ملک کو دلدل سے نکالنے کا واحد راستہ

 بِلا شک و شبہ اِ س وقت پاکستان کا ہر محبِ وطن شہری ملک کی مو جو دہ صورتِ حال کی وجہ سے سخت الجھن اور پر یشانی کا شکا رہے، پورا ملک مختلف قسم کے بحرانوں میں گھرا ہو ا ہے۔اندرونی، ریجنل اور عالمی سطح پرموجود خطرات نے پاکستان کو اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ اس سے نکلنے کی صورت نظر نہیں آتی۔اگرچہ مختلف فورم پر دہشت گردی، مہنگائی، لو ڈ شیڈنگ اور بے روزگاری جیسے مسائل پر گفتگو اور ان کے حل کے لئے تجا ویز بھی پیش کئے جا تے ہیں مگر کو ئی بھی نسخہ کا رگر ثابت نہیں ہو تا اور مرض بڑھتا گیا ،جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق لوگوں کے مسا ئل و مشکلات میں کمی آ نے کی بجا ئے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو تا چلا جا رہا ہے۔آئیے ! آج اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کہ اس کی بنیا دی وجہ کیا ہے ؟ اور اس کا ممکنہ حل کیا ہے ؟

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی بنیاد اس ملک کا سیاسی نظام ہو تا ہے، سیاسی نظام پر ہی ملک کا ڈھانچہ استو ار ہو تا ہے۔ ہمارے ملک کا سیاسی نظام ایسے اسمبلیوں کو وجود میں لا تا ہے جو عوام کی ہر گز نما ئندگی نہیں کر تیں بلکہ اس نظام کے تحت ایک مخصوص ٹولہ اس ملک کے حکمرانی کے مناصب پر فا ئز ہو تا چلا آ رہا ہے وہ حسبِ ضرورت کبھی روٹی، کپڑا اور مکا ن کا نام لیتا ہے، کبھی ایشیا کا معاشی ٹا ئیگر بننے کا دعویٰ کرتا ہے، کبھی اسلام کا نام لیتا ہے اور کبھی جمہو ریت کا علمبردار بن کراقتدار کے ایوانوں میں قابض ہو جاتا ہے۔

ہمارے سیاسی نظام نے جا گیرداروں، سرمایہ داروں اور امراء طبقے کو اتنا مضبوط بنا دیا ہے کہ ان کے مر ضی کے خلاف کوئی قانون پاس کیا جا سکتا ہے نہ انتظامیہ ان کے مر ضی کے خلاف کو ئی قدم اٹھا سکتی ہے ۔دولت کے بل بوتے پر قا ئم اس نظام نے عوام کو مجبور اور امراء طبقہ کو مختارِ کل بنا دیا ہے۔ایک فرد جب سیاست کو تجارت سمجھ کر بر سرِ اقتدار آ تا ہے تو اس سے یہ تو قع ہر گز نہیں کرنی چا ہئے کہ وہ ذاتی اغراض و مقاصد کو چھو ڑ کر ملک کے مفاد میں پالیسیاں وضع کر یگا ۔ہمارے مو جو دہ سیاسی نظام کے تحت لوگ اپنے نظریئے، کردار،قابلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ دولت اور اثر و رسوخ کی وجہ سے حکمران چلے آ رہے ہیں ان کے سامنے عوام خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ پا نی کو دودھ اور دودھ کو شہد کہنے سے پانی دودھ بن جاتا ہے نہ دودھ شہد ہو تا ہے اس طرح ہمارے ملک میں قائم سیاسی نظام کے تحت قائم ہونے والی حکومت کو آپ لاکھ بار جمہوریت، جمہوریت پکارتے رہیں، صرف کہنے سے استحصالی نظام ، جمہوریت نہیں بن جاتا۔ جب تک جمہو ریت کی روح کے مطابق جمہوری اصولوں پر عمل نہیں کیا جاتا۔جمہوریت کا ہمہ وقت پرا پیگنڈا کرنا مگر عمل سے ثابت نہ کرنا، عوام کو آسانیاں فراہم کرنے کی بجائے مزید مشکلات میں ڈالنا جمہوریت نہیں، جمہوریت کی نفی ہے۔موجودہ سیاسی نظام کے تحت جو ارکانِ اسمبلی منتخب کیا جاتا ہے وہ عوام کے ساتھ کو ئی ذہنی رشتہ نہیں رکھتے، اٹھا نوے فی صد ارکانِ اسمبلی کا تعلق امراء طبقہ سے ہو تا ہے، امراء کے اپنے مسائل اور ذاتی دلچسپیاں ہو تی ہیں ۔ اقتدار اور اختیار حاصل کرنے کے بعد ان کو عوام سے کوئی د لچسپی نہیں ہو تی ۔اگر ہم گزشتہ پانچ چھ سالوں کا جائزہ لیں تو بظاہر ایک جمہوری حکومت رہی مگر اس جمہوری حکومتوں نے عوام کو کیا دیا ہے ؟ بد امنی، مہنگائی، بے روز گاری لوڈ شیڈنگ، ذہنی انتشار، یہ ہے جمہوری حکو متوں کا تحفہ ،۔۔۔۔<<< ،کافی غور و خوض کے بعد ہم جس نتیجہ پر پہنچتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب تک ہمرا سیا سی نظام درست نہیں ہو تا،جب تک عوام کے خیر خواہ اور حقیقی نما ئندے اسمبلیوں تک نہیں پہنچتے تب تک ملک مو جودہ اندھیروں سے نہیں نکل سکتا ۔موجودہ نظام کے تحت ارکانِ اسمبلی یا ان میں سے بننے والے وزیر اعظم ،وزراء‘ مشیر خلوص دِ ل سے عوام کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے نہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کا فہم، ادراک، ویژن اور صلاحیت رکھتے ہیں۔۔اگر ملک کو خونی انقلاب سے بچانا ہے اور مو جودہ دلدل سے نکالنا ہے تو اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ کہ ایک ایسا سیاسی نظام وضع کیا جائے جسکے تحت اسمبلیوں میں ایسے لوگ جا ئیں جو غریب عوام کے نما ئیندگی کا حق ادا کر سکیں۔امیدواروں کے لئے پاکیزہ کردار اور بے داغ ماضی کی سخت ترین شرائط رکھے جا ئیں ۔جن لو گوں نے قومی خزانے کو لو ٹا ہو ان کو الیکشن کے لئے نا اہل قرار دیا جائے۔ممبرانِ اسمبلی کے لئے مخصوص فنڈ، ا لاونسنز، ملازمتوں میں مخصوص نشستیں اور دیگر مرعات ختم کی جائیں۔کو ئی بھی رکنِ اسمبلی سر کاری محکموں یا حکومت خزانے سے نا جا ئز فا ئدہ اٹھانے کامر تکب ہو جا ئے تو فوری طور پر اس کی اسمبلی کی رکنیت ختم کی جا ئے ۔مو جودہ مسائل و مشکلات کی تمام تر ذمہ داری ہماری قیادت اور نا اہل حکمرانوں پر عائد ہو تی ہے ۔ لہذا اگر پاکستان کو دلدل سے نکالنے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا اگر کو ئی راستہ ہے تو وہ یہی ہے کہ ملک کے سیاسی نظام میں انقلاب لا کر ملک کو جا گیرداروں، سر مایہ داروں اور امراء طبقہ سے نجات دلائی جا ئے بصورتِ دیگر ملک کے مسائل و مشکلات میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہو تا چلا جائیگا ۔ کیونکہ جب تک کنویں سے کتے کوباہر نکال کرپھینک نہیں دیا جاتا تب تک کنویں کے پانی کا صاف ہو نا ممکن نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 285013 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More