غالب کا ایک شعر
غالب کیا‘ کسی بھی شاعر کے کسی بھی شعر کی تشریح کرنا آسان کام نہیں۔ اس کی
بنیادی کچھ وجوہ ہیں:
شعر تشریع کی چیز نہیں اس کا تعلق محسوس سے ہے۔
شاعر کا مجموعی مزاج ماحول اور طرز حیات جانتے ہوئے بھی لمحہ تخلیق کا
اندازہ کرنا ممکن نہیں۔
شارح شاعر کے حالات وغیرہ کا پابند نہیں۔ دانستہ یا نادانستہ اپنے حالات کی
نمائندگی کر جاتا ہے۔
ایک ہی عہد کی زبان تفہییمی حوالہ سے ایک نہیں ہوتی۔
لفظ جامد شے نہیں ہیں اس لیے ان کے سکے بند مفاہیم کا تعین ممکن ہی نہیں۔
امرجہ کے حوالہ سے لفظوں کا کلچر بدلتا رہتا۔
ہر کلچر بےشمار منی کلچرز سے استوار ہوتا ہے۔
لفظ استعمال کرنے والے کی انگلی پکڑتا ہے۔
جذبہ پازنجیر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے شاعری میں علاامتوں استعاروں اشاروں
کناءوں کا بکثرت استعمال ملتا ہے۔
ہر کلچر کی مخصوصیات اس کلچر کے تناظر میں تبدیل ہوتی ہیں۔ مہاجر روایت کو
وہاں کی مخصوصیات کی پیروی کرنا پڑتی ہے بصورت دیگر اسے رخصت ہونا پڑتا ہے۔
غرض ایسی بہت سی چیزیں جن کے حوالہ سے کسی شعر کی پکی پیڈی تشریع کوئ آسان
اور سادہ کام نہیں۔ میں یہاں ظفر کے دو سادہ سے شعر پیش کرتا ہوں:
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
چشم قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئ قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
لفظ ادھر ادھر ہو گیے ہوں تو بوڑھا سمجھ کر معاف فرما دیں۔ بڑے ہی رومان
پرور شعر ہیں۔ جس عاشق کا محبوب منہ پھیر گیا ہو بلاشبہ اس کے دل ودماغ کی
نمائندگی کرتے ہیں۔
١٩٥٤ کے سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھیں تو مفاہیم کچھ کے کچھ ہو جائیں
گے۔ معتمد خاص اور رابطہ کار کے رویے کے حوالہ سے دیکھیں' مفاہیم یکسر بدل
جائیں گے۔
مرزا غالب کا وجود تو اس عہد میں نظر آتا ہے لیکن فکری حوالہ سے فردا کے
شخص تھے۔ ایٹم بم تو کل پرسوں ایجاد ہوا غالب نے اس کا نظریہ غالبا ١٨٣٥
میں دے دیا تھا۔ علامہ حالی ناصرف صاحب علم ودانش ہیں‘ غالب کے قریی بھی
تھے۔ غالب فہمی کی باقائدہ روایت بھی ان ہی سے شروع ہوئ۔ اس حقیقت کے
باوجود یادگار غالب کو تفہیمی حوالہ سے حرف آخر نہیں قرار دیا سکتا۔ ان
حالات کے تناظر میں مجھ بےچارے سے غالب فہمی کی توقع نادانی اور محض نادانی
ہو گی۔ تاہم اپنا خیال عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
سادہ بیانی کے حوالہ سے لاجواب شعر ہے۔ ایسا کوئ لفظ موجود نہیں جس کے لیے
لغت کا سہارا لازم ٹھہرتا ہو۔ لیکن اس شعر کی تفہیم اتنی سادہ اور آسان
نہیں۔
سادہ بیانی رہی ہو یا مشکل پسندی‘ بنیادی چیز خیال ہے تاہم سادہ اورعام
فیہم اسلوب ہر کسی کو خوش آتا ہے۔ غالب جیسا بلند فکر ہر دو صورتوں میں
معمولی بات کر ہی نہیں سکتا۔ وہ جب بھی اور جو بھی کہے گا اوروں سے ہٹ کر
کہے گا۔ یہ اس کی فکری مجبوری ہوتی ہے۔
اس شعر کا کی ورڈ معین ہے۔ جب تک اس لفظ کی تفہیم واضح نہیں ہو جاتی شعر کی
شرح ممکن نہیں۔ یہ بھی کہ اس لفظ کے فکری کلچر تک رسائ ایک ازلی حقیقت سے
وابستہ ہے۔ نیند نہ آنے کی کئ وجہ ہو سکتی ہیں مثلا ڈر خوف خدشہ تذبذب غم
غصہ ناگہانی صورت پیش آنے کا احتمال وغیرہ۔ بلا شبہ موت کا ایک دن مقرر ہے
لیکن اس تعین سے انسان آگاہی نہیں رکھتا اس عدم آگہی کی بکل میں ڈر خوف
خدشہ تذبذب غم غصہ ناگہانی صورت پوشیدہ ہیں۔ اہل فکر کے لیے عدم آگہی سے
بڑھ کر کوئ عذاب نہیں۔ حضرت علی سے ایک واقعہ منسوب ہے کہ وہ اس دن سکون کی
نیند سوئے جس دن آپ کریم نے انہیں اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا اور فرمایا
صبح کو امانتیں لوگوں کو واپس کر دینا۔ یہ تعین‘ حتمی اور یقینی بات تھی کہ
وہ زندہ اور سلامت اٹھیں گے۔
یہاں ایسا تعین ہے جس کی انسان آگہی نہیں رکھتا۔ انسان نہیں جانتا کہ وہ
صبح کو اٹھے گا کہ نہیں۔ اس طرح پینڈنگ کام ہو بھی سکیں گے کہ رہ جائیں گے۔
رہ جانے کی صورت وہ کام کوئ کیوں کرے گا۔ بعض خفییہ کام ہوتے ہیں انہیں صرف
متعلقہ ہی انجام دے سکتا ہے۔ سو گیے اور صبح اٹھنا نصیب نہ ہوا تو وہ کام
تو لازمی اور یقینی رہ جائیں گے۔ نیند نہ آنے کی بنیادی وجہ عدم آگہی ہے۔
میرے علم میں یہ بات تھی کہ میں ١١ مئ ٢٠١١ کو ریٹاءر ہو جاؤں گا اس لیے
میں نے جملہ امور کی انجام دہی میں غفلت اور کسی قسم کی کوتاہی سے کام نہیں
لیا۔ میں جانتا تھا اس تاریخ کے بعد غیر متعلق ہو جاؤں گا۔
غالب کے اس شعر میں حضرت علی کے کہے کی باذگشت واضح طور پر سنائ دیتی ہے۔
احباب پر واضح رہے یہ تفہیم میں نے اپنی فراست کے مطابق کی ہے عین ممکن ہے
اس کے کہے کے پیچھے کوئ اور بات رہی ہو اس لیے اسے آخری تفہیم کا درجہ نہیں
دیا جا سکتا۔ |