قصہ زہرا بٹیا سے ملاقات کا

ناصر ناکاگاوا صاحب کا مجھے فون آیا کہ ان کی ہمشیرہ زہرہ عمران مجھے ملنا چاہتی ہے‘ آ جائے؟ مجھے بینک چوکیدار والا قصہ یاد آگیا۔ ایک صاحب نے اس سے پوچھا کیا میں بینک کے اندر چلا جاؤں۔ چوکیدار نے صاف منع کر دیا۔ ان صاحب نے پوچھا اتنے لوگ اندر جا رہے ہیں انھیں تو منع نہیں کر رہے مجھے کیوں منع کرتے ہو۔ چوکیدار نے ترنت جواب دیا وہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں جو انھیں منع کروں۔ میرے لیے یہ چونکہ نیا تجربہ تھا۔ سارا دن واقف ناواقف آتے رہتے ہیں کبھی کسی کو اس قسم کی جرآت اور توفیق نہیں ہوئ۔ مجھ پر کھلا ‘ پوچھا بھی جاتاہے۔ میں کوئ لیڈر یا دفتری اہلکار تھوڑا ہوں جو پوچھا جاءے چوہدری صاحب حاضر ہونے کی اجازت ہے اور وہ ہر مفتے کو کل تا کل ٹالتے رہیں۔

ان کے پوچھنے پر احساس تفاخر تو نہ جاگا ہاں یہ ضرور محسوس ہوا کہ میں بھی ہوں۔ سچی پوچھیں مجھے اپنے ہونے کا یقین ہی نہ تھا۔ اس نہ ہونے کے یقین کو تصوف والا نہ سمجھیں۔ اس ملک میں جھوٹ فریب ہیرا پھیری ملاوٹ دغا دھوکا منافع خوری رشوت دھونس دھکا وغیرہ اور یہ شغل رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ کمزور یعنی لسے طبقے جس کا میں بھی ایک سیل ہوں۔ میرے سے لوگوں سے اجازت کی طلبی حیرت سے خالی نہ تھی۔ کسی ماڑے سے مطلب کے لیے پوچھا جاتا ہے یا کسی تگڑے کی کرنی اس کے سر ڈالنے کے لیے مرکب پوچھ گوچھ مستعمل ہے۔ ان کی تشریف آوری چونکہ خیر سگالی سے وابستہ تھی اس لیے کسی قسم کی فکرمندی بھی لاحق نہ ہوئ۔

سوچا بڑے فیشن ایبل لوگ ہوں گے۔ بٹھاؤں گا کہاں اور ملے گی کس سے۔ میری رہایش گاہ ‘ میں اور میری زوجہ ماجدہ تو طوفان نوح کی باقیات میں سے ہیں۔ اسے خدشہ خوف احساس کمتری یا کوی بھی نام دے لیں آپ قاری اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ عین ممکن ہے یہ تینوں یا ایک آدھ چیز اور بھی شامل حال ہو۔ گھر والوں کو مانجا بوکر کرنے کو کیا کہتا۔ سوچا جو جیسا ہے چلنے دو۔ دیکھا جائے گا۔ درمیان میں ایک دن تھا اس ایک دن میں کیا ہو سکتا تھا۔ دوسرا کرنے کے لیے دام درکار تھے اور دام اعلی شکشا منشی اور پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیش لاہور کے چوری خور اہل کاروں کی مٹھی میں بند تھے۔ نہ ان کے کام کے اور نہ میرے کام کے۔ انھیں کچھ کہا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ جینا جیسا بھی سہی‘ جی تو رہا ہوں ورنہ اس سے جاؤں گا۔ جب زوجہ ماجدہ کے کان میں یہ بات پڑی کہ وی آئ پی مہمان آرہے ہیں تو بیماری کے باوجود مجھ پر برس پڑیں۔ معاملہ برسنے تک رہتا تو خیر تھی‘ گرجیں بھی۔ یقین جانیے میں آج تک نہیں سمجھ سکا یا یہ ہر شدہ کی سمجھ سے بالاتر بات ہے۔ چارپائ لگی بیگم میں گرجنے برسنے کے لیے توانائ کہاں سے آ جاتی۔ اس کا ایک جملہ بڑے ہی کمال کا تھا: لوگوں کو بےایمانی لے ڈوبتی تھی لیکن آج بےایمانی کا شغل فرمانے والوں کی پانچوں انگلیاں ہی کیا وہ سراپا گھی کی کڑاہی میں ہیں۔ کوئ روک کوئ ٹوک نہیں۔ ہمیں تمہاری ایمانداری کی سزا بھگتنا پڑ رہی۔ اس کا گرجنا برسنا غلط نہیں تھا اس لیے پہلے میں میں کرتا رہا اور پھر سر سٹ کر بیٹھ گیا۔ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ کرنے کو میرے پاس تھا ہی کیا جو شدید ردعمل میں کرتا۔

میں پورے وجود کی ایمانداری کے ساتھ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ایک آدھ فیصد بھی نہ آیا کہ موصوفہ کا آنا جھوٹ ہی ہو جائے۔ سوچا دور دراز سے لوگ آتے ہیں کبھی کسی نے میری اور رہایش کی حالت خستہ کی شکایت نہیں کی۔ غالبا چالیس سال زیادہ عرصہ ہوا میں قاضی جرار حسنی کے قلمی نام سے لکھا کرتا تھا۔ اس دور کی فیشنل ایبل دو بیبیاں میری ایک کہانی کی تعریف کر رہی تھیں۔ مجھے بڑی خوشی ہوئ۔ میں نے بڑے فخر اور چوڑے ہو کر کہا قاضی جرار حسنی میں ہوں۔ انھوں نے میری طرف دیکھا اور پھر ایک طنز سے بھرپور تیر پھینکا: ایسے ہوتے ہیں قاضی جرار حسنی۔ میری بولتی بند ہو کر بوکی وہ جا گری۔ گھر آکر شیشہ دیکھا‘ ہمارے گھر میں آئینہ نہیں شیشہ ہوا کرتاتھا چہرے پر چب شب تو نہ تھے البتہ پہناوا غربا کی بستی والوں کا تھا۔ اندریں حالات بالا ان کا کہا غلط نہ تھا۔

مجھے مہمانوں کا انتظار تھا۔ کیسے مہمان تھے یہ بھی بازار سے کھا پی کر آگئے۔ اگلے وقتوں میں مہمان دو دن کی بھوک رکھ کر آتے تھے اور جانے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ زہرہ اور عمران مجھ سے ملے۔ بڑی حیرت ہوئ برقعہ میں۔ چند لمحوں کے بعد ہی وہ ہم اگلے زمانوں کے لوگوں سے گھل مل گیے۔ کیا شائستگی کیا سلیقہ کی یہ لڑکی ہے۔ بولتی ہے تو منہ سے گلاب جھڑتے ہیں۔ میں تو میں‘ میری بیٹی ارحا اور بیگم اسی کے ہو گئے۔ اجنبیت اور غیریت کا احساس تک نہ رہا۔ بلا کی ذہین و فطین ہے یہ لڑکی بھی۔ ہم تینوں کا دل ہی لے گئ۔ وہ مجھے اپنی بیٹی ارحا سے رتی بھر کم نہ لگی۔ بیٹیوں کے خاوند بیٹیوں سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ عمران صاحب بھی بڑے ہی پیارے لگے۔ باتیں ہوتی رہیں۔ پھر ہمارا مزار کمال چشتی جانے کا اتفاق ہوا۔ بڑا اچھا لگا میں دو بیٹیوں ایک داماد کے ساتھ گھومنے کے لیے نکلے ۔ میرا منہ بولا بیٹا فاروق بھی میرے ساتھ تھا۔

بے تکلفی اجازت دیتی تھی کہ رات رہنے کو کہوں لیکن بچوں کے حوالہ سے وہ رات ہمارے ہاں نہیں گزار سکتے تھے۔ بادل نخواستہ انھیں رخصت کرنا ہی پڑا۔

بیگم صاحبہ تو ساتھ تھیں ہی۔ بڑی ٹوہری عورت تھی بس وقت اور حالات نے مجھ سے تھوڑ پونجیے کے ساتھ چلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ زہرہ بٹیا نے ایسا کمال دیکھایا کہ اس کے آنے سے پہلے کی صورت حال یاد تک نہ رہی۔ وہ لمحہ تو وہ لمحہ اب تک یاد نہیں۔ دل میرا بھی کرتا اور چاہتا ہے کہ دونوں میاں بیوی دوبارہ سے اور اس کے بعد بار بار آتے رہیں لیکن کیا کریں زندگی کی تیز رفتاری نے ملاقاتوں کے لمحے ہی چھین لیے ہیں۔ کل بیگم کہہ رہی تھیں زہرہ اور عمران سے کہو ایکبار آ کر مل جاءیں۔ میں نے جوابا کہا زہرہ بٹیا میری اور تمہاری طرح فارغ نہیں ہیں انہیں اس آنے جانے کے علاوہ بھی بہت سے کام ہوں گے۔ ارحا تو زہرہ آپی کی مالا جپتی رہتی ہے۔

امید پر دنیا قائم ہے مجھے یقین ہے ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب دروازہ کھلے گا کیا دیکھوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زہرہ اور عمران مجھے کہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو بابا۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190833 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.