كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتاً
فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ
تُرْجَعُونَO
*
تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی
بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم
اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گےo
*
(البقره، 2 : 28)
*
اِس آیتِ کریمہ میں دو اَموات، دو زندگیوںاور بالآخر یومِ آخرت کو تمام
اِنسانیت کو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں لوٹائے جانے کا صراحتاً ذِکر ہے۔ آیتِ
کریمہ کی روشنی میں پہلی موت تو ہمارا عدم تھا، جب ہم ابھی عالمِ وُجود میں
نہ آئے تھے۔ اُس کے بعد کی زندگی ہماری یہ دُینوی حیات ہے۔ پھر اُس کے بعد
موت آئے گی اور لوگ حسبِ حال ہمارا کفن دفن کریں گے۔ اس موت کے بعد کی
زِندگی حیاتِ برزخی کہلاتی ہے جو ہر اِنسان کو قبر (یا حالتِ قبر) میں میسر
آتی ہے اور فرشتے سوالات پوچھنے آتے ہیں اور جنت یا جہنم کی طرف سے ایک
کھڑکی قبر میں کھول جاتے ہیں۔ اُس دُوسری زِندگی کے بعد ہمیں روزِ محشر
اللہ ربّ العزّت کی طرف لوٹایا جائے گا۔ یوں حیاتِ برزخی کا دَورانیہ قبر
میں سوالات کیلئے فرشتوں کی آمد سے لے کر روزِ محشر پھونکے جانے والے صورِ
اِسرافیل تک طویل ہے۔
*
یہ تو ایک عام اِنسان (خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر) کی حیاتِ برزخی کا
معاملہ تھا، آئیے اَب حیاتِ شہداء کے سلسلے میں سورۂ بقرہ ہی کی ایک اور
آیتِ مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں :
*
وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌبَلْ
أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَO
*
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیںاُنہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ
مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (اُن کی زندگی کا) شعور نہیںo
(البقره، 2 : 154)
*
اِسی مضمون کو سورۂ آل عمران میں کچھ مختلف اَلفاظ کے ساتھ یوں اِرشاد
فرمایا گیا :
*
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ
أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَO
*
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں اُنہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ
کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں، اُنہیں (جنت کی نعمتوں کا) رِزق
دیا جاتا ہےo
(آل عمران، 3 : 169)
*
شہداء کی حیات پر تو ہر مسلک کے پیروکار قائل ہیں تاہم مذکورہ بالا آیاتِ
کریمہ کے علاوہ متعدّد اَحادیثِ مبارکہ میں بھی کفار و مشرکین کی موت کے
بعد حیات اور زِندہ لوگوں کے کلام کو مرنے کے بعد سننے پر قدرت کا ثبوت
پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر غزوۂ بدر کے بعد سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے خود کفار و مشرکین میں سے قتل ہو جانے والوں کو نام لے لے کر
پکارا اور اُن سے پوچھا :
*
فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ
مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا؟
*
تحقیق ہم نے اپنے ربّ کے وعدے کوبالکل درست پایا، سو (اے کفار و مشرکین)
کیا تم نے بھی اپنے ربّ کا وعدہ سچا پایا؟
*
اِس موقع پر سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنھم بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم میں یوں عرض گزار ہوئے : ’’حضور! آپ ایسے جسموں سے خطاب
فرما رہے ہیں جن میں روح ہی نہیں‘‘۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
صحابۂ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا :
*
وَ الَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَع لِمَا
أَقُوْلُ مِنْهُمْ.
*
اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے،
میں اُن (کفار و مشرکین) سے جو باتیں کر رہا ہوں وہ اُنہیں تم سے بڑھ کر
سننے پر قادر ہیں۔
(صحيح البخاری، کتاب المغازی، 2 : 566)
*
صحیح بخاری کی اِس حدیثِ مبارکہ سے تو کفار و مشرکین تک کی بعد از موت
برزخی زِندگی میں میسر قوتِ سماعت نہ صرف عام زِندہ اِنسانوں بلکہ زِندہ
صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کی سماعت سے بھی بڑھ کر قرار پا رہی ہے۔
*
اِسی طرح محسنِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے قبرستان کے
پاس سے گزرنے والے ہر شخص کو یہ تعلیم دی کہ وہ اہلِ قبور کو نہ صرف حرفِ
نداء ’’یَا‘‘ کے ذریعے مخاطب کرے بلکہ اُن پر سلام بھی بھیجے۔ یہی سبب ہے
کہ مسلمان اپنے بچوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ قبر ستان کے پاس گزرتے وقت
’’السَّلَامُعَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ‘‘ ضرور کہا کریں۔
*
جب کفار و مشرکین کی حیات، عامۃ المؤمنین کی حیات اور شہداء و صالحین کی
حیات اپنے اپنے حسبِ حال قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہےتو یہ کس طرح ممکن
ہے کہ انبیاء علیھم السلام اور بالخصوص تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی حیات کا اِنکار کیا جائے؟
*
اللہ ہم سب کو دین کی سمجھ عطا کرئے اور اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ والہ
وسلم کا سچا عشق عطا فرمائے
*
آمین |