چار ریاستوں مدھیہ پردیش،چھتیس
گڑھ،راجستھان اور دہلی کے اسمبلی انتخاب کے نتائج آگئے۔راجستھان اور دہلی
سے کانگریس حکومتوں کا صفایا ہوگیا۔مدھیہ پردیش میں بی جے پی تیسری بار
حکومت بنانے جارہی ہے۔وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کی قیادت میں مدھیہ
پردیش میں بھاجپا نے2008کے انتخاب کے مقابلے اس بار زیادہ اچھی کامیابی
حاصل کی ہے۔پچھلی بار بھاجپا230نفری مدھیہ پردیش اسمبلی میں143سیٹوں پر
کامیابی حاصل کر نے میں کا میاب ہوئی تھی۔اس بار وہ154سیٹ جیت رہی ہے۔جب کہ
کانگریس نے پچھلی بار71سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔اس بار شاید اسے تین
سیٹوں کا نقصان ہورہاہے۔ راجستھان میں روایت کے مطابق ہی پانچ سال بعد
حکمران جماعت کوعوام نے اپوزیشن میں بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے۔2008کے
انتخاب میں200نفری اسمبلی میں 96 سیٹ کانگریس کو ملی تھی ،جب کہ بھاجپا
کو78اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی کو راجستھان میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی
ہے۔وہ غالباً157سیٹ جیت رہی ہے۔کانگریس صرف22پر سمٹ جائے گی۔چھتیس گڑھ
میں90نفری اسمبلی کا انتخابی نتیجہ بی جے پی کے لئے زیادہ حوصلہ افزانہیں
ہے۔تاہم لگتا ہے کہ وہ معمولی اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے
گی۔سب سے دلچسپ انتخابی نتیجہ دہلی اسمبلی کے انتخاب کا رہاہے۔یہاں پندرہ
برسوں سے برسر اقتدار کانگریس کی محترمہ شیلا دکشت کوچوتھی بار عوام نے
بالکل موقع نہیں دیا۔پندرہ برسوں سے دہلی پر قابض ہونے کے لئے ایڑی چوٹی کا
زور لگارہی بھارتیہ جنتا پارٹی70نفری اسمبلی میںاکثریت تک نہیں پہونچ پائی
ہے۔صرف ایک سال قبل اروند کیجروال کے ذریعہ قائم کی گئی عام آدمی پارٹی نے
کانگریس اور بھاجپا،دونوں کا کھیل بگاڑ دیا ہے۔لگ بھگ32سیٹ جیتنے والی
بھاجپا کے بعد عام آدمی پارٹی26سیٹوں کے ساتھ دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر
سامنے آگئی ہے۔
مذکورہ چاروں ریاستی اسمبلیوں کے انتخاب کے نتائج کو ایک دوسرے سے جوڑ کر
دیکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔یہ اور بات ہے کہ ان تمام چار ریاستوں میں
سیدھا مقابلہ کا نگریس اور بھاجپا کے درمیان تھا۔لیکن دہلی میں اسے
نوزائیدہ عام آدمی پارٹی نے سہ رخی مقابلہ بنادیا۔چھتیس گڑھ اور مدھیہ
پردیش اسمبلی کے انتخابات میں وہاں کے وزرائے اعلیٰ کی بہترکارکردگی کو
بھاجپا کی کامیابی کی وجہ قرار دیا جارہاہے۔اور راجستھان میں تو یہ روایت
ہی رہی ہے کہ وہاں لگا تار دوبارہ کسی سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کا موقع
نہیں ملتا۔ ویسے تمام جماعتوں کے سیاست داں بھی یہ مانتے ہیں کہ اسمبلیوں
کے انتخابات مقا می مو ضو عات اور صورتحال پر لڑے جا تے ہیں، ریا ستی
انتخابات کا قومی انتخابات سے معا ملہ بالکل الگ ہوتا ہے۔لیکن بھارتیہ جنتا
پارٹی نے جب سے نریندر مودی کو پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کا امید
وار نامزد کیا ہے،تب سے وہ دیش بھر میں یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ
یہ اسمبلی انتخابات آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا انتخابا ت کا سیمی فائنل
ہیں۔اور اسی ناطے نریندر مودی بھی پورے جوش خروش کے ساتھ مدھیہ پردیش،چھتیس
گڑھ،راجستھان اور دہلی اسمبلی کے انتخاب میں کود پڑے تھے۔صرف دہلی اسمبلی
حلقے میں ہی مودی نے ایک سو انتخابی ریلی کی مگر دہلی میں جو نتائج آئے ہیں
اس نے سوال کھڑا کردیا ہے کہ کہاں ہے وہ مودی لہر جس کا ڈھنڈورہ میڈیا میں
لگاتار پیٹا جارہاہے۔یقینا دہلی میں جہاں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور
خوشحال لوگ رہتے ہیں،وہاں مودی کا جادو نہیں چلا وہاں ایک اروند کیجروال نے
ان کا راستہ بڑی آسانی سے روک لیا۔دوسرے لفظوں میں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ
مودی کے لئے ابھی دلی دور ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ کانگریس جیسی قومی جماعت کے لئے اگلے
انتخاب میں راستہ صاف ہے، چارو ں اسمبلیوں کے نتائج سے یہ صاف ظاہر ہے کہ
کانگریس عوام میں بھروسہ جگانے میں ناکام رہی ہے۔
دہلی میں عام آدمی پارٹی کی کارگزاری سے بے شک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام
تبدیلی کے حق میں ہیں۔وہ کانگریس اور بھاجپا کا بہتر متبادل کھوج رہے
ہیں۔لیکن راجستھان مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اس فلسفہ کا کوئی مطلب
نہیں ہے۔حالانکہ یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ ان ریاستوں میں عوام کے پاس کوئی
نیا متبادل تھا ہی نہیں اسے کانگریس اور بھاجپا میں سے ہی کسی ایک کو چننا
تھا۔اور کانگریس عوام کا اعتماد جیتنے میں ناکام رہی۔فی الوقت یہ بحث بے
ضرورت ہے کہ اگلے لوک سبھا انتخاب میں مودی یا راہل گاندھی میں سے کس کا
جادو چلے گا؟دراصل ملک کی سیاسی صورتحال ایسی ہے ہی نہیں کہ کوئی ایک قومی
رہنما اپنے دم پر حکومت بنانے لائق اکثریت اپنی پارٹی کو دلا سکے۔علاقائی
اور چھو ٹی سیاسی جماعتوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی مضبوط جڑیں جما
رکھی ہیں۔اس لئے بحث کایہ موضوع ہوسکتا ہے کہ دو بڑی قومی جماعتوں،کانگریس
اور بھاجپا میں سے کون بڑی پارٹی بنے گی اور کون زیادہ علاقائی وچھوٹی
جماعتوں کی حمایت حاصل کرسکے گی۔حالانکہ ابھی بھی بھاجپا اور کانگریس کی
جگہ این ڈی اسے اور پوبی اے کا گٹھ جوڑ ہی موضوع بحث ہے۔لیکن ان سب کے
درمیان جو سب سے اچھی بات ہے وہ یہ ہے کہ پورے ملک میں جمہوریت لگاتار
مضبوط ہورہی ہے۔ نومولود عام آدمی پارٹی کا سیاسی افق پر نمودار ہونا ہماری
جمہوریت کی کامیابی کی دلیل ہے۔اور برسہابرس سے سیاسی دوکان لگائے بیٹھے
نیتاؤں کے لئے یہ سبق بھی ہے کہ وہ کسی گھمنڈ میں نہ رہیں۔ملک کی جمہوریت
پرست عوام ایسے مغروروں کو سبق سکھانا اچھی طرح جانتی ہے،ذات پات،دھرم،مذہب
کے نام پر عوام کو بانٹنے اور انہیںجنون میں مبتلا کرکے ان کا ووٹ حاصل
کرنے کی کوشش کرنے والوں کو خاص طور پر دہلی کے نتیجے سے سبق لینے کی ضرورت
ہے۔جمہوریت عوام کے لئے، عوام کے ذریعہ عوام کی ہوتی ہے۔یہ باربار ثابت
ہوچکاہے ۔اور دہلی کا انتخابی نتیجہ بھی ہمیں یہی بتا رہاہے۔ |