آج مجھے ایک سیمنار میں حاضر
ہونے کا اتفاق ہوا۔ بڑے بڑے عالم فاضل حضرات تشریف فرما تھے۔ اہل زر اور
اہل اقتدار بھی جلوا فرما تھے۔ اس ذیل میں ہر اک اپنا واضع موقف رکھتا تھا۔
آپ کا دل اور ضمیر چاہے ناچاہے‘ اصول یہ رہا ہے کہ ہر بڑے کی ہاں میں ملانا
زندگی اورصحت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اگر سقراط ہاں میں ہاں ملاتا تو زندگی
بھر گھیو کرولیاں کرتا۔ پاگل تھا' صدیوں سے چلے آتے اصول کی خلاف ورزی کرتا
رہتا۔ اسے لائن پر آنے کے مواقع دیے گئے۔ کملا تھا' مواقع ضاءع کرتا رہا۔
نتیجہ کار کٹ کھانی ہی تھی اور پھر جان اور جہان سے گیا۔
بابے دراصل قوم اور اہل لٹھ کے لیے جنجال ہی رہے ہیں۔ جب بولتے ہیں وکھی
پرنے بولتے ہیں۔ جی میں آیا اسٹیج سے اٹھ کر سامعین میں بیٹھ جاؤں اور کچھ
کہنے سے معذرت کر لوں۔ پھر خود کو حوصلہ دیا کہ بڑے میاں شیر بنو شیر۔ ساری
عمر سرخوں کو چاہا اور اب بڑھاپے میں پٹڑی سے اتر کر شیر کو بوڑھا اور
بوسیدہ دل دے بیٹھے ہو' گیدڑ نہ بنو۔ سو پہاجی‘ میں بیٹھا رہا۔ باری پر
میری طلبی ہوئ۔۔ میں نے کہا بابا کہہ دو جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ میری
باتیں سامعین نے پسند کیں۔ اہل جاہ پر کیا گزری ہو گی میں نہیں جانتا۔ میں
نے دانستہ ان کی طرف دیکھا ہی نہیں۔ بوڑھا ہوں‘ گھورتی آنکھوں کا سیکا
برداشت نہیں کر سکتا۔
تعلیم آگہی سے جڑی ہوئ ہے۔ حصول آگہی کی خواہش انسانی فطرت میں شامل ہے
دیتی ہے۔ بچہ کھلونے کیوں توڑتا ہےِ؟ وہ کھلونے کے متحرک ہونے کا راز جاننا
چاہتا ہے۔ وہ چاہتا جاننا ہے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جو کھلونے کو متحرک
اور غیر متحرک بناتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ گویا جاننا اس کا فطری حق ہے۔ یہ
خوشی کی بات ہے کہ پچے میں جستجو کا مادہ موجود ہے۔ ایک بہت بڑے عالم سے
متعلق معروف ہے کہ وہ آخری سانسیں لے رہے تھے۔ کوئ مسلہ جاننے کے لیے انھوں
نے کتاب طلب کی۔ انھیں کہا گیا آپ تو جا رہے ہیں اب اس کی کیا ضرورت ہے۔
انھوں نے جوابا کہا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں جاہل موت مروں۔.
اس کی مثبت دو عملی صورتیں ہیں۔ حضرت مہاتما بدھ جی شہزادے تھے ۔ مالی
آسودگی تھی۔ ان کا گیان کے لیے دنیا کو تیاگنا معاش سے وابستہ نہ تھا۔ گیان
ہاتھ لگا تو انھوں نے خود کو دنیا کے لیے وابستہ کر دیا۔ ان کی انسانیت کے
لیے خدمات کو کسی بھی سطع پر نظر انداز کرنا بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ مارکونی
نے بھی بلا کسی معاشی حاجت کے لیے ریڈیو ایجاد کیا۔ یہ ایجاد آتے وقتوں میں
بہت ساری ایجادات کا سبب بنی۔ دریافت ہر دو متذکرہ صاحبان کے لیے سب سے بڑی
خوشی تھی۔ ان کی دریافت سے بلا کسی تخصیص و امتیاز انسانیت کو فایدہ ملا۔
تعلیم سے ہی یہ سب ہوا۔ تعلیم دراصل انسان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔
تعلیم اگر زندگی کے سلیقے میں تبدیلی نہیں لاتی تو اسے تعلیم کہنا بذات خود
جہالت ہے۔ تعلیم ابوزر غفاری اور سلمان فارسی کے منصب پر فائز کرتی ہے۔
تعلیم حاکم وقت کو آزاد کردہ غلام کو اس کے تقوے کی بنیاد پر سیدنا کہنا
سکھاتی ہے۔
تعلیم کے حصول کا ایک مقصد اور بھی رہا ہے۔ کمزور طبقے اپنے بچوں کو کلرک
شپاہی وغیرہ کی ملازمت کے متمنی رہتے ہیں جبکہ صاحب حثیت طبقے اپنے بچوں کو
افسر بنانے کے لیے بڑی سے بڑی درسگاہ میں جمع کراتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو
کلرک یا افسر بنانا چاہتے۔ ان کے ذہن کے کسی گوشے میں اپنے بچے کو اعلی
خصاءل کا حامل انسان بنانے کی خواہش سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔
میر منشی ہاؤس میں
خواہش اور توقع کے حوالہ اعلی شکشا منشی کا دفتر ہے۔ ہر کسی کو ان میں کے
قدموں پر چلنا ہوتا ہے۔ خواہش اور توقع کا مجموعہ اگر توقع اور خواہش پر
پورا نہیں اترتا تو گلا درست ہے۔ کلرک تو بہت بڑا آدمی ہوتا ہے ناءپ قاصد
بھی خواہش اور توقع کے بالاتر معیار پر فاءز ہے۔ اگر وہ سب بالائ نہ لاتے
ہوں تو گلا کیا جا سکتا ہے۔ وہ معیاری رقم نہ لاتے ہوں تو ہی ان کی تعلیم
پر انوسٹمنٹ کی گئ رقم حرام جائے گی۔ سائل کیا کر لے گا۔ عدالت جائے گا۔
وہاں خرچہ کرکے کوئ آرڈر لائے گا۔ بعض معاملات چند ہزار سے جڑے ہوءے ہوتے
ہیں۔ اب چند ہزار کے لیے ہر کوئ جھڑنے ہی میں عافیت سمجھے گا۔ میں سمجھتا
ہوں یہ عزت مآب حضرات تعلیم کے مقاصد کے حصول میں کامیاب ترین لوگ ہیں۔ سچی
بات تو یہ ہے یہ بڑی ایمانداری سے تعلیمی مقاصد کا حق ادا کر رہے ہیں۔ ہم
شاباش دینے کی بجائے شاواش دے رہے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ ثعلیم دشمنی کے
مترادف ہے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے' کم ہے۔
واپڈا والوں پر گلا اور شکوہ کیا جاتا ہے بڑے ہی افسوس کی بات ہے۔ ہم انھیں
ان پڑھ کیوں سمجھتے ہیں۔ دوچار سو یونٹ زائد ڈال کر وہ صارف سے پاکستان تو
اپنے نام نہیں لکھوا رہے ہوتے۔ افسروں کی ضرورتیں اپنی جگہ دیگر ملازمین کی
بھی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ رشتہ دار دوست یار تو اصولی استحقاق رکھتے ہیں لیکن
جیب تو دیگر کسٹمر ہی بھرتے ہیں۔ اگر رشتہ دار اور دوست یار خوش نہ ہوءے تو
تف ہے ایسی نوکری پر۔ جیب میں بالائ نہ آئ تو تعلیم کا مقصد ہی عین غین ہو
جاتا ہے۔
ملازمین کو کوٹھیاں دینے کے لیے اسکیم شروع ہوئ۔ اسکیم بلاشبہ اعلی جھانسہ
دار ہے۔ ملازمت ختم ہونے پر پتہ چلتا ہے کہ ملازم کی تنخواہ سے ایک لاکھ نو
ہزار کٹوتی ہوئ ہے۔ کوٹھی کے حصول کے لیے ساٹھ ستر لاکھ مزید کی ضرورت ہوتی
ہے۔ یتیم محکمہ سے متعلق ملازم دوچار زندگیوں میں بھی اتنی رقم ادا نہیں کر
سکتا۔ ایک اردو یا پولیٹیکل ساءنس کا پروفیسر اتنی رقم چشم تصور میں بھی
ادا نہیں کر سکتا۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرے گا۔
یہ آرٹس کے پروفیسر بھی کتنے سادہ یا احمق لوگ ہوتے ہیں۔ شاید انھیں اس
شعبے کی تعلیم یافتگی پر شک ہوتا ہے۔ انھیں اپنی درخواست کی بازگشت تک سنائ
نہیں دیتی۔ میں کہتا ہوں اگر مک مکا کے بغیر بازگشت سنائ دینے لگی تو تعلیم
اور ملازمت کی حصولی پرادا کی گئ رقم حرام ہو گئ۔
سیمینار میں نصاب کے حوالہ سے عوامی نماءدگان سے بات کرنے کی بھی تجویز
ہوئ۔ مانا عوامی نماءدگان میں اکثریت نے تعلیم پر خرچہ نہیں کیا لیکن وہ
بھاری خرچہ کرکے ممبر بنے ہیں۔ یہ یقینا بڑی عجیب صورت ہو گی اگر وہ اس قسم
کے بےفضول کام پر پیداکار وقت صرف کریں گے۔ دوسرا یہ کام ان کا نہیں شکشا
منشی صاحبان کا ہے جنھیں اپنی تعلیم سے لابھ اٹھانے سے فرصت نہیں۔ تعلیم
یافتہ ملازمین کے پاس مفتوں کے لیے ٹائم ہی کہاں ہے۔
مجھے پنجابی کے یہ مصرعے بس یوہی یاد آ رہے ہیں
بنین لین جانندے اوہ بنین لئے کے آندے پاندے اوہ پیندی نہیں لاندے اوہ
لہندی نہیں
موجودہ لنکنی نظام کے حوالہ سے حصول تعلیم کا حاصل یہی رہے گا۔ ہاں بنین
میں دینا
پاؤ گے پوے گی لاوو گے لوے گی
یہ قرآن و سنت کے حوالہ سے قاءم ہونے والے نظام حکومت سے ہی ممکن ہے۔ شہباز
شریف کی محنت اور دیانتداری پر پورے پنجاب کو ناز ہے۔ کیا وہ میرمنشی گاہ
واپڈا ہاؤس وغیرہ کا قبلہ درست کر سکیں گے میں سردست اس ذیل میں کچھ عرض
کرنے سے قاصر ہوں۔ میری اس ناچیز قاصری کو معذرت سمجھیں۔ شکریہ |