وزیراعظم نوازشریف نے 11مئی کے انتخابات کی مہم کے دوران
نوجوانوں سے کیاہواوعدہ گزشتہ روز پوراکرتے ہوئے 21سے 45سال تک کے نوجوانوں
کے لئے قرضہ سکیم کاافتتاح کیا۔ قرضہ سکیم کے لئے ابتداء میں 100ارب روپے
کی رقم مختص کی گئی ۔ یوتھ بزنس لون پروگرام کے تحت ایک لاکھ سے بیس لاکھ
روپے تک کے قرضے دئیے جائیں گے۔ خیال کیاجارہاہے کہ اس پروگرام سے نوجوان
کو اپنا مستقبل سنوارنے کاموقع ملے گا نیز یہ پروگرام خوشحال پاکستان کی
جانب ایک قدم ہے مگر ماضی کی حکومت کے اس طرح کی پالیسی پر گہری نظررکھنے
والے دانشمند اور تجزیہ نگار اس کارِ خیر سکیم میں پاکستان کی عوام کی خون
پسینے کی کمائی کو ضائع ہوجانے کی خطرے کی گھنٹی سے تشبیہہ دے رہے ہیں اُن
کے خیال کے مطابق عوام کو رقم قرض دینے کی بجائے اس رقم سے ملک کے اندر
حکومت اپنی جانب سے متعدد فیکٹریاں لگا کرملک میں پھیلی بے روزگاری کاسدباب
کرسکتی تھی اس سلسلے میں بینظیر انکم سپورٹ کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ اس
سکیم پر خطیررقم خرچ ہونے کے باوجود یہ رقم قومی معیشت کی بہتری یابحالی
میں کوئی کردار ادانہ کرسکی۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی جناب پیلی ٹیکسی سکیم
جس کامقصد نوجوانوں کوروزگار مہیاکرناتھا مگر اس کی آڑ میں لاکھوں گاڑیاں
بغیرڈیوٹی یاکم ڈیوٹی پر درآمد کرنے کے بعد رنگ تبدیل کرکے مارکیٹوں میں
فروخت کے لئے لائی گئیں لہذا یوتھ بزنس لون سراسرمریم نواز کولاؤنج کرنے کی
درحقیقت کاوش محسوس ہوتی ہے البتہ دوسری جانب 406 یونین ممالک کی جانب سے
پاکستان کادرینہ موقف ہمیں ایڈ نہیں ٹریڈ چاہئے کوپوراکرتے ہوئے ایسے موقع
پر پاکستان کو GSP+ کادرجہ دیاگیا جب بنگلہ دیش میں 1971ء کی جنگ میں
پاکستانی افواج کی حمایت کرنے پربنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے رہنما حاجی
عبدالقادر ملا کو پھانسی مل گئی حالانکہ اس وقت اقوام متحدہ کے 105رکن
ممالک سزائے موت کے خاتمے کافیصلہ کرچکے ہیں نیز یورپی یونین پاکستان پر
دباؤ ڈالتی ہے کہ اگرتجارتی مراعات حاصل کرنی ہیں تو سزائے موت کے قانون
پرعمل درآمدبندکرو جبکہ ورلڈ بینک کہتا ہے کہ ہندوستان کو تجارت کیلئے
پسندیدہ ملک کادرجہ دو۔ اَب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کو جی ایس پی
پلس کادرجہ حاصل ہونے کے باوجود اس ملک کو سزائے موت کی شرائط سے استثنیٰ
حاصل کیسے ہوئی۔ یورپی ممالک کی اس دوغلی پالیسی کے باوجود پاکستانی ماہرین
امید کررہے ہیں کہ اس سے یورپی مارکیٹ میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات پر
کوئی ڈیوٹی ادانہ کرنے کی صورت میں پاکستانی برآمدات میں اضافہ کے علاوہ دس
لاکھ خواتین اور بے روز گار افراد کو روزگار ملے گانیز سکیم کے تحت پاکستان
کو اپنی مارکیٹ کو بڑھانے کے علاوہ ایک ملین ڈالر سے پانچ ملین ڈالرتک
فائدہ حاصل ہوسکتا ہے یقینا جی ایس پی پلس کاحصول سفارتی محاذ پر بادی
النظر ایک بڑی کامیابی نظر آتی ہے نیز اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس
سکیم کے تحت ملنے رعایت سے پاکستانی معیشت کو بڑاسہاراملے گا مگر جنا ب ذرا
ٹھرئیے اور غورکریں بلاشبہ ا س سہولت سے ٹیکسٹائل ، جانوروں کی کھالیں،
کپڑے، سبزیوں اور مچھلیوں سمیت دیگر شعبے مستفید ہونگے مگر اس رعایت میں
بیڈ ویر ریڈی میٹ گارمنٹس اور کاٹن فیبرکس شامل نہیں۔ سوال یہ پیداہوتا ہے
کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس کے تحت جن اشیاء پر چھوٹ ملی ہے اُن میں سے
اکثر اشیاء پاکستان خود بھارت سے خرید رہاہے تودوسری جانب بھارت پاکستانی
پانی پر قابض ہوکرپاکستان کو توانائی سے محروم کئے ہوئے ہے۔ تیل کے نرخ
آسمان سے باتیں کرنے کے علاوہ گیس کی قلت عام ہے۔اس صورتحال میں چار سال
میں 26ارب ڈالرکابرآمدی حدف صرف خواب بن کرہی رہ جانے کے قابل محسوس ہوتاہے
۔ یقینا یہ صورتحال پاکستان کے معاشی ماہرین کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ |