اٹاوہ ،
شکوہ آباد ہو تے ہوئےتقریبا12/ بجے رات ہم لوگ مین پوری پہنچے، ایک ٹی
اسٹال پر چائے لی گئی۔یہاں سے ایٹہ ہو تے ہوئے علی گڑھ میرٹھ کے راستےدیو
بند پہنچنا تھا۔ ہماری گاڑی مین پوری سے ایٹہ کے لیے روانہ ہوئی، ایٹہ سے
مین پوری کا راستہ نہایت مخدوش تھا، راستے میں بڑے بڑے گڑھے پڑے تھے ، حضرت
مفتی انفاس الحسن صاحب کی نئی نویلی اسکار پیوکے باوجود ہم لوگ اس راستے پر
بڑی مشکل سے گزر رہے تھے۔ تقریبا 30/ کیلو میٹر کا راستہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے
ہو پایا ، امید تھی کہ ایٹہ کے بعد علی گڑھ کا راستہ اچھا ہو گا ۔ لیکن جب
ہماری گاڑی علی گڑھ کی شاہ راہ پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ ایٹہ سے علی گڑھ
کا راستہ نہ صرف مخدوش ہے بلکہ نہایت تنگ بھی ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا، اب ہم
لوگوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا، اسی راستے پر ہماری گاڑی چل
پڑی، ابھی کچھ ہی دیر چلے تھے ٹرکوں اور رودویز بسوں کی ایک لمبی قطار لگی
تھی ، پورا روڈ جام تھا، سوچا کہ عام راستوں کی طرح یہاں بھی جام کچھ دیر
میں کھل جائےگا ، لیکن جام تھا جو کھلنے کا نام نہیں لے رہا تھا ، ایسا
محسوس ہو رہا تھا کہ گاڑیوں کا ایک لا متنا ہی سلسہ ہے ، پولیس والے بھی
اپنے حساب سے کو شش کر رہے تھے، تھوڑے تھوڑے وقفے سے دس بیس میٹر راستہ صاف
ہو تا تو گاڑی آگے بڑھتی اور پھر اپنی جگہ کھڑی ہوجاتی، یہی سلسلہ تقریبا
پوری رات چلتا رہا، خیر خدا خدا کر کے صبح چھ بجے کے قریب جام سے چھٹکارا
ملا، فجر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا لیکن نماز ادا کر نے کے لیے کوئی مناسب
جگہ نہیں مل پا رہی تھی،اسی درمیاں روڈ کے کنارے لگے بورڈ پر نظر پڑی تو اس
میں اکرا باد لکھا ہوا تھا ، جس کوتا ریکی کے سبب ہمارے رفقا نے اکبر آباد
پڑھ لیا، حضرت مفتی صاحب نے فرمایا: یہاں مسجد ہو نی چاہیے، مولانا غلام
جیلانی نے کہا کہیں یہ اکرا باد تو نہیں ہے۔ ڈرائیور نے دوسرا بورڈ دیکھنے
کے بعد ان تصدیق کر دی کہ یہ اکرا ٓباد ہی ہے۔ مولانا غلام جلیلانی صاحب نے
فرمایا کہ یہاں مسجد ہے، اس قصبے میں میرا خطاب ہو چکا ہے اور یہاں ہمارے
علاقے کے مولانا اکمل رحمانی صاحب امام ہیں ، اسی درمیان ایک مسجد سے اذان
کی آواز سنائی دی، ہم سب لوگ خوش ہوئے کہ اب احسن طریقے سے فجر کی نماز
ادا ہو سکے گی، ہم لوگ پوچھ تاچھ کرتے ہوئے مسجد کے دروازے تک پہنچ چکے تھے
، اس درمیان مولانا غلام جیلانی صاحب نے مولانا اکمل رحمانی صاحب کو اپنی
آمد کی اطلاع بھی دے دی تھی، مولانا باہر تشریف لائے ، ہم سب لوگوں نے
ضروریات سے فارغ ہو کر حضرت مفتی صاحب کی امامت میں نماز فجر اداکی، جام
اور راستے کی وجہ سے تاخیر بہت ہو چکی تھی، میرٹھ میں مفتی صاحب کے رفیق
درس حضرت مفتی ضیا ئ الدین صاحب رات ہی سے منتظر تھے ، امید تھی کہ چار بجے
تک ہم لوگ میرٹھ پہنچ جائیں گے، لیکن ابھی تک ہم لوگ علی گرح ہی پہنچ سکے
تھے وہ مسلسل رابطے میں تھے، اس لیے ہم لوگ بلا تاخیر یہاں سے روانہ ہو نا
چاہتے تھے، لیکن نماز کے بعد درجنوں لوگ راستہ روک کر کھڑے ہو گئے اور چائے
کے لیے اصرار کر نے لگے،ان کے مخلصانہ اصرار سے مجبور ہو کر ہم لوگوں نے
چائے پی اور یہاں سے روانہ ہو گئے۔ علی گڑھ، بلند شہر کے راستے سے
تقریبا11/ بجے دن میرٹھ پہنچے،مفتی ضیائ الدین صاحب مصر تھے کہ کم از کم ان
کے مدرسے تک ضرور چلا جائے، وہ ہم لوگوں کے انتظا ر میں راستے میں کھڑے ملے،
ان کے ساتھ ہم لوگ ان کے ادارے میں پہنچے، چند کمروں پر مشتمل یہ چھوٹا سا
ادارہ اپنی بساط بھر اشاعت علم میں مصروف ہے، اساتذہ و طلبہ تعلیم و تعلم
میں مصروف تھے ، سبھی محبت اور اخلاص کے ساتھ ملے، مفتی ضیا ئ الدین صاحب
نے پُر تکلف ناشتے کا انتطام کر رکھا تھا، بڑی محبت کے ساتھ دستر خوان
لگایا اور اصرار کر کے کھلا تے رہے، آپ کئ بر سوں تک ہمارے شیخ الحدیث
حضرت مفتی انفاس الحسن صاحب چشتی کے رفیق درس رہے ہیں ، در اصل یہ دونوں
حضرات حضرت مفتی رحمت اللہ صاحب عزیزی کے شاگر خاص ہیں ، حضرت مفتی انفاس
الحسن صاحب ایک تجربہ کار مفتی، عمدہ خطیب اور با فیض استاذ ہیں ، سب سے
بڑی بات یہ ہے کہ وہ عالم باعمل اور صحیح معنوں میں عالم ربانی ہیں ۔ دین
کی حمیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی ہے۔ اخلاص کے پیکر ہیں ، تمام تر کما
لات کے با وجود ان کے اند غرور و تکبر کام شائبہ بھی نہیں ہے۔ مفتی ضیا ئ
الدین صاحب سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی ہم نے محسوس کیا کہ ہمارے مفتی
صاحب ہی کی طرح آپ بھی ایک نیک طبیعت اور با صلاحیت عالم دین ہیں ۔در اصل
ان دونوں حضرات کے اندر حضرت مفتی رحمت اللہ صاحب کی تربیت کا اثرات نمایاں
ہیں ۔ آج کے دور میں ایسے لوگ نایاب نہیں تو کم یا ضرور ہیں ۔ اللہ ان
حضرات کی عمر میں بر کتیں عطا فر مائے۔
ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد ہم لوگ دیو بند کے لیے روانہ ہو ئے، مظفر نگر،
ہا پوڑ کے راستے سے ہمارا قافلہ تقریبا ڈھائی بجے دیو بند کے حدود میں داخل
ہوا، راہ گیروں سے پوچھ تاچھ کرتے ہو ئے ہم لوگ دیو بند کے معروف تعلیم
ادارہ دارالعلوم دیو بند کے صدر دروازے تک پہنچ چکے تھے۔ ظہر کی نماز ابھی
تک ادا نہیں کی جا سکی تھی،سب سے پہلے دارالعلوم کی مسجد جو غالبا ’’ مسجد
رشید ‘‘ کے نام سے موسوم ہے، کے سامنے گاڑی پارک کی گئی،یہاں چاروں جانب
درالعلوم کے طلبہ کی چہل پہل دیکھی گئی،ہم لوگ ایک مخصوص وضع قطع میں
تھے،ٹوپی اور لباس وہاں کے تمام لوگوں سے منفرد تھا، اس لیے تمام طلبہ کی
نگاہیں ہم ہی لو گوں کی جانب مر کوز تھیں ، محسوس ہو رہا تھا کہ وہ لوگ
ہمیں بے باک انداز میں اپنے کیمپس کے اندر دیکھ کر تعجب کر رہے ، وہ لوگ
ابتدا ئی مر حلے میں ہم سے تو کچھ نہین پوچھ سکے ،لیکن ہمارے ڈرائیور کے
پاس جاکر معلومات حاص ل کی ہم لوگ کہاں سے آئے ہیں۔
ہم سبھی لوگ وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر مسجد کے اندر داخل ہو ئے، مسجد وسیع
اور کشادہ تھی ، صفائی ملازمین اپنے کاموں میں مصروف تھے، کچھ طلبہ مشق قرا
ت کر رہے تھے،ہم لوگوں نے نماز سے فراغت حاصل کی، اور مسجد کے صحن میں آکر
کھڑے ہوئے توچند طلبہ ہمارے پاس آئے اور اور کہنے لگے کہ آپ لوگ کل سے
مسلسل سفر کر رہے ہیں ، آرام نہیں کریں گے، کچھ دیر آرام کر لیجیے، میں
نے کہا کہ آپ کو کس نے بتایا کہ ہم لوگ کل سے مسلسل سفر کر رہے ہیں ،
انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کے ڈرائور سے معلوم کیا ہے، ایک طالب علم قریب
آیا اور کہنے لگا: لگتا ہے آپ لوگ بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے
کہا الحمد للہ ہم لوگ اہل سنت و جماعت جس کو آپ بریلوی مسلک کہہ رہے ہیں ،
اسی سے تعلق رکھتے ہیں ، آپ کو کئی پریشانی؟ طالب علم مسکراتے ہو ئے کہنے
لگا نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔
وقت کم تھا ، ہم لوگ کتابوں کی خریداری سے جلد فارغ ہوکر سہا رن پور کے لیے
روانہ ہو نا چاہتے تھے، کیوں حضرت مفتی صاحب کو حضرت صاحب سجادہ آستا نہ
عالیہ صمدیہ پھپھوند شریف نے حکم دیا تھا کہ آپ وہاں سے سہارن پور چلے
جائیں اور جنا ب حکیم محمد احمد صاحب سے میرے دوا لیتے اٗئیں، خیر کتابوں
خریداری کے لیے ہم لوگوں کی کتب بازار کا رُخ کیا ، یہاں درسی اور غٰیر
درسی متعدد کتب خانے ہیں، یہاں کے کتب فروش مکمل طور پر پوروفیشنل ہیں ،
ایک زمانے تک سُنی اداروں میں ان ہی کتب خانوں کی چھپی ہو ئی کتا بیں چلتی
رہیں ،لیکن ایک دہائی قبل ہندوستان کی عظیم دینی درسگاہ الجامعۃ الاشرفیہ
مبار ک پور میں مجلس بر کات کا قیام ہوا ، جس کے تحت تقریبا تمام درسی کتب
حواشی و تعلیقات کے ساتھ عمدہ طباعت کے ساتھ منظر عام پر آگئی ہیں اور اب
مدارس کے اساتذہ و طلبہ کی پہلی پسند مجلس بر کات کی مطبوعات ہو تی ہیں ۔
خیر ہم درالعلوم دیو بند کے ایک طالب علم کی رہنمائی میں سب سے پہلے مکتبہ
زکریا پہنچے، مکتبہ زکریا بیروت کی مطبوعات کا عکس عمدہ انداز میں اپنے
یہاں سے طبع کرا یا ہے،ہندوستان کے اکثر مکتبوں میں ان کی مطبوعات فروخت کی
جاتی ہیں۔ ہم لوگوں نے فہرست لے کر حسب ضرورت کتابوں پر نشان لگا یا ، مالک
کتب خانہ سے سودا طے ہوا، تقریا 45000/ رو پی کتا بیں یہاں سے خریدی گئیں ،
یہاں کے دوسرے مکتبوں سے بھی کتا بیں خریدی گئیں، خصوصا دارلکتاب کی
مطبوعات پسند آئیں، کتابوں کی خرید داری کے بعد ہم لوگ ’’قدیم مسجد‘‘ نامی
ایک مسجد میں نماز عصر ادا کی، اور واپس مسجد الرشےد آگئے یہاں طلبہ کی
بھیڑ موجود تھی، یہ سب سوالیہ نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ ایک طالب علم
ہمارے پہنچنے کے بعد ہی سے ہمارے ساتھ ہو لیا تھا، کتابوں کی خریداری اور
تمام کاموں میں ہمارا ہاتھ بٹا تا رہا، میں دل ہی دل میں دعاکر رہا تھا کہ
اللہ اسے اس ضلا لت سے نکال کر ہداہت عطا فر مائے۔ دیو بند سے روانہ ہو نے
پہلے مولانا غلام جیلانی نے حضرت مفتی صاحب سے کہا کہ اس طالب علم کو کچھ
رقم دے دی جائے ، نیت اللہ جاننے والاہے، مفتی صاحب نے فر مایا : آپ کہہ
رہے ہیں تو تالیف قلب کے لیے یہ رقم لیجیے اور آپ ہی پیش کر دیجیے، مفتی
صاحب اور ہم سب لوگ دل سے اس طالب علم کی ہدایت کے دعائیں کرتے ہوئے وہاں
سے روا نہ ہو گئے۔
ہمارا اگلا پڑاؤ سہا رن پور تھا، راستے میں مغرب کا وقت ہو گیا ، ایک
پیٹرول پمپ میں نماز مغرب ادا کی گئی، تقریبا پون گھنٹے کے بعد ہم لوگ
سہارن پور میں تھے، یہاں حکیم محمد احمد صاحب سے ان کے مطب میں ملاقات ہوئی
، نہایت ہی محبت کے ساتھ ملے ، آپ ایک طبیب حاذق ہو نے ساتھ ساتھ دین و
سنیت کے بھی سچے خادم ہیں ، سہارن پور جیسی جگہ میں مدرسہ غوثیہ رضویہ کے
نام سے ادارہ چلا رہے ہیں ، سنا ہے کہ اپنے مطب سے آمدنی کا بیشتر حصہ
مدرسے میں لگاتے ہیں ، حکیم صاحب نے ہم لوگوں بڑی محبت کا اظہار فر مایا ،
حضرت مفتی صاحب کو قریب بٹھا کر دیرتک باتیں کرتے رہے، یہیں روزنامہ
راشٹریہ سہا کے صحا فی جناب شاہد زبیر صاحب سے ملاقات ہو گئی ، نہایت دل
چسپ آدمی نکلے، تحریر کی طرح ان کی گفتگو بھی اچھی لگی، حکیم صاحب کا صرار
تھا کہ آج ان کے یہاں قیام ہو لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے تقریبا 9/ بجے شب
ان سے رخصت ہوئے۔
سہارن پور سے کلیر شریف کی مسافت کوئی زیادہ نہیں ، یہی کوئی پچیس تیس کیلو
میٹر ہوں گے، ارادہ تھا کہ جب اتنے قرےب آگئے ہیں تو حضرت صابر پاک کی
درگاہ میں حاضری کی سعادت حاصل کر لی جائے، سہارن پور سے بائی پاس کے راستے
سیدھے کلیر شریف کے لیے روانہ ہو گئے، حضرت صابر پاک کی عظمتوں کے نقوش
بچپن ہی سے مر تسم تھی ، آج جب ماتھے کی نگاہوں سے آپ کے مزار کے گنبد کا
مشاہدہ کر رہے تھے تو دل کی کیا کیفت تھی ، اس کا بیان کر نا مشکل ہے۔ سب
سے پہلے ہم لوگوں وضو وغیرہ سے فراغت حاصل کر کے نماز عشا ادا کی۔ پھر حضرت
کی بارگا میں فاتحہ عرض کر نے کے لیے حاضر ہوئے، دیرتک سبھی لوگ اپنے
اورتمام احباب کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ کلیر شریف میں مولانا غلام نبی صاحب
ایک دینی ادارہ چلا رہے ہیں ، انہیں ہم لوگوں کی آمد کی اطلاع ہو چکی تھی
، وہ چاہ رہے تھے کہ ہم لوگ ان کے ادارے میں چلیں اور وہاں کچھ دیر آرام
کر لیں ،لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے ہم لوگ ان کے ادارے میں نہیں پہنچ سکے۔
اب یہیں سے ہم لوگوں کو پھپھوند شریف واپس ہو نا تھا، مزار شریف کےباہر ایک
ہوٹل میں ہم لوگوں نےموسم کے لحاظ سے گرم ابلے انڈے اور گرم چائے سے لذت
کام و دہن کا سامان کیا۔ اور گنبد مبارک کی آخری دیدار کرتے ہوئے کلیر
شریف سے روانہ ہو گئے، تقریبا رات کے بارہ بج چکے تھے، ہم لوگ ررکی ، مظفر
نگر، میرٹھ کے راستے تقریبا صبح کے پانچ بجے علی گرھ پہنچے۔ سبھی لوگ مسلسل
سفر کی وجہ سے تکان سے دوچار تھے، ہمارا ڈرائیور بھی، مکمل طور پر تھک چکا
تھا، حضرت مفتی صاحب نے فر مایا کہ فجر کا وقت قریب ہے آگے کسی مسجد میں
رُک کر فجر کی نماز ادا کر لی جائے، میں عرض کیا آگے فیروز آباد ہائی وے
پر کوئی نہ کوئی مسجد مل جائے گی وہیں نماز فجر ادا کر لی جائےگی، ایک
پولیس والے سے راستہ معلوم کر نے کے بعد اس کی رہنمائی کے مطابق ہم لوگ چل
پڑے، اسی درمیاں ہم لوگوں کی آنکھ لگ گئی ، اس کے پندرہ منٹ کے بعد ایک
زور دار دھماکہ محسوس ہوا ، آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ ہماری گاڑی حادثے کا
شکار ہو گئی ہے، ہم لوگ اس وقت ہائی وے سے متصل ایک گہرے گڑھے میں تھے، در
صل ہم لوگوں کے ساتھ ساتھ ڈرائیور کی بھی آنکھ لگ گئی تھی اور گاڑی بے
قابو ہو کر حادثے کا شکار ہو گئی، جس وقت ہماری گاڑی حادثے کا شکار ہوئی اس
وقت تقریبا 140کی سپیڈ میں چل رہی تھی، اللہ کا بڑا فضل ہوا ہم سب لوگ صحیح
و سالم تھے، زور دار جھٹکے کے بعد جب ہم لوگوں کی آنکھ کھلی تو ہم لو گوں
کو پتہ نہیں تھا کہ ہم کہاں ہیں ، حادثے کی کیا کیفیت ہے، اگلی سیٹ میں
مفتی صاحب تشریف فر ما تھے، جبکہ بیچ والی سیٹ کے باٗئیں سایڈ میں مولانا
غلام جیلانی صاحب تھے، بیچ میں مولانااحکام علی جبکہ دائیں جانب میں تھا،
مولانا غلام جیلانی صاحب نے اپنی سائیڈ کا دروازہ کھولنا چاہا تو اسپیس نہ
ہو نے کی وجہ سے نہیں کھل سکا ، میں نے کوشش کی تو میری سائیڈ کا دروازہ
اتنا کھل گیا کہ میں نکل سکتا تھا، میں فوری طور پر باہر نکلا تو معلوم ہوا
کہ ہم لوگ روڈ کے کنارے ایک بڑے گڑھے میں ہیں ، میرے بعد اسی دروازے سے
مولانا غلام جیلانی صاحب باہر آئے، پھر مولانا احکام علی بھی آگئے ،
آخری میں مفتی صاحب کو بھی نکالا گیا، گڈھے کے سامنےلوہے کے مضبوط ستونوں
پر ایک بڑا سا لوہے کا بوڑ لگا تھا ، ہماری گاڑی ایک بوڑد اور ستونوں
کوتوڑتے گدھے میں پہنچی تھی، ہم لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو سبھی صحیح
وسالم تھے کسی کو کوئی خراش نہیں تھی، ہم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ
ادا کیا، تھوڑی دیر کی کوشش کے بعد گاڑی باہر نکل آئی، گاڑی کو کافی نقصان
پہنچا تھا لیکن حادثے کی سنگینیت کے اعتبار نقصان کوئی زیادہ نہیں
تھا۔خیراللہ تعالیٰ نےہم لوگوں کی حفاظت فر مائی ۔
یہاں سے ہم لوگ اب آگے بڑھے ، سبھی لوگ حیرت زدہ ہو کر اسی واقعے کے
بارےسوچ رہے تھے، اور ہمارا ڈرائیور بہت دھیمی رفتار میں گاڑی چلارہا تھا،
دس پندرہ کیلو میٹر چلنے کے بعد ایک مسجد نما عمارت نطر آئی تو گاڑی روکی
گئی، قریب گئے تو معلوم ہوا کہ یہ کسی بزرگ کا مزار ہے، قریب میں نل بھی
لگا ہوا تھا، احاطے میں اتنی جگہ تھی کہ نماز ادا کی جاسکتی تھی، ہم سب
لوگوں نے وہاں فجر کی نماز ادا کی، پھرہاتھ رس، اعتماد پور کے راستے ہوتے
ہوئے فیروز آبائی نیشنل ہائی تک پہونچے،مفتی صاحب کے فون سے مدرسے میں
اطلاع ہو چکی تھئ کہ ہم لوگوں کی گاڑی حادثے کا شکار ہو گئی ، بار بار احبا
ب فون کررہے تھے، خیر شکوہ آباد اٹاوہ ہوتے ہوئےہم لوگ تقریبا 1/ بجے
پھپھوند شیف کے حدود میں داخل ہو ئے، حضرت مفتی صاحب قبلہ نے مدرسے سے
آدھا کیلو میٹر پہلے ہی اپنا ڈرائیور بلوا لیا تھا، حضرت نے فرمایا یہ
ابھی مدرسے جائیں گے تو طلبہ ان سے طرح طرح کے سوالات کریں گے، الٹے سےدھے
فقرے کسیں گے ، ان کی دل شکنی ہو گی ، بہتر ہے کہ ان کو پہلے ہی رخصت کر
دیا جائے، جب ہم جامعہ کے صدر دروازے پر داخل ہوئے تو جامعہ کے اساتذہ و
طلبہ کی بھیڑ اکٹھا تھی، حضرت حاجی میاں صاحب قبلہ بھی منتظر تھے، خیر سبھی
نے ہم لوگوں کی سلامتی پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ |