شادی زندگی کا اہم ترین اور خوشگوار واقعہ ہے۔ مرد گرم جوشی سے اپنے گھر کو
رونق بخشنے والی رفیقہِ حیات کا استقبال کرتا ہے اور اقرباءو احباب جوڑے کو
مبارک باد دیتے ہیں ۔اسلام اسمیں فطری امنگوں کو پورا کرنے کا سامان کرتا
ہے اور اسلام نے شادی بیاہ کے ایسے طریقے بتائے ہیں جسمیں اظہارِ مسرت ہے
تو خوشنودیِ رب بھی ہے ۔مثلا نکاح پر مبارک باد،نکاح کے اعلان کیلیئے دف
بجانا ، گھر میں بچیوں کا مباح گیت گانا ، شوہر کی طرف سے مہر دینا اور
دعوتِ ولیمہ وغیرہ ۔
لیکن ان امور میں اس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ کوئی بات شرعی حدود سے متجاوز
اور اسلام کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو اور لغو ، نمائشی ،اترانے اور فخر کرنے
کی بری عادتوں سے پاک ہو اور سوسائٹی کےلیے مشکلات نہیں بلکہ آسانی پیدا
کرنے والی ہو ۔شادی کے موقع پر انسان کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ کون سا رویہ
اختیار کرتا ہے آیا وہ جوخدا کو پسند ہے یا وہ جو شیطان کو پسند ہے۔
آپﷺ کی نسبت سے ہم مسلمانوں پر چار فرائض ہیں۔
۱۔ ایمان ۲۔ تعظیم ۳۔ قرآن کریم پر عمل ۴۔آپﷺ کے مشن میں مدد۔
آپﷺ کے مشن میں جہاں دعوت و تبلیغ ہے وہیں معاشرے میں پھیلی ہوئی بدعات و
رسومات کو ختم کرنا بھی ہے۔ان رسومات میں سے ایک شادی کے موقع پر ہونے والی
بدعات و رسومات بھی ہیں جو کہ انسان کے لیے ایک بوجھ بن چکی ہیں ۔ قرآن
کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
﴾ و یضع عنھم اصرھم و الاغلال التی کانت علیھم ﴿ سورة الاعراف:۷۵۱
”اصر“ یعنی وہ بوجھ جسے انسان لیکر چل نہ سکے۔اسمیں شادی کی مختلف رسومات
بھی شامل ہیں اور یہ رسومات ایک بوجھ ہیں جنکو ہم مسلمانوں نے اپنے سروں پر
لاد لیا ہے مثلا منگنی ، ہلدی ،مہندی،شادی کے شاندار کارڈ، ڈیکوریشن ،
بارات ، سہرا ،ویڈیو ریکارڈنگ اور فوٹو گرافی وغیرہ جو اب شادی کا لازمی جز
بن چکی ہیں اور جسمیں ہم مسلمان اسراف و تبذیر سے کام لیتے ہیں ۔
” اسراف“ کیا ہے ؟؟ ضرورت کی جگہ پر زیادہ خرچ کرنا۔دعوت میں جہاں تین یا
چار ڈش سے کام پورا ہو سکتا ہے وہاں آٹھ دس طرح کی ڈشیں تیار کی جاتی ہیں
اور جہاں دو جوڑے کپڑے سے کام ہو سکتا ہے وہیںپانچ چھ جوڑے کپڑے بنوائے
جاتے ہیں اسی کا نام اسراف ہے ۔
شادی میں آغازِ رسم منگنی سے ہوتا ہے جسمیں اب باقاعدہ دعوتِ طعام دی جانے
لگی ہے جبکہ منگنی کی رسم اسلام میں ہے ہی نہیں۔منگنی نکاح نہیں بلکہ محض
وعدہ نکاح ہے ۔اسی طرح ہلدی کی رسم بھی ایک ہندوانہ رسم ہے اور مہندی یقینا
دلہن کے لیے باعثِ زینت ہے مگر اسمیں عورتوں کا جمع ہونا ،محرم اور نامحرم
کامخلوط ہونااور دعوتیں دینا محض دکھاوا اور مال کا بے جا خرچ ہے۔نکاح کے
لیئے شاندار کارڈ چھپتے ہیںجسمیں ہزاروںروپئے خرچ کیے جاتے ہیں۔یہ تمام
چیزیںاسراف میں شمار ہوں گی۔جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
﴾ ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین ۔وکان الشیطان لربہ کفورا﴿ سورة بنی
اسرائیل:۷۲
فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا
شکرا ہے ۔
شیطان کا بھائی کیوں کہا گیا؟ کیونکہ شیطان مومنوں کو آپس میں لڑانا چاہتا
ہے ۔ ظاہر سی بات ہے ایک سیٹھ کی بیٹی کی شادی ہواور پوری کوٹھی کو
ڈیکوریشن کر کے سجایا گیا ہو اور لاکھوں روپئے خرچ کیے گئے ہوں تو اسمیں
کام کرنے والے چوکیدار ،باورچی اور دوسرے نوکر چاکر بھی یہ تمام فضول
خرچیاں دیکھیں گے، جنکی بیٹیاں جہیز نہ دے پانے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی
بوڑھی ہو رہی ہوں گی تو انکے اندرحسد اور بغض پیدا ہوگا اور یہ لوگ موقع
ملنے پر سیٹھ کو لوٹیں گے یا کہیں اور ڈاکہ ڈالیں گے۔
حدیث ہے ” کل مومن اخوة“ (ہر مسلمان بھائی بھائی ہے)۔ مگر شادیوں میں جو
دولت کا اظہار ہوتا ہے وہ ’دولت مندوں ‘کے لیے تو محض ایک کھیل ہے مگر وہی
شادی’ سفید پوشوں‘ کے لیے ایک بوجھ بن جاتی ہے اور انکو بھی سماج اور محلوں
میں اپنی ناک بچانے کےلیے تمام رسومات و لوازمات کو پورا کرنا پڑتا ہے۔اور
کچھ نہیں تو اس وجہ سے کہ میری بیٹی کیا سوچے گی کہ میرے والد مجھ سے محبت
نہیں کرتے اور غریبوں کی طرح مجھے رخصت کر دیا ۔چنانچہ جنکی تین یا چار
بیٹیاں ہو جاتی ہیں تو انکی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے کہ وہ انکی شادیاں
کیسے کرے گا۔چنانچہ وہ قرض ،زکوة اور مدد مانگ کر ان تمام رسومات کو پورا
کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اکثر اسمیں لوگ تباہ ہو جاتے ہیں۔
اسلیئے شادی ’سادگی‘ سے ہونی چاہیے مگر سادگی کا پیمانہ کیا ہے؟؟ ظاہر سی
بات ہے کہ ایک امیر کی سادگی کچھ اور ہو گی اور ایک غریب کی سادگی کچھ اور
ہو گی ۔تو ایک ایسی بنیاد ہونی چاہیے جس پر امیر اور غریب سب عمل کر سکیں ۔ایک
اصول طے ہو کہ جو بھی رسم یا تقریب حضورﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہو اسی کو
مضبوطی سے پکڑا جائے اور اسکو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق پورا کرا جائے اور
جو رسم یا تقریب آپﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو اسکی جڑ کاٹ دی جائے ۔اسکو
کم نہ کیا جائے کیونکہ وہ پھر بڑھ جائے گی اس لیے سرے سے جڑ ہی کاٹ دی جائے۔
علمائے کرام کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ اس سلسلے میں مسلمانوں کو بیدار
کریں مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ امیروں اور بااثر لوگوں کی بیٹیوں کی شادیاں
بڑی شان و شوکت سے ہوتی ہیں اور مزے کی بات یہ ہوتی ہے کہ نکاح تو مسجدوں
میں ہوتے ہیں مگر لڑکی کا ’ولیمہ‘ شاندار ہال میں دیا جاتا ہے ۔اور علمائے
کرام مسجدوں میں نکاح کرنے پر تعریف کرتے ہیں اور لڑکی کے ولیمے میں نہ صرف
شریک ہوتے ہیں بلکہ اس کے لیے گھنٹوں کی زحمت بھی گوارہ کر لیتے ہیں۔
علمائے کرام اور صاحبِ مال اپنا اپنا فرض ادا کریں تو شادی کی بہت سی رسمیں
انشاءاللہ ختم ہو جائیں گی ۔اگر علمائے کرام اپنے ’اسٹیٹس‘ سے نکل آئیں اور
اپنی شرائط پر سنت پر عمل کرتے ہوئے نکاح پڑھائیں تو معاشرے میں شادی بہت
آسان ہو جائے گی۔شرائط درج ذیل ہو سکتی ہیں-
مسجد میں نکاح : ترمذی شریف میں ایک حدیث ہے کہ” نکاح کا اعلان کرو اور
مسجدوں میں کرو“۔اور خود آپﷺ کی بیٹی کا نکاح مسجد میں ہوا تو کون مسلم ہے
جو یہ کہہ سکے کہ میری بیٹی حضرت فاطمہؓ سے زیادہ افضل ہے ؟؟ جب یہ مستحب
ہے تو ہم لوگ اس پر عمل کیوں نہیں کر رہے ہیں ؟کمی ہمارے علمائے کرام اور
مولوی حضرات کی بھی ہے ۔بلانے پر انکار کیسے کردیں؟’انتظامیہ‘ نکال دے گی
یا ’متولیان‘ ناراض ہو جائیں گے اس لیے جہاں بلایا جاتا ہے چلے جاتے ہیں ۔جبکہ
عیسائیوں میں یہ ہے کہ شہزادے کی شادی ہو یا شہزادی کی اسکو نکاح کے لیے
چرچ میں آنا ہی پڑے گا۔اور ہمارے یہاں غیرت کی بات ہے کہ ہمارے” علمائے
کرام یا مولوی حضرات“ کتاب یا رجسٹر لیئے پنڈال میں بیٹھے رہتے ہیں ۔نماز
کا وقت نکلا جا رہا ہے مگر بیٹھے سوکھ رہے ہیں ۔
نکاح سے ایک خاندان وجود میں آتا ہے تو دعا مانگی جاتی ہے ۔جسکے لیے ایک
ماحول ہوتا ہے جسمیں انسان اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو دعاﺅں میں
اثر ہوتاہے جس کے لیے مسجد بہتر ہے ۔ورنہ ہوتا یہ ہے کہ اعلی قسم کے
شامیانے لگے ہوتے ہیں اور شور و غل کا ایک طوفان برپا ہے ،قہقہے بلند ہو
رہے ہیں او ر سگریٹیں پی جا رہی ہیں اور ایک کونے میں مولوی بیچارہ بن کر
بیٹھا نکاح کا کچھ مِن مِن کرکے پڑھ رہا ہوتا ہے جیسے صرف دلہا کو سنا رہا
ہو اور پھر اچانک سے کہتا ہے کہ دعا مانگ لیں کیا خاک دعا مانگ لیں ؟؟؟ کچھ
دعا کا ماحول ہے؟پھر مسجد میں نکاح سے لڑکی والوں کے پیسے کی بچت ہو جاتی
ہے۔فضول خرچی نہیں ہو پاتی ہے کیونکہ مسجد میں ساری چیزیں موجود رہتی ہیں۔
بارات کی نفی: مسجد میں نکاح سے بارات کی بھی نفی ہو گئی ۔یہ ’بارات‘ لفظ
نہ تو قرآن کریم میں ،نہ حدیث میں اور نہ ہی عربی زبان میں استعمال ہوا
ہے۔یہ خالص ہندوانہ رسم ہے ہندﺅں میں جہیز کی حفاظت کے لیے لڑکے والوں کی
طرف سے بہت سارے لوگ دلہا کے گھر والوں کے ساتھ جایا کرتے تھے کیونکہ اس
زمانے میں ڈاکوﺅں وغیرہ کا ڈر رہتا تھا اور اسی کو بارات کا نام دیا گیا۔
رسمِ رخصتی کی نفی: اسی سے رخصتی کی رسم کی نفی ہو گئی ۔دلہا اور دلہن کے
گھر والے مسجد میں جمع ہوئے اور نکاح ہو گیاتو ختم بات اور لوگ اپنے اپنے
گھروں کو جائیں۔مگر اس میں بھی مسلمانوں نے ہندوﺅں کی تقلید میں رخصتی کی
رسم بنا لیااور اسمیں کیا کچھ ہوتا ہے آپ سب کو بخوبی معلوم ہے ۔حضرت فاطمہؓ
کو آپﷺ کی مستورات انصاری صحابہ کے دیئے ہوئے مکان میں چھوڑ آئی تھیں اور
حضرت علیؓساتھ نہیں تھے۔کیا یہ ہمارے لیے یہ قابلِ اسوہ نہیں ہے؟؟ اگر
رخصتی کی رسم ہوگی اور لڑکے والے آئیں گے تو دعوتیں ہوں گی ساری رسومات ہوں
گی۔بھلا بغیر کھلائے پلائے کون جانے دے گا؟
جہیز کی نفی: جہیز کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے یہ بھی ہندوانہ ہی رسم
ہے ۔ہندوﺅں میں وارثت صرف لڑکوں میں تقسیم ہوتی ہے اورلڑکیوں کو وراثت میں
کوئی حصہ نہیں ملتا ہے لھذا جب وہ لڑکی کو رخصت کرتے ہیں تو لڑکی کو کچھ دے
دلا دیتے ہیں یہی دان یا جہیز کہلاتا ہے ۔اسلام میں تو لڑکی کا باقاعدہ
وراثت میں حصہ ہے۔اور وراثت میں انکو حصہ نہ دینا کفر ہے۔اور جہیز کا جواز
یہ پیدا کیا گیا کہ آپﷺ نے اپنی بیٹی کو جہیز دیا تھا جب کہ جس نے بھی حضرت
فاطمہؓ کی لیے لفظ جہیز کا استعمال کیا ہے اس نے امتِ مسلمہ پر ظلم کیا ہے
۔حقیقت یہ ہے کہ آپﷺ نے جب حضرت فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے کرنے کا ارادہ
کیا تو آپﷺ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ مہر میں دینے کےلیئے کچھ ہے؟حضرت علیؓ
نے جواب دیا کہ نہیں ،بس زرہ ہے تو آپﷺ نے فرمایا اسی کو بیچ دواور حضرت
عثمانؓ نے اسکو۰۳ درہم میں خرید لیا(حضرت علیؓ کی خودداری کی وجہ سے) اور
پھر آپ نے حضرت علیؓ کووہ زرہ ہدیة واپس کر دی تھی۔انہیں ۰۳ درہم کو حضرت
علیؓ آپﷺ کے پاس لائے اور ان پیسوں سے آپﷺ نے ایک گدا،دو تکیہ ،ایک چکی اور
ایک مشکیزہ وغیرہ حضرت فاطمہؓ کے لیے خریدا۔اور یہ بھی اس وجہ سے کہ حضرت
علیؓ آپﷺ کی ہی سرپرستی میں تھے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی دوسری بیٹیوں کے
نکاح میں ہمیں جہیز کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ آپﷺ
اپنی بیٹیوں کے درمیان نا انصافی کریں گے؟؟ایک بیٹی کو دیں اور بقیہ بیٹیوں
کو نہ دیں؟؟
پھر بھی جہیز کی جڑ کاٹنا آسان نہیں ہے ۔دولت بہت پیاری ہوتی ہے اور لڑکے
والے منہ کھول کر مانگتے ہیں ورنہ لڑکی ہمیشہ کے لیے گھر پر بیٹھی رہ جاتی
ہے۔تو دینا بھی ہے تو اسکی نمائش نہ کی جائے ۔پہلے دے دیں یا بعد میں
دیں۔اور اسکو وراثت کی جگہ نہ سمجھ کے دیں ۔وراثت تو تقسیم کرنی ہی ہوگی
چاہے وہ کم ہو یا زیادہ۔
لڑکی کے ولیمہ کی نفی: باراتیوں کو کھانا کھلانا ہی ایک طرح سے لڑکی کا
ولیمہ ہے ۔لڑکی والوں کی طرف نکاح کی کوئی دعوت نہیں ۔شادی کی دعوت صرف ایک
ہے اور وہ صرف ولیمہ ہے جو کہ لڑکے والوں کی طرف سے ہوتا ہے کیونکہ لڑکے
والوں کے یہاں خوشی ہے اسکا گھر آباد ہو اہے ۔لڑکی والوں کے یہاں زیادہ سے
زیادہ سکون ہے کہ لڑکی اللہ تعالی کی مدد سے آج اپنے گھر کی ہو گئی۔سوچنے
کی بات ہے کہ نکاح کے موقع پر چھوہارے کون لائے گا؟؟لڑکے والے ۔اور
باراتیوں کو مرغ پلاﺅ کو ن کھلائے گا ؟؟ لڑکی والے۔ کیا لڑکی والے جب مرغ
پلاﺅ کھلا سکتے ہیں تو کیا ذرا سے چھوہارے نہیں بانٹ سکتے تھے؟؟اس لیئے
دعوت صرف ایک ہے اور وہ ہے ولیمہ ۔آپﷺ نے فرمایا ولیمہ ضرور کرو چاہے ایک
بکری ہی کیوں نہ ہو۔اور ایک حدیث میں فرمایا کہ ولیمہ کی دعوت ضرور قبول
کرواور ساتھ میں یہ بھی فرما دیا کہ ولیمہ کا کھانا برا کھانا ہے اگر اسمیں
غریبوں کو نہ بلایا جائے۔جب آپﷺ نے ولیمہ کی اتنی زیادہ تاکید کی ہے اور
اسمیں غریبوں کا بھی خیال رکھا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپﷺ نے لڑکی کے گھر
کھانے اور ایسی دعوتوں میں جانے کو کہنے سے بخل سے کام لیا ہو؟؟اور اسکے
لیے تاکید نہ فرمائی ہو؟؟ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔
ان تمام بدعات و رسومات کی اصلاح کرنے کا سب سے اچھا ذریعہ خطبہِ نکاح
ہے۔اسکے ذریعے ہم اپنی بات آسانی سے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں ۔یہ تعلیم و
تربیت کی ایک شکل ہی ہے جو کہ اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور قرآن کریم کی
بعض آیات اور بعض احادیث پر مشتمل ہے تاکہ اس کے ذریعے مرد کو جو کہ اپنی
ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے جا رہا ہے اسکی رہنمائی ہو سکے ۔ مگر ہمارے
یہاں عربی زبان سے ناواقفیت ہونے کی وجہ سے مسنون خطبہِ نکاح رسمی طور سے
پڑھا جاتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی
لوگوں کے سامنے نکاح کے مقصد اور شادی میں ہونے والی بدعات و رسومات سے
بچنے کی تلقین کی جائے کہ اسلام کے نزدیک شادی اس خوشی کا نام نہیں ہے
جسمیں انسان اللہ تعالی کو بھول جائے بلکہ اس خوشی کا نام ہے جس میں انسان
خدا شناسی اور خدا خوفی کا ثبوت دے۔ |