بھارت کی پانچ ریاستی اسمبلیوں کے نتائج سے اس بات کے
امکانات میں اضافہ ہو گیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) کی سربراہی
میں نیشنل ڈیموکریٹک الائینس(این ڈی اے) اگلے سال کے الیکشن میں کامیابی
حاصل کرے گی ۔راجھستان،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ،میزورام،دہلی کی اسمبلیوں کے
الیکشن میں بے جے پی کی نمایاں کامیابی پر کانگریس نے کہا ہے کہ یہ نتائج
اگلے سال کے پارلیمانی الیکشن پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ تاہم بی جے پی کے
رہنما نریندرا موددی بھارت کے اگلے وزیر اعظم بننے کے لئے پر امید ہیں اور
مختلف سروے میں ان کی کامیابی کے واضح امکانات ظاہر ہو رہے
ہیں۔17ستمبر1950ء کو بمبئی سٹیٹ( ریاست گجرات) میں پیدا ہوئے۔نریندرا موددی
نے سکول تعلیم آبائی ضلع مہانا میں ہی حاصل کی اور وہیں ایک بس ٹرمنل مین
ٹی سٹال بھی چلاتے رہے۔گجرات روڈ ٹرنسپورٹ کارپوریشن میں کینٹین چلاتے رہے
اور اسی دوران ہندو انتہا پسند عسکری تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ(آر ایس ایس)
میں شامل ہوئے۔واضح رہے کہ آر ایس ایس کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر استوار ہے
اور اس کے قیام( 1925ء )میں بھی مسلم کش فسادات کا بنیادی کردار تھااور اس
وقت سے لیکر اب تک آر ایس ایس بھارت کے مختلف علاقوں میں مسلم کش فسادات
میں ملوث چلی آ رہی ہے ۔مودی نے آر ایس ایس کی خصوصی تربیت بھی حاصل کی
ہے۔گجرات یونیورسٹی سے پولیٹکل سائینس میں مسٹر ڈگری حاصل کی۔2001ء سے
مسلسل چوتھی بار ریاست گجرات کے وزیر اعلی ہیں۔اسی سال ’’ اکنامک ٹائمز‘‘
میں انڈیا کے ایک سو کاپوریٹ لیڈرز نے بھارت کے آئندہ وزیر اعظم کے لئے
مودی کی حمایت کی ہے۔بھارتی میڈیا اور بھارتی سول سوسائٹی بھی مودی کو ہی
اگلا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔
یوں تو بھارت میں نئے وزیر اعظم کے امیدوار نریندر مودی کو ایک ماہر
اقتصادیات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی تسلیم کی
جا رہی ہے کہ نریندر مودی کی شخصیت ،کردار کا سب سے سیاہ پہلو 2001ء میں
گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات ہیں۔گودھاراٹرین کے واقعہ میں 65افراد
کے جلائے جانے کے بعد تمام ریاست گجرات میں مکمل سرکاری حمایت سے مسلمانوں
کاقتل عام کیا گیا۔سرکاری رپورٹ کے مطابق چند ہی دنوں میں دو ہزار مسلمان
انتہا پسند جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں مارے گے،ہزاروں زخمی،ہزاروں بے گھر،جو
اب بھی شہروں سے باہر کوڑے کے ڈھیروں پر زندگی کے دن گزار رہے ہیں،اب تک ان
مسلمانوں کو واپس اپنے گھروں کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔نریندر مودی گجرات کے
وزیر اعلی کے طور پر انتہا پسند ہندوؤں کو مسلم کش فسادات میں بھرپور سپورٹ
فراہم کی اور اسی وجہ سے گجرات کا وزیر اعلی ہونے کے باوجود ایک بار نریندر
مودی کو امریکہ کا ویزہ نہیں دیا گیا۔
رام جیٹھ میلانی ’’دی سنڈے گارڈین ‘‘ میں نریندر مودی کو وزیر اعظم کے طور
پر مشورہ دیتے ہیں کہ’’ وہ انسانیت کو ترجیح دیں،اپنی غلطیوں کا کھلے طور
اعتراف کریں،خود کو دنیا میں بڑے جمہوری لیڈر کے طور پر پیش کریں،انسانی
حقوق کے محافظ بنیں ،دنیا بھر میں انصاف کے لئے کام کریں اور مسلمانوں کو
اصل ہندو واتا دکھائیں‘‘۔نریندر مودی نے رواں ریاستی الیکشن مہم کے دوران
جموں میں جلسے سے خطاب میں کہا کہ وہ ہندو مسلم کی بات کرنے نہیں آئے
ہیں،وہ کشمیر کے لئے یونٹی اور ڈویلپمنٹ کا وعدہ کرتے ہیں۔مودی نے ایک مذہب
ہر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک مذہب یعنی’’نیشن فسٹ‘‘لہذا بھارت کے آئین میں
بھی ایک ہی مذہب ہونا چاہئے۔مودی نے کہا کہ پاکستان کے حکمرانوں کو اجازت
نہیں دی جائے گی کہ سرحد پار دہشت گردی کرائیں۔مودی نے کہا کہ پاکستان نے
بھارت کو ’وار زون‘ میں تبدیل کر دیاہے،اپنے وار مائینڈ سیٹ سے اور دہشت
گردی کی مدد کر کے۔نریندر مودی نے8دسمبر کو ایک جلسے میں کہا کہ اگر ان کی
حکومت الیکشن جیت گئی تو وہ پاکستان کے خلاف سخت روئیہ اپنائیں گے۔انہوں نے
کہا کہ پاکستان میں نواز شریف وزیر اعظم ہیں لیکن شک ہے کہ وہ دہشت گردی کا
معاملہ ’ڈسکس‘ کر سکیں گے یا نہیں۔مودی نے کہا کہ میں خطے میں امن اور
اقتصادی ترقی کے لئے کام کرنے کو تیار ہوں۔نریندر مودی نے کہا کہ تاہم
کشمیر تنازعہ اور دہشت گردی پر کسی بڑے’ بریک تھرو ‘کی توقع نہ رکھی جائے۔
اب تک کے حالات و واقعات کے مطابق نریندر مودی بھارت کے آئندہ وزیر اعظم
بنتے نظر آ رہے ہیں۔نریندر مودی آر ایس ایس کی مسلم دشمنی کی جنونیت پر
مبنی ’’مائینڈ سیٹ‘‘ کی تربیت کے حامل ہیں۔یوں تو بی جے پی پہلے بھی بھارت
میں اقتدار میں رہی لیکن بی جے پی کی اس وقت اور اب کی قیادت میں زمین
آسمان کا فرق ہے۔اگر بھارت کے نئے وزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی بی جے
پی کی روائتی سوچ کے مطابق ہندو ازم کی بنیاد پر انتہا پسندانہ فیصلے کرتے
ہیں تو ان کی طرف سے کسی’’ ایڈونچر‘‘ کی توقع بھی رکھی جا سکتی ہے۔نریندر
مودی کی کامیابی بھارت کی اس عریاں حقیقت کا اعتراف ہو گی کہ بھارت میں
ہندو ازم کی بنیاد پر پاکستان اور مسلم دشمنی کے جذبات نمایاں ہو رہے
ہیں۔نریندر مودی نے متنازعہ ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی
آئین کی دفعہ 370کے خاتمے کی بات بھی کی ہے۔مودی کے ان رجحانات سے معلوم
ہوتا ہے کہ وہ اپنی روائتی سوچ کے مطابق ایسے سخت فیصلے بھی کر سکتے ہیں جس
کے ردعمل میں خرابیوں اور مسائل میں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔کم از کم
اب تک تو بھارت کے آئندہ وزیر اعظم کے لئے پر تولتے ہوئے نریندر مودی یہی
تاثر دے رہے ہیں اورپاکستان و مسلم دشمنی پر مبنی اپنے اس روائتی موقف کو
الیکشن میں اپنی فتح کے لئے کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں۔ |