بد عنوانی ، بد امنی اور امریکہ سے نجات

انڈونیشیا میں میں ایک ترکھان کا عام سا بیٹا''جوکو'' جس کو کبھی کھانے کیلئے روٹی اور سر چھپانے کیلئے چھت میسر نہیں تھی آج اپنی محنت سے اس مقام پر پہنچ چکا ہے کے عوام اسے مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اگلے سال انڈونیشیا کے صدر کے طور پر الیکشن لڑے ۔یہ وہی ''جوکو'' تھا جسے چند سال پہلے تک ایک معمولی دکاندار سمجھا جاتا تھا اس نے 2005 میں جب میئر شپ سنبھالی تو وہاں کے حالات پاکستان کے موجودہ حالات سے زیادہ مختلف نہ تھے ۔لیکن آج 8 سال بعد اس میئر نے عوام کے درمیان رہتے ہوئے وہ کارکردگی دکھائی کے عوام اسے صدارتی الیکشن کیلئے مجبور کر ہے ہیں ۔

پاکستان میں ہر روز سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں بڑھتی ہوئی کرپشن کی ایسی ہوشربا کہانیاں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ دماغ شل ہو جاتا ہے۔ ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئے اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر کسی سرکاری محکمے میں لاکھوں روپے کی کرپشن ہو رہی ہو تو اس محکمے کو دیگر کے مقابلے میں معصوم سمجھا جاتا ہے ،کرپشن میں بھی اب کروڑوں اور اربوں سے کم بات نہیں ہوتی۔گزشتہ حکومت نے جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو انتہائی شفاف قرار دینے کے دعوے کیے تھے اس پروگرام میں بھی اربوں روپے کے غبن سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔آج پاکستان میں کوئی بھی محکمہ کرپشن سے پاک نہیں ہے اسی وجہ سے ملکی معیشت گھٹنوں تلے ہو چکی اور امریکی امداد کے بغیر حکومت کا چلنا ممکن نہیں دکھائی دیا۔ عالمی سطح پر بدعنوانی پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم ٹرانسپیرنسی ا نٹرنیشنل نے اپنی تازہ سالانہ رپورٹ میں دنیا کے 177 ممالک میں بدعنوانی سے متعلق درجہ بندی کی فہرست جاری کی ہے۔منگل کو جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2012ء کے مقابلے میں رواں سال بدعنوانی میں کمی آئی ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی درجہ بندی فہرست کے مطابق 100 پوائنٹس والے ملک کو بدعنوانی سے تقریبا پاک تصور کیا جاتا ہے جب کہ صفر پوائنٹ والے ملک کو انتہائی بدعنوان ملک سمجھا جاتا ہے۔رواں سال کی رپورٹ میں پاکستان میں بدعنوانی میں کمی کے تناظر میں 12 درجے کی بہتری آئی ہے ۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مشیر عادل گیلانی کے مطابق گزشتہ سال بدعنوانی کے اعتبار سے فہرست میں پاکستان 139 ویں نمبر تھا جب کہ اس سال یہ 127 ویں نمبر پر ہے۔انھوں نے کہا کہ رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی کے سدباب کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں ان کے بہتر نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔اس سے پاکستان میں بدعنوانی میں کمی کے باعث سرمایہ کاروں اور کاروباری برادری کا اعتماد بھی بڑھے گا۔معیشت بھی بہتر ہو گی، درجہ بندی میں بہتری کے باعث باہر سے بھی سرمایہ آئے گا۔ بدعنوانی کے باعث باہر سے کوئی بھی سرمایہ کار اس لیے نہیں آتا کہ کہیں ان کا پیسہ (ڈوب نا)جائے۔گزشتہ تین عشروں میں بے قابو ہوتی ہوئی کرپشن پاکستان کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اگر اس کا مزید سنجیدگی سے سدباب نہ کیا گیا تو پاکستان کا اﷲ ہی حافظ ہو جائے گا۔میرے نز دیک ایک طرف بد عنوانیوں نے ملک کی معیشت کھوکھلی کر دی دوسری جانب دہشت گردی کے واقعات کم ہونے کا نام نہیں لے رہے تو تیسری طرف امریکہ بہادر کے دن بدن بڑھتے ہوئے نخروں نے تمام حدود سے تجاوز کر لیا ہے ،ان تینوں اہم مسئلوں کے پیدا ہونے کی وجہ ہمارے کم فہم سیاستدان ،نا ہل حکمران اور کم شعور رکھنی والی عوام کو قرار دینا بلکل درست ہو گا کیونکہ اب کرپشن ہمارے معاشرے میں اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ اس سے بچاو فلوقت ممکن نہیں ،بد امنی اس لیے ہے کہ حکومتی مشینری درست کام نہیں کر رہی اور امریکہ کی غلامی اس لیے کے ہمیں مغلیہ بادشاہوں کے آخری دور کی طرح عیاشیوں کی لت پڑ چکی ہے جس کو آسانی سے دور نہیں کیا جا سکتا ۔

دوسری جانب ملک میں ڈرون حملوں کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ گزشتہ ایک عشرہ سے سب سے پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے ۔ڈرون حملوں کو روکوانے کیلئے گزشتہ 2 ہفتوں سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نیٹو سپلائی لائن روکے جانے کے بعد امریکہ نے سکیورٹی خدشات کا بہانہ بناتے ہوئے افغانستان سے اپنے عسکری ساز و سامان کی پاکستان کے زمینی راستوں سے ترسیل معطل کرتے ہوئے متعلقہ کمپنیوں کے ڈرائیوروں سے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی گاڑیاں افغانستان میں ہی کھڑی کر دیں۔اب امریکہ نے نیٹو سپلائی لائن روکے جانے کے حوالئے سے بغور جائزے لینے کے بعد پاکستان کی فوجی امداد بند کرنے کی بھی دحکمی دے دی ہے ۔ پاکستان اب تک امریکہ سے 16 ارب ڈالر فوجی امداد کی مد میں لے چکا ہے ۔نیٹو افواج کے انخلا اور ان کے فوجی ساز و سامان کی واپسی میں پاکستان کے کردار کو انتہائی کلیدی تصور کیا جاتا ہے۔ادھرمسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کے علاوہ بعض دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی موقف ہے کہ نیٹو افواج کی رسد کو روکنے کے لیے تحریک انصاف اور اس کی حلیف جماعتوں نے احتجاج کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ درست اقدام نہیں قرار دیا جا سکتا۔وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ڈرون حملوں کی بندش کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔دوسری جانب امریکہ افغانستان سے فوجی ساز و سامان کی وطن واپسی کے لیے پاکستان کا زمینی راستہ استعمال کرنے کا حامی نظر آتا ہے اور اسے امید ہے صوبہ خیبر پختونخواہ کی حالیہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہے گی۔اس نازک معاملے میں حکومت پاکستان کو ایسا واضح موقف اپنانے کی ضرورت ہے جس میں پاکستان کی اکائیو ں اور بین الاقوامی برادری دونوں کو مطمین کیا جا سکے ۔امریکہ بہادر گزشتہ ساٹھ سال سے پاکستان کے اندرونی معاملات پر حاوی رہا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مارشل لاء کی پیداوار ان حکمرانوں میں چھانٹی کی جائے اور صاف ستھرے اور ملک کیلئے مخلص لوگوں کو سامنے آ کر کام کا موقع دیا جائے ۔اس سب کیلئے نوجوان نسل کی تربیت سازی اور شعور کی بیداری کیلئے کام کرنا ہوگا ۔

Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66428 views Columnist/Writer.. View More