کسی معاملے یا مسلے کے واضح نہ ہونے کی صورت میں تذبذب کی
کیفیت تکلیف دہ ہوتی ہے اور کسی غلط اقدام کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا
جا سکتا۔ ایسی حالت میں ردعمل‘ جوابی کاروائ‘ بچاؤ یا تدبیر کے حوالہ سے
غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ قطعی اور ضروری نہیں۔ جب معاملہ واضح ہو تو
تذبذب کی حالت یا کیفیت پیدا ہونا مجبوری اور جبر کے کھاتے میں آ جاتا ہے۔
جبر اور مجبوری کے کام درست نہیں ہوتے۔ اس میں خلوص رجحان لگاؤ کمٹمنٹ اور
ذہنی تعلق داری نہیں ہوتی۔ بلکہ باطنی سطع پر نفرت پنہاں ہوتی ہے۔ پریشر یا
مجبوری ختم ہونے پر ردعمل سخت نوعیت کا ہوتا ہے اور نفرت صدیوں تک چلتی ہے۔
پہلی نسل کا باطن سابقہ پر برقرار رہتا ہے پہلی نسل کے ختم ہو جانے کی صورت
میں دوسری نسل پکی پکی اختیاری کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ہندوستان میں اس کی
سیکڑوں مثالیں مل جاءیں گی۔ انگریز جب ہندوستان میں وارد ہوا جان کی سلامتی
کے لیے بہت سے لوگوں نے عیسائ مذہب اختار کر لیا۔ چرچ نے بھی بھرپور کردار
ادا کیا۔ یہ اختیاری معاملہ کئ نسلوں تک چلا۔ آج ان کی نسلیں دل و جان سے
اختیاری کی ہو گئ ہیں۔ کسی مذہب نظریہ طور یا کلچر کے غلط یا سہی ہونے سے
میرے موضوع کا سرے سے کوئ لینا دینا نہیں کیونکہ یہ معاملہ انگریز تک محدود
نہیں یہ معاملہ تو پہلے سے بلکہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ میں یہاں
تذبذب کی کارفرمائ کو واضح کرنا چاہتا ہوں۔
تذبذب کے سبب بے چینی اور پیدا ہوتی ہے۔ گھٹن ذہانت اور گزاری کی دشمن ہے۔
غالب کا یہ شعر اسی بات کو واضع کرتا ہے:
ایماں مجھے روکے ہے‘جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے‘ کلیسا‘ مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے دل اور ضمیر کی آواز۔
جو کھینچے ہے مجھے کفر چبر اور عصری صوت حال‘ عصری صورت کو دل دماغ اور
ضمیر کفر سمجھ رہ ییں۔
کعبہ: ماضی اور نظریاتی ورثہ۔
کلیسا‘ مرے آگے عصری جبر کے حوالہ سے موجودہ پوزیشن
موجودہ پوزیشن
گویا
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن
آخر کریں تو کیا کریں۔ انگریز کے تسلط کے بعد یہی صورت حال تھی۔
آج بھی برصغیر میں نہ ہنس نہ بٹیر کثرت سے دستیاب ہیں۔ یہ میری خیال آرائ
ہے ہو سکتا ہے غالب کے کہنے کا مطب اور مقصد کوئ اور رہا ہو۔ |