پاکستان پر بینکوں کی ہر گلی، محلہ یلغار کیوں ہے!

ایک زمانہ وہ تھا کہ ایک میل کے اندر دو بینک کھولنے کی اجازت نہیں تھی، اور ایک زمانہ یہ ہے کہ ہر گلی کوچے میں بینک دھڑا دھڑ کھل گئے ہیں اور ان کی تجوریاں منافع سے پھٹی جارہی ہیں۔

پاکستان پر بینکوں کی یہ یلغار اس لئے ہے کہ وہ یہ سودی کاروبار اپنے روپے سے نہیں، بلکہ پاکستانیوں کے روپے سے کرتے ہیں اور اربوں روپے سالانہ منافع کماتے ہیں۔ وہ اسطرح کہ لوگوں کے بنک ڈپازٹس اور نئے چھپنے والے کرنسی نوٹوں سے (جو چھپنے کے بعد حکومت کے بجائے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حوالے کئے جاتے ہیں، جو پاکستان میں سودی نظام کا سربراہ اور “بینکوں کا بینک“ ہے) سودی کاروبار کرتے ہیں، عوام کے ڈپازٹس پر انہیں برائے نام منافع دیتے ہیں اور اسٹیٹ بینک سے لئے جانے والے سرمائے پر اسٹیٹ بنک کے مقرر کردہ “بینک ریٹ“ پر سود دیتے اور اس سے بہت زیادہ “سود“ پر حکومت اور عوام کو قرض دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں بینک چارجز وغیرہ کے نام پر عوام کو لوٹنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ اسطرح حکومت(قوم) کا روپیہ، حکومت(قوم) کو سود پر دیا جاتا ہے، جو معہ سود واپس کیا جاتا ہے اور اسطرح حکومت(قوم) کو قلتِ زر میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض اور مزید قرض سے وقتی طور پر دور کی جاتی ہے، جس سے قوم قرضوں کی دلدل میں دھنس جاتی ہے اور مزید دھنستی چلی جاتی ہے۔اس صورتحال کے ذمہ دار راشی ارکانِ حکومت ہیں، جو بینکوں سے قرضہ لے کر معاف کروالیتے ہیں اور حکومت(قوم) کو ناقابلِ ادائیگی قرضوں کے خوفناک جال سے رہائی دلانے کے لئے کچھ نہیں کرتے۔

١٩٤٨ء میں قائدِاعظم نے اسٹیٹ بنک کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ کو اس سودی نظام سے نجات حاصل کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر انکی جلد ہی وفات ہو گئی اور پاکستان کی وزارتِ خزانہ “بینُ الاقوامی سود خوروں“ کے ایجنٹوں کے کنٹرول میں آگئی۔ اس لئے مالیاتی نظام میں کوئی اصلاح نہیں ہوسکی بلکہ پاکستان کو ترقّیاتی سرمائے سے محروم کرنے کی کاروائیاں ہونے لگیں۔ مثال: جب انگریز ہندوستان، پاکستان کی طرح برٹش ایسٹ افریقہ کو آزادی دینے لگے تو وہاں کے مسلمانوں نے اپنا تمام سرمایہ خفیہ طور پر پاکستان منتقل کرنے کا عندیہ دیا تھا جس سے بیشمار سرمایہ پاکستان میں آتا، جِسکی اس وقت شدید ضرورت تھی۔ مگر اسٹیٹ بینک نے سرمائے کی منتقلی پر ایسے بینک سرٹیفیکیٹ پیش کرنے کی پابندیاں لگائیں کہ راز افشاء ہو گیا اور ایک پیسہ پاکستان نہ آسکا۔ اس وقت سے اب تک یہاں کے مالیاتی نظام پر بین الاقوامی سودخوروں کا قبضہ ہے، جو پاکستان کو قرضوں کے جال میں جکڑتے چلے گئے اور علاقے کے “ایک پوشیدہ (Potential) امیر ترین ملک“ کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیتے۔

عام تاثر یہ ہے کہ مالیاتی نظام بہت پیچیدہ ہے، مگر یہ تاثر بالکل غلط ہے جو تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ سے عوام میں پیدا کیا گیا ہے۔ مالیاتی نظام کی اصلاح بہت آسان ہے : وہ اسطرح کہ اسٹیٹ بینک کو سودی نظام کی سربراہی سے ہٹا کر “قومی خزانہ“ بنایا جائے۔ اس میں ملک کو ترقّی دینے اور عوام کو روزگار فراہم کرنے کے لئے جتنی کرنسی کی ضرورت ہو، چھاپ کر رکھی جائے اور خکومت کے ترقّیاتی کاموں کے تمام بِلوں کی ادائیگی اس خزانے سے کی جائے۔

ایک ساتھ اتنے ترقیاتی کام کئے جائیں کہ کوئی بےروزگار نہ رہے۔ تعلیم اور علاج کو مستحقین کے لئے بالکل مفت کیا جائے۔ نیز فلاح و بہبود کے کاموں پر ہونے والے تمام تر اخراجات کرنسی چھاپ کر پورے کئے جائیں۔ یہ خیال دماغ سے بالکل نکال دیا جائے کہ اس سے “افراطِ زر“ یا مہنگائی ہوگی، جو سود خوروں کا ہمیں قرضوں کے جال میں پھانسنے کے لئے بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے۔ ہم درحقیقت “قلّتِ زر“ کا شکار ہیں، اس لئے اپنی کرنسی اپنے مفاد میں خرچ کرنے سے ہرگز مہنگائی نہیں ہوگی بلکہ ہر طرح کی پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ ہونے سے نہ صرف اندرونی اور بیرونی قرضوں سے نجات پائیں گے بلکہ اشیائے صرف اتنی سستی ہو جائیں گی کہ برّصغیر میں برطانوی دور کی ارزانی کو بھول جائینگے، انشاءاللہ۔

مگر اس کے لئیے قیادت کے بحران کا خاتمہ اور ایک انقلابی تحریک ضروری ہے۔ جو انشاءاللہ برپا ہو کر رہے گی، کیونکہ تمام آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی پاکستان کو وجود میں آنے کے چند سال بعد تباہ ہونے کے لئیے نہیں بلکہ عالمِ اسلام کا قائد بن کر امتِ مسلمہ کی “عظمتِ رفتہ“ بحال کرنے کے لئیے وجود میں لایا ہے اور انشاءاللہ یہ ہو کر رہے گا۔ موجودہ دور صفائی کا دور ہے۔ تمام “گندگی“ سطح پر آچکی ہے۔ اب اسکو صاف کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، دیکھیں یہ کس طرح ہوتا ہے۔ ۔ ۔ “پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ“ ۔ ۔ ۔

ظفر عمر خان فانی
About the Author: ظفر عمر خان فانی Read More Articles by ظفر عمر خان فانی: 38 Articles with 42013 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.