آزاد کشمیر میں بدانتطامی اور کرپشن کم کرنے کے مطالبے کی
صورتحال میں وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کی سربراہی میں قائم پیپلز پارٹی
حکومت میں تین نئے مشیر مقرر کئے گئے ہیں۔آزاد کشمیر کے محکمہ سروسز اینڈ
جنرل ایڈ منسٹریشن سے جاری نو ٹیفیکیشن کے مطابق رولز آف بزنس 1985ء کے
سیکشن6-Aکے تحت وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے چوہدری محمد ریاض(فیصل آباد)
،راجہ مبشر اعجاز(باغ) اور چوہدری الیاس(کوٹلی) کو مشیران حکومت بنانے کی
منظوری دی ہے۔آزاد کشمیر کے عبوری آئینی ایکٹ میں آزاد کشمیر کے صدر یا
وزیر اعظم کے ساتھ مشیر کی تعیناتی کا کوئی ذکر نہیں ہے تاہم صدر ،وزیر
اعظم کے ساتھ مشیران کی تقرری کا راستہ رولز آف بزنس کے ذریعے نکالا گیا
ہے۔اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے تقریبا دوہفتے قبل اس کی منظوری دی تھی
تاہم اس کی سمری اب تک چیف سیکرٹری آفس میں پڑی رہی۔یہ اطلاع بھی ہے کہ
وزیر اعظم نے چوہدری محمد ریاض کے لئے’’ سینئر‘‘ مشیر کے عہدے کی منظوری دی
تھی تاہم رولز آف بزنس میں ایسا کوئی عہدہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے انہوں
نے منظوری میں سے سینئر کا لفظ نکال دیا۔یہ کہا جا رہا ہے کہ چوہدری محمد
ریاض تنخواہ نہیں لیں گے تاہم سرکاری گاڑی سمیت وزیر کے برابر دوسری مراعات
کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے چوہدری
محمد ریاض پی پی پی کی سینئر رہنما فریال تالپور کے قریب بتائے جاتے ہیں
اور گزشتہ پانچ سال وہ وزیر اعلی سندھ کے درجن بھر مشیروں میں شامل رہے۔
چند ہی دنوں قبل وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے مظفر آباد میں منعقدہ
کشمیر کونسل کے بجٹ اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری
عبدالمجید کو حد سے بڑہتی خرابیوں کو کم کرنے کی تلقین کرتے ہوئے حکومتی بد
انتظامی،کرپشن،اقرباء پروری سے متعلق صورتحال کو بہتر بنانے کی ہدایت بھی
کی تھی ۔لیکن چوہدری عبدالمجید حکومت نے’’ زرداری ہاؤس‘‘ کی آشیر باد میں
چند ہی دنوں بعد تین مشیروں کی تقرری کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان کی
ہدایات کے برعکس راستہ اختیار کیا ہے۔ایسا وزیر اعظم جو آزاد کشمیر میں
کرپشن کے سنگین الزامات کا تدارک نہیں کر سکتا،جو آزاد کشمیر کے آئینی ،انتظامی،مالیاتی
امور سے متعلق صرف خراب ہی نہیں بلکہ تشویشناک صورتحال سے متعلق امور کو
مخاطب نہ کر سکے،جو مالیاتی بحران کے باوجود مزید مشیران رکھنے پہ مجبور ہو،
اس ساری صورتحال میں اہم بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت آزاد کشمیر حکومت کی اس
’’سوچ اور اپروچ‘‘ کو کس نظر سے دیکھتی ہے اور کیا آزاد کشمیر میں
حکومتی،سیاسی صورتحال بہتر بنانے کے لئے وزارت امور کشمیر،کشمیر کونسل کے
ہدایات ناموں کے اجراء پر ہی اکتفا کیا جاتا رہے گا؟
کئی کا خیال ہے کہ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے حصے آزاد کشمیر میں پہلی
مرتبہ کسی پاکستانی شہری کو حکومت کا مشیر مقرر کیا گیا ہے۔وزیر اعظم آزاد
کشمیر کے قریبی افراد نے بھی ایک غیر کشمیری شخص کو آزاد کشمیر حکومت کا
مشیر مقرر کرنے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس
معاملے کو آزاد کشمیر ہائیکورٹ میں اٹھانے کی بات بھی ہو رہی ہے۔ کیا آزاد
کشمیر حکومت میں پہلے بھی پاکستانی افراد کو مشیر حکومت بنایا جاتا رہا ہے؟
اس بارے میں ماضی کو ذرا سا ہی کھنگالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب سردار
محمد عبدالقیوم خان کے دور میں پریشان خٹک مشیر رہے،ریٹارڈ وفاقی سیکرٹری
مذہبی امور عبدالحفیظ مشیر رہے،جن کا خصوصی دفتر اسلام آباد میں بھی قائم
کیا گیا تھا،بیرسٹر سکطان محمود چوہدری کے دور میں ارشد اولکھ مشیر
رہے،وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کی حکومت میں ہی آزاد کشمیر کے سابق چیف
سیکرٹری کاشف مرتضی بھی مشیر حکومت رہ چکے ہیںْ۔
چوہدری محمد ریاض کو آزاد کشمیر حکومت کا سینئر مشیر لگانے کی کوشش سے مجھے
یاد آ یا کہ آزاد کشمیر کے1975ء کے الیکشن میں سردار محمد ابراہیم
خان(مرحوم) کے’’ رائٹ مین‘‘ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے خواجہ محمد امین
مختار( جو وفات تک طویل عرصہ مسلم کانفرنس کے سیکرٹری جنرل بھی رہے)سردار
محمد ابراہیم خان کی الیکشن مہم کے انچارج تھے ،جو آزاد مسلم کانفرنس کی
قیادت کر رہے تھے ،وہ خود بھی راولپنڈی شہر کی سیٹ(اب کی ویلی4)سے الیکشن
لڑے اور صرف12/13ووٹوں کے فرق سے کامیاب نہ ہو سکے۔سردار محمد ابراہیم خان
الیکشن جیت کر آزاد کشمیر کے صدربن گئے۔انہوں نے خواجہ امین مختار کو مشیر
رائے شماری مقرر کر نا چاہا لیکن کسی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔مختصر یہ کہ
خواجہ امین مختار اس شرط پہ مشیر بننے پہ رضامند ہوئے کہ انہیں سینئر مشیر
بنایا جائے۔چناچہ سینئر مشیر کی خصوصی اجازت وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار
علی بھٹو سے ھاصل کی گئی ۔ یوں خواجہ امین مختار1975ء میں صدر آزاد کشمیر
کے سینئر مشیر بنے اور 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لگنے پر انہوں نے
پاکستان میں مارشل لاء لگنے کے خلاف بطور احتجاج اپنے عہدے سے استعفی دے
دیا۔
کسی مخصوص شعبے سے متعلق اس شعبے کے ماہر کی مشاورت کی ضرورت پر وزیر اعظم
کی طرف سے اس کا تقرر مناسب ہوتا ہے۔پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے ایک
منظور نظر چوہدری محمد ریاض فرام فیصل آباد کو آزاد کشمیر حکومت کا مشیر
بنانے سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی نگرانی اور
انتظام کرنے والوں نے اب مختلف فرمائشوں کے ساتھ ساتھ اب آزاد کشمیر حکومت
کو ’’سیاسی ایڈ جسٹمنٹ‘‘ کا ذریعہ بھی بنا لیا ہے۔ کیا پاکستان کا کوئی شخص
آزاد کشمیر حکومت کا مشیر بن سکتا ہے اور کیا ایسا کرنا کشمیر کاز کی روشنی
میں مناسب ہے ؟ہو سکتا ہے کہ اس بارے میں قانون میں کوئی راہ نکل سکتی ہو
لیکن اس سے کشمیروں کو غلط پیغام مل رہا ہے اور یہ بات بھی واضح ہو تی ہے
کہ سیاسی مفادات کے لئے قومی مفادات کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ایسے فیصلے
اور اقدامات جن سے کشمیریوں میں مخالفت ،بیزاری کا احساس پیدا ہو ،کسی طور
بھی قومی مفاد میں قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ |