میرا نام ۔۔۔

راشدہ ۔۔۔ راشدہ ۔۔۔

یہ آج کا واقعہ ہے ۔۔۔ میرے شوہر نے مجھے پکارا ۔۔۔ پکارا کہنا غلط ہوگا وہ تو چنگھاڑتے ہیں ۔۔۔ گھر میں کوئی اور نہ تھا ۔۔۔ سناٹا تھا ۔۔۔ اور میں دوسرے ہی کمرے میں ان کے کپڑے استری کر رہی تھی جس کا انہیں علم تھا۔

ان کی آواز مجھے یک لخت اپنے ماضی میں لے گئی ۔۔۔ اور چند ساعتوں کے لئے میرے خیال کی دنیا میرے ماضی سے بھر گئی ۔

بہت چھوٹی تھی میں ۔۔۔ معصوم سی ۔۔۔ جب اِک دن میرا دل سہم گیا ۔۔۔ ان ہی الفاظ سے ۔۔۔ اپنے ہی نام سے ۔۔۔ راشدہ ۔۔۔ راشدہ ۔۔۔ اپنی دادی کی آواز میں سن کے ۔۔۔ میں اپنی ہم عمروں کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔۔۔ سالگرہ تھی میری ۔۔۔ لیکن میں نے تو نہیں بلایا تھا کسی کو ۔۔۔۔ خاندان میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے ہر سال ہی یہ ہوتا تھا ۔۔۔ خاندان کے قریبی لوگ بلائے جاتے تھے ۔۔۔ وہ بچے بھی اُنہیں کے ساتھ آئے تھے ۔۔۔ دادی کی آواز اور میرے نام نے ۔۔۔ سارے شور کو دبا دیا ۔۔۔ انہیں شور پسند نہیں تھا ۔۔۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب میں نے اپنے نام کے پکارے جانے کے ساتھ ایک خوف کو نتھی پایا ۔۔۔ ہو سکتا ہے پہلے بھی مجھے اس طرح پکارا گیا ہو ۔۔۔ لیکن مجھے یاد نہیں ۔۔۔ شاید یہ وہ وقت تھا جب رویوں کو محسوس کرنے کا عمل مجھ میں شروع ہو رہا تھا۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ بچے تو نا سمجھ ہوتے ہیں اس لئے احساس سے عاری ہوتے ہیں ۔۔۔ نہ ان میں انا ہوتی ہے جو مجروح ہو اور نہ ہی عزتِ نفس۔

اس دن کے بعد مجھے اپنے نام سے خوف آنے لگا ۔۔۔ جو بھی پکارتا ۔۔۔ دادی بن جاتا ۔۔۔ یہ نہیں کہ مجھے کسی نے پیار سے پکارا ہی نہ ہوگا ۔۔۔ ضرور پکارا ہوگا لیکن مجھے یاد نہیں ۔۔۔ میرے نام کی اس پکار کے ساتھ جڑ جانے والا خوف میرے ذہن سے جڑ گیا تھا ۔۔۔ خوف تمام احساسات پر حاوی ہو جاتا ہے ۔۔۔ اب تک کی زندگی میں نہ جانے کس کس نے مجھ سے کتنی باتیں کیں لیکن مجھے وہ یاد نہیں آئیں ۔۔۔ یاد آئیں تو وہ جو اس خوف کے ساتھ جڑی تھیں ۔۔۔ میرے نام کی پکار کے ساتھ۔

دادی تو دادی تھیں امی کون سا کم تھیں جن کی جگہ بعد میں ساس نے لے لی ۔۔۔ راشدہ! یہ کیوں نہیں ہوا؟ وہ کیوں نہیں ہوا؟ ۔۔۔ راشدہ! یہ کس نے کیا؟ وہ کس نے کیا؟ ۔۔۔ راشدہ! یہ نہ کرو ۔۔۔ وہ نہ کرو ۔۔۔ اپنی ہم صنف ہی کا کیا گلہ بھائی، ابا اور پھر شوہر صاحب کب پیچھے رہنے والے تھے ۔۔۔ ہر پکار کے ساتھ میرے لئے کوئی نیا حکم ۔۔۔ یا ۔۔۔ کسی کردہ نا کردہ کی جوابدہی۔

میں اپنے ان سب “اپنوں“ کے لئے راشدہ ہوں ۔۔۔ یہ لوگ مجھے نہیں جانتے ۔۔۔ میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں؟ ۔۔۔ انہیں تو میرا نام معلوم ہے ۔۔۔ ان کی ۔۔۔ میرے نام کی پکاروں کے ساتھ ان کی اپنی خواہشات جڑی ہوتی ہیں ۔۔۔ میری نہیں۔

میں کوئی لاپرواہ نہیں ۔۔۔ لیکن میں مشین بھی تو نہیں ۔۔۔ جو تھکتی نہ ہو ۔۔۔ جس میں احساس نہ ہو ۔۔۔ جس کی کوئی خواہش نہ ہو ۔۔۔ لیکن میرے اندر کے خوف نے مجھے مشین بنا دیا ہے میرا نام ہی اس مشین کا بٹن ہے ۔۔۔ میں ان لوگوں کے منہ سے اپنا نام سنتے ہی مشین بن جاتی ہوں ۔۔۔ آن ہو جاتی ہوں ۔۔۔ حکم بجا لانے کے لئے ۔۔۔ خدمت گزاری کے لئے۔

لیکن آج ۔۔۔ آج ایسا نہیں ہوا ۔۔۔ میرے شوہر نے مجھے تین چار مرتبہ آوازیں دیں ۔۔۔ میں جی جی کرتی ان کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئی ۔۔۔ وہ خود ہی آ گئے ۔۔۔ ایک نظر مجھ پہ ڈالی اور مڑ کر چلے گئے ۔۔۔ باڈی لینگوئج کیا ہوتی ہے؟ ۔۔۔ کتنی طاقتور ہوتی ہے؟ ۔۔۔ اس کا اندازہ مجھے آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا ۔۔۔ جو بات میں ساری زندگی کسی کو نہ کہہ سکی ۔۔۔ کہ مجھے اس طرح نہ پکارو ۔۔۔ مجھے بھی، میرے نام کے ساتھ پکارو ۔۔۔ وہ بات آج میرے وجود نے کہہ دی ۔۔۔ پوری قوت کے ساتھ ۔۔۔ اتنی قوت کے ساتھ ۔۔۔ کہ میرے شوہر کچھ نہ کہہ پائے۔

یہ کبھی نہ ہوتا ۔۔۔ کبھی بھی نہ ہوتا ۔۔۔اگر ۔۔۔ وہ ۔۔۔ مجھے نہ پکارتا ۔۔۔ مجھے،میرے نام کے ساتھ ۔۔۔ میں کبھی نہ جاگتی خود میں ۔۔۔ نہ جانے کیا تھا اس کی آواز میں کہ میں جاگ گئی اپنے اندر ۔۔۔ اُس کی آواز کے ساتھ۔ ۔۔۔ انہیں الفاظ کے ساتھ ۔۔۔

راشدہ ۔۔۔ راشدہ ۔۔۔ !!!

Dr. Riaz Ahmed
About the Author: Dr. Riaz Ahmed Read More Articles by Dr. Riaz Ahmed: 53 Articles with 44550 views https://www.facebook.com/pages/BazmeRiaz/661579963854895
انسان کی تحریر اس کی پہچان ہوتی ہےاس لِنک کو وزٹ کرکے بھی آپ مجھ کو جان سکتے ہیں۔ویسےکراچی
.. View More